مہدی نقوی حجاز
محفلین
اس طرح زرتشت مخاطب ہوا!
حرفِ اوّلیں:
( ۱)
جب زرتشت ۳۰ برس کا تھا، اس وقت اس نے اپنے گھر کو خیرباد کہہ دیا، اور وہ پہاڑوں کے بیچ جا پہنچا۔ جہاں اس نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی کی۔ خلوت کے مزے لوٹے، اور دس سال تک وہ اس عمل سے بیزار نہ ہوا۔ لیکن آخر اس کا دل اس سے کھٹا ہو گیا اور اس کا ارادہ تبدیل ہوا، اور ایک گلابی سحر کے طلوع ہوتے ہی، وہ سورج کے سامنے جا پہنچا، اور سورج سے اس طرح مخاطب ہوا: ”اے ستارہِ عظیم! کیا ہوتی تیری خوشحالی اگر وہ ہی نہ ہوتے جن کے لیے تو نور فشانی کرتا ہے! تو دس برس تک میرے غار کی جانب نکلا، ضرور تو اپنی روشنی سے تھک گیا ہو گا اور اپنے سفر سے، کیا یہ میرے لیے نہیں تھا، میرے عقاب اور میرے خزندے کے لیے۔ لیکن ہم نے ہر صبح تیرا انتظار کیا، تجھ سے تیری روشنی حاصل کی اور اس کے لیے تیری تعظیم کی۔ تو سن! میں اپنی حکمت سے تھک گیا ہوں، جیسے شہد کی مکھی جس نے بہت سا شہد جمع کر لیا ہو؛ مجھے اپنے ہاتھوں کو اسے حاصل کرنے کے لیے بڑھانا ہو گا۔ میں اسے بخشنا اور بانٹنا چاہوں گا، جب تک دانائی ایک بار پھر اپنی نامعقولیت میں لذت سے سرشار نہ ہو جائے اور غریب اس کی دارائی میں خوش۔ تو مجھے گہرائی تک غرق ہونا ہو گا: جس طرح تو شام کے وقت ہوتا ہے، جب تو سمندر کے اس پار چلا جاتا ہے اور دنیا کے نچلے حصے کو بھی روشنی بخشتا ہے، اے با برکت ستارے! تیری مانند مجھے نیچے جانا ہو گا، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، جہاں مجھے ڈوبنا ہو گا تو مجھے دعا کر، تو اے آسودہ چشم، جو بڑی سے بڑی خوشی کو بغیر رشک و حسد کے نہیں دیکھ سکتا! اس کاسے کو دعا کر، جو لبریز ہی ہونے کو ہے، تا کہ اس سے درخشاں پانی چھلکے، اور تیری برکت کے عکس کو ہر طرف پہنچائے۔“
سنو! یہ کاسہ دوبارہ تہی ہونے کو ہے، اور زرتشت پھر انسان بننے کو ہے۔
تو زرتشت کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔
(۲)
زرتشت اکیلا پہاڑ کے نیچے چلا گیا، جہاں اس سے کوئی نہ ملے۔ ابھی وہ جنگلات میں داخل ہی ہوا تھا کہ، وہاں اس کے سامنے اچانک ایک بوڑھا نمودار ہوا، جو جڑی بوٹیوں کی تلاش میں اپنی مقدس چلہ گاہ سے خارج ہوا تھا۔ تو اس پیر مرد نے زرتشت کو مخاطب کیا:
میرے لیے کوئی اجنبی اتنا انجان نہیں: وہ برسوں پہلے یہاں سے گزرا تھا۔ اسے زرتشت کہتے تھے۔ لیکن وہ بدل چکا ہے۔
تو تم نے اپنے خاکستر کو پہاڑوں تک پہنچایا ہے: کیا تم اب اپنی آگ کو وادیوں تک پہنچاؤ گے؟ کیا تمہیں آگ کا عذاب خوف میں مبتلا نہیں کرتا؟
ہاں! میں زرتشت کو جانتا ہوں۔ اس کی آنکھیں خالص ہیں، اور اس کی زبان کے نیچے کوئی چھپی ہوئی نفرت نہیں ہے۔ کیا وہ ساتھ ایک سرِحالی کی کیفیت میں نہیں گیا؟
زرتشت بدل چکا ہے؛ زرتشت ایک خورد سال بچے کا سا ہو گیا ہے؛ زرتشت ایک جاگتا ہوا بشر ہے؛ تم یہاں سونے والوں کی دنیا میں کیا کر رہے ہو؟
جیسے تم سمندر میں تنہائی میں رہے ہو، اور یہ تمہیں اوپر لایا ہے۔ آہ! کیا تم اب ساحل کی جانب جاؤ گے؟ آہ! کیا تم دوبارہ اپنے جسم کو آپ گھسیٹو گے؟"
زرتشت نے کہا: "میں انسان سے محبت کرتا ہوں۔"،
"کیوں" درویش نے اس سے سوال کیا۔ "میں جنگلوں اور بیابانوں میں گیا، کیا میں انسانوں سے بہت محبت نہیں کرتا تھا؟
اب میں خدا سے محبت کرتا ہوں، انسان سے میں پیار نہیں کرتا۔ انسان میرے لیے بہت ادھورا ہے۔ انسان سے محبت میری تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔"
زرتشت نے کہا: "میں نے محبت کے بارے میں کیا کہہ دیا! میں انسانوں کے لیے مقدس تحفے لے جا رہا ہوں۔"
"انہیں کچھ مت دو،" درویش نے کہا، "ان کے بوجھ کا کچھ حصہ لے لو، اور ان کے ساتھ اسے حمل کرو۔ یہ ان کے لیے زیادہ سود مند ہو گا: صرف اگر یہ تمہارے اپنے لیے سود مند ہے۔
اگر پھر بھی، تم انہیں دینا چاہتے ہو، تو انہیں صدقات(نقد) دو، اور اس کے لیے بھی انہیں پہلے مانگنے اور التجا کرنے دو!"
"نہیں،" زرتشت نے جواب دیا، "میں کوئی صدقہ نہیں دیتا۔ میں اس کام کے لیے بہ اندازہ کافی غریب اور گرا ہوا نہیں ہوں۔"
درویش زرتشت پر ہنستا ہے، اور اس طرح کہتا ہے: "تو دیکھو کہ وہ تمہارا خزانہ قبول کرتے بھی ہیں! وہ زاہدوں پر بھروسہ نہیں کرتے، اور ہمارے مقدس تحفوں پر ایمان نہیں رکھتے۔
ہمارے قدموں کی گونج انکی سڑکوں پر بہت خالی خالی ہوتی ہے۔ اور جب رات کو، وہ بستر پر ہوتے ہیں اور کسی کو باہر سنتے ہیں، طلوع سے پہلے، تو وہ ہمارے بارے اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں: چور کہاں ہے!؟
انسانوں کے پاس نہ جاؤ، اور قیام کرو جنگل میں ہی! اس کے بدلے حیوانوں کے قریب ہو جاؤ! کیوں نہ میری طرح—ہرنوں کے بیچ ہرن، پرندوں کے بیچ پرندہ؟"
"اور درویش جنگل میں کرتا کیا ہے؟" زرتشت نے پوچھا۔
درویش نے کہا: "میں نغمے بناتا ہوں اور انہیں گاتا ہوں؛ اور نغمے بناتے ہوئے، میں ہنستا ہوں اور روتا ہوں اور بھنبھناتا ہوں: تو میں خدا کی ستائش کرتا ہوں۔
میں گا کر، رو کر، ہنس کر، اور بھنبھنا کر خدا کی پرستش کرتا ہوں، جو میرا خدا ہے۔ لیکن تم ہمارے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟"
جب زرتشت نے یہ سنا، تو اس نے درویش کی تعظیم کی اور کہا: "جو مجھے آپ کو دینا ہے! مجھے اجازت دو میں یہاں سے جلدی چلا جاؤں اس سے پہلے کہ آپ سے کچھ لوں!"۔۔۔ اور پھر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے، درویش اور زرتشت، مدرسہ میں زیر تعلیم بچوں کی طرح ہنستے ہوئے۔
جب زرتشت تنہا تھا، تو اس نے دل میں کہا: "کیا یہ ممکن ہے! کیا اس پیر مرد نے ابھی تک نہیں سنا، کہ
خدا فوت ہو چکا ہے!"
(۳)
جب زرتشت جنگل کے مقابل نزدیک ترین محلّے میں پہنچا، اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ بازار میں جمع ہیں؛ کہ رسی پر رقص والا اپنا ہنر دکھلانے کا اعلان کرا چکا ہے۔ تو زرتشت لوگوں کی جانب رخ کر کے ان سے خطاب کرتا ہے:میں تمہیں "فوق انسان" کے بارے میں بتاتا ہوں۔ انسان ایسی چیز ہے جس سے اب فوقیت حاصل کر لینی چاہیے۔ تم نے انسان سے فوقیت حاصل کرنے کے لیے کیا کر رکھا ہے؟
تمام انسانوں نے اب تک اپنے آگے کچھ نہ کچھ احاطہ بنا رکھا ہے: اور تم اس عظیم موج میں تہہ نشین ہونا چاہتے ہو، اور تم انسان سے فوقیت حاصل کرنے کے بجائے، دوبارہ چار پا کہلانا چاہتے ہو؟
بندر کا آدمی سے کیا ہے؟ باعثِ خندہ، باعث ننگ۔ اور بالکل اسی طرح ہو گا انسان فوق انسان کا: باعثِ خندہ، باعثِ ننگ۔
تم نے کیڑے سے انسان کی جانب سفر کیا ہے، اور تمہارے بیچ بہت سے اب بھی کیڑے ہیں۔ کبھی تم بندر تھے، اور حتی اب بھی انسان بندروں میں سے، بندر سے زیادہ ہے بس۔
حتی تم میں سے دانا ترین، فقط ایک شبیہ اور احضار شدہ کا ناہماہنگ اتفاق ہے۔ لیکن کیا میں نے تم سے شبیہ یا احضار شدہ بننے کا کہا ہے؟
سنو، میں نے تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتایا ہے!
فوق انسان ہی زمین کی حقیقی وجہ ہے۔ اپنے ضمیر کو کہنے دو: فوق انسان کو زمین کی حقیقی وجہ ہونا چاہیے!
میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں، میرے بھائیوں، زمین سے ہمیشہ سچے رہو، اور ان پر یقین نہ رکھو جو تمہیں ما سوائے زمین کے خواب دکھاتے ہیں! وہ زہریلے ہیں، چاہے وہ یہ جانتے ہوں یا نہیں۔
وہ حیات سے نفرت کرنے والے ہیں، سڑنے والے اور اپنے آپ سے ناامید، وہ جن سے زمین بیزار ہے: تو دور رہو ان سے!
کبھی خدا سے کفر سب سے بڑا کفر تھا؛ لیکن خدا فوت ہو گیا، اور ساتھ ہی وہ کافر بھی۔ اب زمین سے کفر سب سے گھناؤنا گناہ ہے، اور دل کی قیمت گزاری، زمین کے معنی سے بے شمار گنا زیادہ!
کبھی روح جسم سے حقیر و پوچ تصور کی جاتی تھی، اور پھر یہ حقارت افضل چیز تھی: روح جسم کو ناچیز، ہولناک، اور بھوکا تصور کرتی تھی۔ اس لیے وہ جسم سے اور دنیا سے فرار کے بارے میں سوچتی تھی۔
اوہو، وہ روح خود ناچیز، ہولناک، اور بھوکی تھی؛ اور ظلم روح کا شوق تھا!
لیکن تم بھی، میرے بھائیوں، مجھے بتاؤ: تمہارا اپنا جسم تمہاری روح کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا تمہاری روح فقر اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی نہیں؟
حقیقتاً، بشر ایک آلودہ نہر ہے۔ انسان کو دریا ہونا چاہیے، تا کہ وہ کسی آلودہ نہر کو سما سکے، آلودہ ہوئے بغیر۔
سنو، میں تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتاتا ہوں: وہ ہی یہ دریا ہے؛ اس میں تمہاری عظیم اہانت گھل مل سکتی ہے۔
کیا ہے عظیم ترین شے جس سے تم گزر سکتے ہو؟ یہ عظیم توہین کی گھڑی ہے۔ وہ گھڑی جس میں حتی تمہاری خوشی تمہارے لیے نفرت انگیز ہو جاتی ہے، اور اسی طرح تمہارے دلائل اور ایمان بھی۔
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میری خوشی میں کیا اچھا ہے؟ یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔ لیکن میری خوشی کو وجود کی اپنی تصدیق کرنی ہے!"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے دلائل میں کیا اچھا ہے! کیا یہ آگاہی کے لیے لپکتے ہیں جیسے شیر شکار کے لیے؟ یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے ایمان میں کیا اچھا ہے! جیسے اس نے اب تک مجھے سودائی نہیں بنایا۔ میں اپنے اچھے اور اپنے برے سے کتنا اکتا گیا ہوں! یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے انصاف میں کیا اچھا ہے! میں یہ نہیں دیکھتا کہ میں اشتہاب اور شعلہ ہوں۔ حق پرست البتہ اشتہاب اور شعلہ ہیں!"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میری رحمت میں کیا اچھا ہے! کیا ترحم وہی صلیب نہیں جس پہ وہ کسا گیا ہے جو انسان سے محبت کرتا تھا؟ لیکن میرا رحم کوئی صلیب سازی نہیں۔"
کیا تم نے کبھی اس طرح بولا ہے؟ کیا تم کبھی اس طرح روئے؟ آہ! کہ میں تمہیں اس طرح روتے سن چکا ہوں!
یہ تمہارا گناہ نہیں۔۔ یہ تمہاری خود خوشنودی ہے جو جنت پر روتی ہے؛ تمہاری گناہ میں ناچیزی ہے جو جنت پر روتی ہے!
کہاں ہے وہ رعد و برق جو تمہیں اپنی زبان سے چاٹے(اور گناہوں سے پاک کرے)؟ کہاں ہے وہ ہیجان جس کے ذریعے تمہیں نکھرنا ہے؟
سنو، میں تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتاتا ہوں: وہ ہی یہ رعد و برق ہے، وہی یہ ہیجان ہے!۔۔۔۔"
جب زرتشت اس طرح خطاب کر چکا، تماشائیوں میں سے ایک کہنے لگا: "ہم نے بہت سن لیا ہے رسی پر رقص کرنے والے کے بارے میں؛ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اسے دیکھیں!" اور سب لوگ زرتشت پر ہنسنے لگے۔ لیکن رسی پر رقص کرنے والے نے ان الفاظ کو اپنے آپ سے جوڑا، اور اپنا تماشا شروع کر دیا۔