پاکستانی دستاویزی فلم ۔ سیونگ فیس ۔ نے آسکر ایوارڈ حاصل کرلیا۔

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


گزشتہ ہفتے ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک ميٹينگ ميں شامل تھا جہاں ايک سينير امريکی اہلکار نے ازراہ مذاق کہا کہ کم از کم اس ہفتے تو پاکستانيوں کی جانب سے امريکہ پر کی جانے والی نکتہ چينی ميں کچھ کمی آئ ہو گي۔ ان کا اشارہ لاس اينجلس کی تقريب ميں پاکستان کی پہلی خاتون فلم ميکر کو ديا جانے والا آسکر ايوارڈ تھا۔ ميں نے اس موقع پر اپنے تحفظات کا اظہار کيا کيونکہ ميں سازشی سوچ اور بغير حقائق جانے صرف تنقيد برائے تنقید کے طرزعمل سے بخوبی واقف ہوں۔

ليکن خود ميرے ليے بھی اردو فورمز پر پاکستان کی ايک فلم ميکر کو آسکر ايوارڈ ديے جانے کے بعد شديد ردعمل اور بے شمار پيغامات حيران کن تھے۔ کچھ رائے دہندگان اسے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانيوں کو بالخصوص بدنام کرنے کے ليے امريکی سازش اور جامع منصوبہ بندی قرار دے رہے ہيں۔ پاکستان کے مشہور کالم نگار اوريا مقبول جان کا اس حوالےسے لکھا جانے والا آرٹيکل بغير حقائق کی تحقيق کيے مقبول عام جذبات کو ايک خاص رخ پر ڈالنے کے ضمن ميں ايک واضح مثال ہے۔

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ جو کوئ بھی ان انتہائ پيچيدہ اور طويل مراحل سے واقف ہے جو اس ايوارڈ کے ضمن ميں وضع کيے گئے ہيں وہ اس حقيقت سے انکار نہيں کر سکے گا کہ امريکی حکومت، ہماری خارجہ پاليسی اور يہاں تک امريکی عوام کی خواہشات اور امنگوں کا بھی حتمی نتائج پر اثرانداز ہونے کا کوئ امکان نہيں ہوتا۔ ہزاروں کی تعداد ميں فلم کے متعلقہ شعبوں سے منسلک ماہرين، اساتذہ اور تکنيکی معلومات کو سمجھنے والے اہم افراد اس سارے عمل ميں شامل ہوتے ہيں۔ ايوارڈ کی تقريب سے قبل کسی کو بھی جيتنے والوں کے ناموں کا علم نہيں ہوتا۔ يہ تاثر کہ امريکی حکومت سميت کوئ بھی ايک مخصوص لابی اپنے مخصوص سياسی ايجنڈے يا خارجہ پاليسی کے حوالے سے عوام کی رائے کو ايک خاص رخ پر ڈالنے کے ليے اس ايوارڈ کے نتائج ميں ردوبدل کر سکتی ہے، بالکل غلط اور بے بنياد ہے۔

ماضی ميں ايسی درجنوں مثالیں موجود ہيں جب آسکر ايوارڈ جيتنے والی فلموں کے موضوعات اور ان کو بنانے والے ماہرين نے برملا امريکی حکومت کی پاليسيوں پر شديد تنقيد کی ہے، بلکہ بعض موقعوں پر تو ايسے موضوعات بھی سامنے آئے جو مقبول عوامی رائے سے متصادم اور روايات کے برخلاف تھے۔ ليکن ان فلموں اور ان کو بنانے والے ماہرين کو موضوعات کی وجہ سے نہيں بلکہ تکنيکی مہارت اور بہترين کاوش کی بدولت ايوارڈ سے نوازا گيا۔

ايک پاکستانی فلم ميکر کا اس ايوارڈ کو جيتنا ان اصولوں سے ہٹ کر نہيں ہے۔ انھيں اپنی قابليت اور بہترين تکنيکی صلاحيتوں کو کاميابی سے بروئے کار لانے کی بدولت ايوارڈ ديا گيا۔ امريکی حکومت کی جانب سے ان کے کام کی پشت پنائ يا حمايت کا اس سارے عمل سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall



 

محمداحمد

لائبریرین
حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے اسی لئے بری بھی لگتی ہے۔ لیکن برائی پر پردہ ڈال دینے سے برائی کبھی نہیں رکتی۔

اگر ہمارے ہاں اس معاملے میں حکومت خاطر خواہ اقدامات کر رہی ہوتی تب شاید ہمیں اطمینان ہوتا کہ اس معاملے کو باقائدہ اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ حکومت اس معاملے میں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس بات کو ایک بہتر طریقے سے منظرِ عام پر لانے کے علاوہ کیا حل ہے۔

ٹھیک ہے۔ چلیے مان لیا کہ امریکہ بہت برا ہے، وہ ہماری ہر برائی کو ایکسپلائٹ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ایسے نادر مواقع فراہم کرنے والے کون ہیں ۔ ہم ، ہمارے لوگ، ہماری حکومت ۔ تو پھر ہمیں چاہیے کہ کبھی کبھار ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کے بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اردو فورمز پر آسکر ايوارڈز کے حوالے سے جاری بحث اور اس ضمن ميں يہ غلط دعوے کہ اس پليٹ فورم کو مسلمانوں اور پاکستانيوں کی تذليل کے ليے استعمال کيا گيا، عمومی طور پر غلط معلومات، تاثرات اور مستند تاريخی حقائق کو مسخ کر کے بيان کے جانے والے تبصروں پر مبنی ہيں۔ مشہور کالم نگار اوريا مقبول جان کا اس حوالے سے لکھا جانے والا کالم جو کہ قريب تمام ہی فورمز پر پوسٹ کيا گيا ہے واضح مثال ہے کہ کيسے جذبات اور سوچ کو دانستہ ايک خاص رخ پر ڈال کر اس کہانی کو مخصوص سياسی سوچ کو ترويج دينے کے ليے استعمال کيا گيا۔

اپنے دلائل کو تقويت دينے کے ليے اوريا مقبول جان اور ديگر تبصرہ نگاروں نے جو تاويليں پيش کی ہيں، ان کا ايک جائزہ پيش ہے۔

اپنے کالم ميں اوريا مقبول جان ايک موقع پر بڑے جذباتی انداز ميں امريکی معاشرے ميں موجود خرابيوں کا تذکرہ کرتے ہيں اور يہ نقطہ اٹھاتے ہيں کہ ايوارڈز کی تقريبات ميں ان تمام مسائل کو دانستہ نظرانداز کیا جاتا ہے تا کہ پوری دنيا ميں امريکہ کا مثبت اميج پيش کيا جا سکے۔ اس ضمن ميں وہ "عادی قاتلوں" يا "سيرئيل کلرز" کی مثال پيش کرتے ہيں اور امريکی معاشرے پر اس حوالے سے تنقيد کرتے ہيں کہ ان انتہائ اہم معاشرتی مسائل کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔

يقينی طور پر اوريا مقبول جان "سائلينس آف دا ليمب" نامی فلم سے واقف نہيں ہيں جس ميں انھی عادی قاتلوں کے قبيح گناہوں کو موضوع بنايا گيا ہے۔ سال 1992 ميں اس فلم نے تمام اہم شعبوں ميں اس سال کے آسکر ايوارڈز حاصل کيے تھے جن ميں سال کی بہترين فلم، بہترين ہدايت کار، بہترين اداکار، بہترين اداکارہ، اور بہترين کہانی کے ايوارڈز شامل تھے۔ آسکر ايوارڈز کی پوری تاريخ ميں صرف5 فلميں ايسی ہيں جنھيں تمام اہم شعبوں ميں بيک وقت ايوارڈز ديے گئے۔ "سائلينس آف دا ليمب" انھی 5 فلموں ميں سے ايک ہے۔

اسی طرح اوريا مقبول جان اور ان کی سوچ کی تائيد کرنے والے رائے دہندگان نے يہ نقطہ بھی اٹھايا کہ دستاويزی فلموں کے شعبے ميں ہميشہ مخصوص طرح کے موضوعات پر مبنی فلموں کو ہی اجاگر کيا جاتا ہے اور ايسی کسی فلم کو اہميت نہيں دی جاتی جس سے امريکہ کا منفی اميج دنيا کے سامنے آنے کا امکان ہو يا جن فلموں کے سامنے آنے سے ہماری خارجہ پاليسی کے حوالے سے ليے گئے فيصلوں کو زک پہنچ سکتی ہو۔

يہ بات سراسر غلط ہے۔

اس ضمن ميں صرف سال 2008 [SIZE =5]ميں بہترين دستاويزی فلم کا ايوارڈ جيتنے والی فلم کا موضوع اور اسی سال نامزد ہونے والی بہترين دستاويزی فلموں کی تفصيل کچھ يوں ہے۔[/SIZE]

Taxi to the dark side.
No End in Sight
Operation Homecoming: Writing the Wartime Experience
Sicko

اس فہرست ميں ايک فلم ميں عراق کی جنگ پر شديد تنقيد کی گئ ہے۔ ايک اور فلم ميں عراق ميں امريکی فوجيوں کے کرب کودکھايا گيا ہے، اسی طرح ايک اور فلم ميں امريکہ ميں صحت عامہ کے شعبے کو شديد تنقيد کا نشانہ بنايا گيا۔ اس کے علاوہ ايک فلم ميں معصوم عراقيوں پر مبينہ ظلم وستم کو موضوع سخن بنايا گيا ہے۔

آسکر ايوارڈز کی طويل تاريخ ميں موجود بے شمار فلموں ميں سے ميں نے صرف ايک مثال آپ کے سامنے پيش کی ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت دنيا بھر سے ان موضوعات پر بننے والی فلموں کی تشہير کر کے اور انھيں بہترين ايوارڈز سے نواز کر اپنی خارجہ پاليسی کے حوالے سے ليے جانے والے فيصلوں کے ضمن ميں تائيد اور حمايت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟

اسی طرح ميں نے اردو فورمز پر بار بار يہ تبصرہ ديکھا ہے جس ميں تجزيہ نگاروں اور رائے دہندگان نے يہ الزام لگايا ہے کہ امريکی حکومت کی شہ پر آسکر ايوارڈز کی انتظاميہ کی جانب سے ايسی فلموں کو اجاگر کيا جاتا ہے جن ميں ريڈ انڈينز کی تضحيک کا پہلو نماياں ہوتا ہو۔ ان تمام دوستوں کی معلومات کے ليے سال 1991 ميں 8 آسکر ايوارڈز لينے والی فلم "ڈانسس ود دا وولوز" کا حوالہ دوں گا جس نے ديگر شعبوں کے علاوہ سال کی بہترين فلم کا ايوارڈ بھی حاصل کيا۔


(جاری ہے)

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جن دوستوں کی جانب سے يہ الزام بڑے جذباتی انداز ميں سامنے آيا ہے کہ امريکہ ہميشہ اپنے جنگی معرکوں اور فوجی کاروائيوں پر پردہ ڈالنے کی پاليسی پر عمل پيرا ہوتا ہے، ان کے ليے ميرا مشورہ ہے کہ امريکہ پر محض تنقيد برائے تنقيد کی بجائے اس ضمن ميں تاريخی حقائق پر ايک نظر ڈال کر اپنی رائے قائم کريں۔

ويت نام کی جنگ کے خاتمے کے بعد مختلف دہائيوں ميں امريکہ کی فلم انڈسٹری نے جنگ کے موضوع پر ايسی بے شمار فلميں دنيا کے سامنے پيش کيں جن ميں امريکہ کی ويت نام کی جنگ ميں شموليت پر سخت تنقيد بھی کی گئ اور امريکہ کے مبينہ جنگی جرائم کے علاوہ فوجيوں پر جنگ کے منفی اثرات کو بھی بڑی تفصيل سے اجاگر کيا گيا۔ ان فلموں ميں امريکی فلم انڈسٹری کے بہترين اداکاروں اور ہدايت کاروں نے بہترين تخليقی کاوشوں کو برؤے کار لا کر نا صرف يہ کہ بے شمار آسکر ايوارڈز حاصل کيے بلکہ ان فلموں نے باکس آفس پر بھی مقبوليت کے نئے ريکارڈز قائم کيے۔

ان ميں سے چيدہ چيدہ فلموں کی تفصيل پيش ہے۔

80 اور 90 کی دہائيوں ميں مشہور زمانہ ہدايت کار اوليور سٹون نے ويت نام کی جنگ کے حوالے سے اپنی تين مشہور فلميں پيش کيں۔

اسی طرح ايسی بے شمار فلموں کی تفاصيل بھی موجود ہيں جن ميں ويت نام جنگ کے دوران اور اس کے بعد فوجيوں کی حالت زار کے حوالے سے ايسے واقعات فلم بند کيے گئے جن ميں امريکی حکومت کو منفی انداز ميں پيش کيا گيا۔
ان ميں "مسنگ ان ايکشن" (1984) اور "ريمبو: فرسٹ بلڈ پارٹ ٹو" (1985) قابل ذکر ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
اس کے بارے نوائے وقت میں اجمل نیازی کا کالم اچھا تجزیہ تھا ، جو مسلم معاشرے اور پاکستانی کلچر کو کھل کربدنام کرے گا اسے ایوارڈ دیا جائے گا، مختاراں مائی اور شرمین ، ٹوٹلی میڈ ان ویسٹ ۔ ویسے آسکر کی محفل میں رمین کا لباس اچھا تھا۔ چشم بدور ، مکمل اسلامی اور پاکستانی لباس تھا
 

سید ذیشان

محفلین
اس کے بارے نوائے وقت میں اجمل نیازی کا کالم اچھا تجزیہ تھا ، جو مسلم معاشرے اور پاکستانی کلچر کو کھل کربدنام کرے گا اسے ایوارڈ دیا جائے گا، مختاراں مائی اور شرمین ، ٹوٹلی میڈ ان ویسٹ ۔ ویسے آسکر کی محفل میں رمین کا لباس اچھا تھا۔ چشم بدور ، مکمل اسلامی اور پاکستانی لباس تھا
مجھے شدید حیرت ہے کہ آپ کے خیال کے مطابق مختاراں مائی نے پاکستان کو بدنام کیا۔ آپ rape victims کو یہ تجویز دیں گے کہ وہ خاموشی سے گھناونے جرائم کو سہتی رہیں اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں؟ کیا آپ کا رویہ تب بھی ایسا ہی ہو گا اگر خدانخواستہ آپ کے جاننے والے اس ظلم کا شکار ہوں؟
 
مجھے شدید حیرت ہے کہ آپ کے خیال کے مطابق مختاراں مائی نے پاکستان کو بدنام کیا۔ آپ rape victims کو یہ تجویز دیں گے کہ وہ خاموشی سے گھناونے جرائم کو سہتی رہیں اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں؟ کیا آپ کا رویہ تب بھی ایسا ہی ہو گا اگر خدانخواستہ آپ کے جاننے والے اس ظلم کا شکار ہوں؟
کسی کے موقف سے اختلاف اپنی جگہ ہے مگر (جاننے والوں پر اس ظلم کا شکار ) ہونے کی طنز بڑی گھٹیا اور بداخلاقی ہے ،شرم آنی چاہئے ایک شریف آدمی پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے
 

حماد

محفلین
اس کے بارے نوائے وقت میں اجمل نیازی کا کالم اچھا تجزیہ تھا ، جو مسلم معاشرے اور پاکستانی کلچر کو کھل کربدنام کرے گا اسے ایوارڈ دیا جائے گا، مختاراں مائی اور شرمین ، ٹوٹلی میڈ ان ویسٹ ۔ ویسے آسکر کی محفل میں رمین کا لباس اچھا تھا۔ چشم بدور ، مکمل اسلامی اور پاکستانی لباس تھا
مختاراں مائ ضلع مظفر گڑھ کے ایک پسماندہ دور دراز گاؤں سے تعلق رکھنے والی وہ "قوم کی بیٹی" ہے جس نے مردوں کے معاشرے میں، ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اسے آپ "میڈ ان ویسٹ" کسطرح سے قرار دے سکتے ہیں؟ صرف اسلئے کہ اسنے خاموشی سے ظلم سہنے کے بجائے ان ہزاروں لاکھوں عورتوں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا جن کی حیثیت معاشرے میں بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی۔؟
 
قوم کی بیٹی امریکی قید، ظلم و تشدد سہنے والی عافیہ صدیقی ہے نا کہ امریکی اور برطانوی خرچوں پر ساری دنیا گھوم کر پاکستانی معاشرے کو بدنام کر کے کروڑ پتی بننے والی مختاراں مائی
 

شمشاد

لائبریرین
کہاں مختاراں مائی اور کہاں عافیہ صدیقی

مختاراں مائی کو این جی اوز نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ملکوں ملکوں گھمایا تھا۔ وہ خود بیچاری ان پڑھ بھلا کیا ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی۔
 

سید ذیشان

محفلین
کسی کے موقف سے اختلاف اپنی جگہ ہے مگر (جاننے والوں پر اس ظلم کا شکار ) ہونے کی طنز بڑی گھٹیا اور بداخلاقی ہے ،شرم آنی چاہئے ایک شریف آدمی پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے
سب سے پہلے تو یہ کہ یہ آپ کی نیچ سوچ ہے کہ آپ مجھ پر بہتان لگا رہی ہیں کہ میں نے طنز کی ہے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ پوسٹ آپ سے متعلق نہیں تھی تو آپ کو خدائی فوجدار بننے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ میں نے صرف ایک فرضی سوال کیا ہے اور اس سوال کرنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ عام طور پر اگر کسی اور کے اوپر پریشانی آتی ہے تو انسان کا رویہ مختلف ہوتا ہے لیکن اگر خود پر پریشانی آئے تو انسان مختلف رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور میں نے یہ سوال اس لیے کیا کہ موصوف تمام rape victims کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا ہر واقع کے لیے اپنا پیمانہ بنا رکھا ہے۔
 
زیش صاحب آپکی آئی ڈی کی نہ کوئی شناخت ہے اور نہ کوئی پہچان، آپ کو فری ہینڈ حاصل ہےجو دل میں آئے کہہ سکتے ہیں ۔ میں آپکے کسی کومنٹ کا جواب نہیں دوں گا۔ مجھے اس طنزیہ اور جغت بازی لہجے میں بات کرنا اورسننا اچھا نہیں لگتا، آپ کہیں پیاروں کا طعنہ دے رہے ہیں کہیں خواتین کو خدائی فوجدار بنا رہے ہیں۔ بندے کو پوسٹ کے ٹاپک پر بات کرنی چاہئے پرسنل اٹیک اچھی بات نہیں ہے۔ چونکہ سارا میری فیملی ممبر ہے اس کی طرف سے آپکی بات کا جواب دینا ایک فطری سی بات تھی لیکن آپکو تو خاتون کا بھی لحاظ نہیں۔ میں سارا کوضرور منع کروں گا کہ اپنی انسلٹ کروانے آئیندہ یہاں نہ آئے۔ یہ فورم جدید سوچ رکھنے والے لوگوں کے لئے بہتر ہے، ہم جیسے بنیاد پرست اور پرانے خیالات رکھنے والے لوگ اس فورم سے دور ہی بھلے ہیں۔ شکریہ
 
اس فورم پر میری کسی بات سےاگر کسی بھی دوست کو کوئی رنج پہنچا ہو تو اس سے معافی چاہتا ہوں۔ خدا حافظ
 

سید ذیشان

محفلین
زیش صاحب آپکی آئی ڈی کی نہ کوئی شناخت ہے اور نہ کوئی پہچان، آپ کو فری ہینڈ حاصل ہےجو دل میں آئے کہہ سکتے ہیں ۔ میں آپکے کسی کومنٹ کا جواب نہیں دوں گا۔ مجھے اس طنزیہ اور جغت بازی لہجے میں بات کرنا اورسننا اچھا نہیں لگتا، آپ کہیں پیاروں کا طعنہ دے رہے ہیں کہیں خواتین کو خدائی فوجدار بنا رہے ہیں۔ بندے کو پوسٹ کے ٹاپک پر بات کرنی چاہئے پرسنل اٹیک اچھی بات نہیں ہے۔ چونکہ سارا میری فیملی ممبر ہے اس کی طرف سے آپکی بات کا جواب دینا ایک فطری سی بات تھی لیکن آپکو تو خاتون کا بھی لحاظ نہیں۔ میں سارا کوضرور منع کروں گا کہ اپنی انسلٹ کروانے آئیندہ یہاں نہ آئے۔ یہ فورم جدید سوچ رکھنے والے لوگوں کے لئے بہتر ہے، ہم جیسے بنیاد پرست اور پرانے خیالات رکھنے والے لوگ اس فورم سے دور ہی بھلے ہیں۔ شکریہ
سب سے پہلے تو میں تعارف والے فورم میں میں نے اپنا تعارف کروایا ہے۔ آپ وہاں جا کر تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک میرے کمینٹس کا تعلق ہے تو آپ نے اس کو غلط انداز میں لیا ہے اور میں اسکی وضاحت ک چکا ہوں۔ لیکن اگر آپ کی پھر بھی دل آزاری ہوئی ہے تو میں آپ سے معافی چاہتا ہوں اور میں دونوں کمینٹس delete کرنے کے لئے تیار ہوں۔
 
حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے اسی لئے بری بھی لگتی ہے۔ لیکن برائی پر پردہ ڈال دینے سے برائی کبھی نہیں رکتی۔
اگر ہمارے ہاں اس معاملے میں حکومت خاطر خواہ اقدامات کر رہی ہوتی تب شاید ہمیں اطمینان ہوتا کہ اس معاملے کو باقائدہ اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن چونکہ حکومت اس معاملے میں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس بات کو ایک بہتر طریقے سے منظرِ عام پر لانے کے علاوہ کیا حل ہے۔
ٹھیک ہے۔ چلیے مان لیا کہ امریکہ بہت برا ہے، وہ ہماری ہر برائی کو ایکسپلائٹ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ایسے نادر مواقع فراہم کرنے والے کون ہیں ۔ ہم ، ہمارے لوگ، ہماری حکومت ۔ تو پھر ہمیں چاہیے کہ کبھی کبھار ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کے بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
احمد بھائى بات تو آپ كى ٹھيک ہے ليكن ... بات اتنى سادہ ہے نہيں۔ جو ملك بغير پائلٹ طياروں کے حملوں ميں ہمارے ہزاروں بھائيوں بہنوں کے چہرے اور زندگياں بگاڑ چكا ہے اس كو ہمارى عورتوں كا اتنا درد كيوں اٹھ رہا ہے؟
آپ صرف افيكٹيز يا متاثرہ افراد کے اعداد وشمار سامنے ركھ كر ديكھيں بڑا ايشو كيا ہے: تيزاب يا ڈرون حملے؟ يہ لوگ مچھر چھانتے ہيں اور اونٹ سموچا نگلتے ہيں۔
 
ا
اب یہ جگ ہنسائی تو سب سے پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ ایسے واقعات کو جاری رہنا دیا جائے کہ کم ازکم ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگر پڑتا ہے تو ایسے واقعات کی سختی سے مذمت کیساتھ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہیئے جو ایسے واقعات کو روکنے کے لیئے اپنے تئیں کوشش کر رہے ہیں ۔

دونوں كو بند ہونا چاہیے تيزاب پھينكنے كو بھی اور ڈرون حملوں كو بھی ۔ اور ايشوز كو ان كے حجم كے حساب سے توجہ ملنى چاہیے۔ كسى غير ملك كے اشارہء ابرو سے نہيں !
ڈرون حملے ماہانہ درجن بھر ہوتے رہے ہيں اور ايك حملہ كئى جانيں ليتا ہے كئى قيمتى انسانوں كو معذور كرتا ہے۔
 
Top