اردو زبان اور بشیر بلور
از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔۔آج پشاور
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اسے ایسا ہی آئین پاکستان میں قرار دیا گیا ہے‘ ہر ممبر پارلیمنٹ و اسمبلی اس میں حلف اٹھا کر ثابت کرتا ہے کہ وہ قومی زبان میں حلف اٹھا رہا ہے‘ اس کے بعد یہ کہنا کہ اردو قومی نہیں صرف قومی رابطے کی زبان ہے حیران کن ہے۔ پتہ نہیں ہمارے سیدھے سادے بشیر بلور صاحب کے منہ سے یہ بات کیسے نکل گئی‘ اگر زبانوں کو صرف رابطے کے معیار پر پرکھنا ہے تو اول تو خود بشیر بلور اردو بولتے ہیں‘ پشتو بس ہماری ہی طرح بولتے ہیں‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پشتو خود اس صوبے میں رابطے کی زبان ٹھہرتی ہے کیونکہ ایک پختون ہزارہ‘ ڈیرہ‘ کوہاٹ شہر اور پشاور شہر کے اندرون رہنے والوں سے پشتو میں بطور رابطے کی زبان کے ہی بات کرتا ہے
امید کی جا سکتی ہے بشیر بلور صاحب کے منہ سے یہ بات ویسے ہی نکل گئی ہو گی‘ ویسے وہ بڑے بہادر جوان ہیں اور قوم پر پڑنے والے ہر مشکل وقت میں صف اول میں اس کے مقابل موجود ہوتے ہیں‘ وہ واحد صوبائی وزیر ہیں جو ہر حادثے کے جائے وقوعہ پر سب سے پہلے اپنی ٹیم لے کر پہنچتے ہیں اور ابتدائی انتظامات میں حصہ لیتے ہیں۔
بشیر صاحب اچھے آدمی ہیں پتہ نہیں ان کی وجہ شہرت ان کا غصیلا پن کیسے بن گیا ہے‘ بشیر صاحب کے ذہن میں ایک خیال سمایا ہے کہ اکثریت کی بولنے والی زبان ہی قومی زبان ٹھہرتی ہے یہ درست نہیں ہے خود بھارت میں سارے لوگ ہندی (اردو) نہیں بولتے مگر وہاں کی زبان ہندی یا اردو ہے‘ بھارت میں تیلگو اور دوسری بہت سی بڑی زبانیں ہیں مگر وہاں کی قومی زبان ہندی / اردو ہے۔
اسی طرح امریکہ کو لے لیں وہاں اتنے لاطینوز پائے جاتے ہیں کہ ان کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے‘ وہاں جرمن‘ فرانسیسی اور اطالوی زبانیں بولنے والے بے شمار لوگ ہیں مگر قومی زبان صرف ایک یعنی انگریزی ہے حالانکہ وہاں بھی یہ زبان قومی رابطے کی زبان ہے۔ انگریزی خود کتنی بڑی زبان ہے دنیا کے ہر حصے میں بولی جاتی ہے اور عالمی سطح پر عالمی رابطے کی زبان ہے مگر وہاں اس زبان کو قومی زبان نہیں کہا جاتا۔
قائداعظم نے خود بنگال میں کھڑے ہو کر اردو کو مشرقی پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جس پر بڑے فسادات بھی ہوئے۔ بشیر بلور صاحب کا یہ خیال درست ہے اور اس کو تسلیم بھی کر لینا چاہئے کہ قومی زبان ضروری نہیں صرف ایک ہی ہو کئی زبانیں بھی قومی ہو سکتی ہیں مثلاً پاکستان میں پانچ قومی زبانیں ہیں پشتو‘ سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی بس بلور صاحب سے یہ بھول ہوئی ہے کہ وہ قومی زبانوں میں اردو کا نام لینا بھول گئے حالانکہ کراچی‘ حیدر آباد میں ایک کروڑ سے زیادہ اردو بولنے والے موجود ہیں یہ تعداد بلوچوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
ہمارے بزرگوں سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم نے اردو کو جو قومی زبان کا درجہ و مقام دیا ہے وہ محض لفاظی نہیں تھی۔ سب باتوں سے ہٹ کر اردو کا تحریک و تخلیق پاکستان سے گہرا تعلق ہے‘ سرسید نے دو قومی نظریے کی بنیاد اسی لسانی قضیے کے اوپر رکھی جب ہندوؤں نے زور پکڑنے کے بعد اردو میں سے قرآنی الفاظ نکالنے شروع کر دیئے تب سرسید جیسے روشن خیال اور سیکولر انسان نے ان کے خلاف اعلان جنگ کر کے کہا اینف از اینف۔ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے اور یہ دنیا کی واحد زبان ہے جو اپنے ملک سے پہلے پیدا ہوئی یعنی پہلے زبان پیدا ہوئی پھر ملک پیدا ہوا۔
اقبال جیسا انگریزی دان جب اپنے خیالات کا اظہار اردو و فارسی میں کرتا ہے تو اس کا کچھ مطلب ہوتا ہے ورنہ اقبال جیسی انگریزی لکھنے والا شاید ہی اس وقت کے ہندوستان میں موجود ہو‘ جس کسی کو شبہ ہو وہ علامہ اقبال کی انگریزی کتاب تشکیل جدید الٰہیات Reconstruction of religious thought in Islam پڑھ کر ہی دیکھ لے‘ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ قائداعظم انگریزی کے سوا دوسری زبان نہیں بولتے تھے مگر انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں بلکہ باشندوں کے لئے اردو کو قومی و رابطے کی زبان قرار دیا اور یہ رابطہ ویسا نہیں جیسا بشیر صاحب بیان فرما رہے ہیں بلکہ یہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اردو نظریہ پاکستان کی زبان ہے بشرطیکہ جو لوگ نظریہ پاکستان کو مانتے ہوں۔ اردو زبان عالمی سطح پر بھی اپنے وجود کو منوا چکی ہے‘ اب اسے کسی ریاستی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں‘ اقوام متحدہ اسے دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی و سمجھی جانے والی زبان قرار دے چکی ہے‘ دنیا کا کوئی براعظم اور خطہ ایسا نہیں جہاں اردو بطور رابطے کی زبان کے کام نہ کر رہی ہو‘ یہ وہی رول ادا کر رہی ہے جو انگریزی ادا کر رہی ہے۔
چینی زبان بہت بڑی زبان ہے مگر وہ چین تک محدود ہے‘ انگریزی کا سکہ ساری دنیا میں چل رہا ہے‘ اردو زبان و ادب میں بہت زیادہ کام ملک سے باہر ہو رہا ہے‘ جو لوگ اردو ہندی رسم الخط کا نام لے کر اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اس زبان کی خوبصورتی ہے کہ اس کے دو رسم الخط ہیں‘ اسے اس کی کمزوری گردان کر محض کراچی حیدرآباد میں محصور نہیں کرنا چاہئے۔
Dated : 2010-03-06 00:00:00
از ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔۔۔۔آج پشاور
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اسے ایسا ہی آئین پاکستان میں قرار دیا گیا ہے‘ ہر ممبر پارلیمنٹ و اسمبلی اس میں حلف اٹھا کر ثابت کرتا ہے کہ وہ قومی زبان میں حلف اٹھا رہا ہے‘ اس کے بعد یہ کہنا کہ اردو قومی نہیں صرف قومی رابطے کی زبان ہے حیران کن ہے۔ پتہ نہیں ہمارے سیدھے سادے بشیر بلور صاحب کے منہ سے یہ بات کیسے نکل گئی‘ اگر زبانوں کو صرف رابطے کے معیار پر پرکھنا ہے تو اول تو خود بشیر بلور اردو بولتے ہیں‘ پشتو بس ہماری ہی طرح بولتے ہیں‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پشتو خود اس صوبے میں رابطے کی زبان ٹھہرتی ہے کیونکہ ایک پختون ہزارہ‘ ڈیرہ‘ کوہاٹ شہر اور پشاور شہر کے اندرون رہنے والوں سے پشتو میں بطور رابطے کی زبان کے ہی بات کرتا ہے
امید کی جا سکتی ہے بشیر بلور صاحب کے منہ سے یہ بات ویسے ہی نکل گئی ہو گی‘ ویسے وہ بڑے بہادر جوان ہیں اور قوم پر پڑنے والے ہر مشکل وقت میں صف اول میں اس کے مقابل موجود ہوتے ہیں‘ وہ واحد صوبائی وزیر ہیں جو ہر حادثے کے جائے وقوعہ پر سب سے پہلے اپنی ٹیم لے کر پہنچتے ہیں اور ابتدائی انتظامات میں حصہ لیتے ہیں۔
بشیر صاحب اچھے آدمی ہیں پتہ نہیں ان کی وجہ شہرت ان کا غصیلا پن کیسے بن گیا ہے‘ بشیر صاحب کے ذہن میں ایک خیال سمایا ہے کہ اکثریت کی بولنے والی زبان ہی قومی زبان ٹھہرتی ہے یہ درست نہیں ہے خود بھارت میں سارے لوگ ہندی (اردو) نہیں بولتے مگر وہاں کی زبان ہندی یا اردو ہے‘ بھارت میں تیلگو اور دوسری بہت سی بڑی زبانیں ہیں مگر وہاں کی قومی زبان ہندی / اردو ہے۔
اسی طرح امریکہ کو لے لیں وہاں اتنے لاطینوز پائے جاتے ہیں کہ ان کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے‘ وہاں جرمن‘ فرانسیسی اور اطالوی زبانیں بولنے والے بے شمار لوگ ہیں مگر قومی زبان صرف ایک یعنی انگریزی ہے حالانکہ وہاں بھی یہ زبان قومی رابطے کی زبان ہے۔ انگریزی خود کتنی بڑی زبان ہے دنیا کے ہر حصے میں بولی جاتی ہے اور عالمی سطح پر عالمی رابطے کی زبان ہے مگر وہاں اس زبان کو قومی زبان نہیں کہا جاتا۔
قائداعظم نے خود بنگال میں کھڑے ہو کر اردو کو مشرقی پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جس پر بڑے فسادات بھی ہوئے۔ بشیر بلور صاحب کا یہ خیال درست ہے اور اس کو تسلیم بھی کر لینا چاہئے کہ قومی زبان ضروری نہیں صرف ایک ہی ہو کئی زبانیں بھی قومی ہو سکتی ہیں مثلاً پاکستان میں پانچ قومی زبانیں ہیں پشتو‘ سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی بس بلور صاحب سے یہ بھول ہوئی ہے کہ وہ قومی زبانوں میں اردو کا نام لینا بھول گئے حالانکہ کراچی‘ حیدر آباد میں ایک کروڑ سے زیادہ اردو بولنے والے موجود ہیں یہ تعداد بلوچوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
ہمارے بزرگوں سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور حضرت قائداعظم نے اردو کو جو قومی زبان کا درجہ و مقام دیا ہے وہ محض لفاظی نہیں تھی۔ سب باتوں سے ہٹ کر اردو کا تحریک و تخلیق پاکستان سے گہرا تعلق ہے‘ سرسید نے دو قومی نظریے کی بنیاد اسی لسانی قضیے کے اوپر رکھی جب ہندوؤں نے زور پکڑنے کے بعد اردو میں سے قرآنی الفاظ نکالنے شروع کر دیئے تب سرسید جیسے روشن خیال اور سیکولر انسان نے ان کے خلاف اعلان جنگ کر کے کہا اینف از اینف۔ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے اور یہ دنیا کی واحد زبان ہے جو اپنے ملک سے پہلے پیدا ہوئی یعنی پہلے زبان پیدا ہوئی پھر ملک پیدا ہوا۔
اقبال جیسا انگریزی دان جب اپنے خیالات کا اظہار اردو و فارسی میں کرتا ہے تو اس کا کچھ مطلب ہوتا ہے ورنہ اقبال جیسی انگریزی لکھنے والا شاید ہی اس وقت کے ہندوستان میں موجود ہو‘ جس کسی کو شبہ ہو وہ علامہ اقبال کی انگریزی کتاب تشکیل جدید الٰہیات Reconstruction of religious thought in Islam پڑھ کر ہی دیکھ لے‘ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ قائداعظم انگریزی کے سوا دوسری زبان نہیں بولتے تھے مگر انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں بلکہ باشندوں کے لئے اردو کو قومی و رابطے کی زبان قرار دیا اور یہ رابطہ ویسا نہیں جیسا بشیر صاحب بیان فرما رہے ہیں بلکہ یہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اردو نظریہ پاکستان کی زبان ہے بشرطیکہ جو لوگ نظریہ پاکستان کو مانتے ہوں۔ اردو زبان عالمی سطح پر بھی اپنے وجود کو منوا چکی ہے‘ اب اسے کسی ریاستی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں‘ اقوام متحدہ اسے دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی و سمجھی جانے والی زبان قرار دے چکی ہے‘ دنیا کا کوئی براعظم اور خطہ ایسا نہیں جہاں اردو بطور رابطے کی زبان کے کام نہ کر رہی ہو‘ یہ وہی رول ادا کر رہی ہے جو انگریزی ادا کر رہی ہے۔
چینی زبان بہت بڑی زبان ہے مگر وہ چین تک محدود ہے‘ انگریزی کا سکہ ساری دنیا میں چل رہا ہے‘ اردو زبان و ادب میں بہت زیادہ کام ملک سے باہر ہو رہا ہے‘ جو لوگ اردو ہندی رسم الخط کا نام لے کر اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اس زبان کی خوبصورتی ہے کہ اس کے دو رسم الخط ہیں‘ اسے اس کی کمزوری گردان کر محض کراچی حیدرآباد میں محصور نہیں کرنا چاہئے۔
Dated : 2010-03-06 00:00:00