اس طرح زرتشت مخاطب ہوا!

اس طرح زرتشت مخاطب ہوا!
حرفِ اوّلیں:​
( ۱)​
جب زرتشت ۳۰ برس کا تھا، اس وقت اس نے اپنے گھر کو خیرباد کہہ دیا، اور وہ پہاڑوں کے بیچ جا پہنچا۔ جہاں اس نے اپنے مزاج کے مطابق زندگی کی۔ خلوت کے مزے لوٹے، اور دس سال تک وہ اس عمل سے بیزار نہ ہوا۔ لیکن آخر اس کا دل اس سے کھٹا ہو گیا اور اس کا ارادہ تبدیل ہوا، اور ایک گلابی سحر کے طلوع ہوتے ہی، وہ سورج کے سامنے جا پہنچا، اور سورج سے اس طرح مخاطب ہوا: ”اے ستارہِ عظیم! کیا ہوتی تیری خوشحالی اگر وہ ہی نہ ہوتے جن کے لیے تو نور فشانی کرتا ہے! تو دس برس تک میرے غار کی جانب نکلا، ضرور تو اپنی روشنی سے تھک گیا ہو گا اور اپنے سفر سے، کیا یہ میرے لیے نہیں تھا، میرے عقاب اور میرے خزندے کے لیے۔ لیکن ہم نے ہر صبح تیرا انتظار کیا، تجھ سے تیری روشنی حاصل کی اور اس کے لیے تیری تعظیم کی۔ تو سن! میں اپنی حکمت سے تھک گیا ہوں، جیسے شہد کی مکھی جس نے بہت سا شہد جمع کر لیا ہو؛ مجھے اپنے ہاتھوں کو اسے حاصل کرنے کے لیے بڑھانا ہو گا۔ میں اسے بخشنا اور بانٹنا چاہوں گا، جب تک دانائی ایک بار پھر اپنی نامعقولیت میں لذت سے سرشار نہ ہو جائے اور غریب اس کی دارائی میں خوش۔ تو مجھے گہرائی تک غرق ہونا ہو گا: جس طرح تو شام کے وقت ہوتا ہے، جب تو سمندر کے اس پار چلا جاتا ہے اور دنیا کے نچلے حصے کو بھی روشنی بخشتا ہے، اے با برکت ستارے! تیری مانند مجھے نیچے جانا ہو گا، جیسا کہ لوگ کہتے ہیں، جہاں مجھے ڈوبنا ہو گا تو مجھے دعا کر، تو اے آسودہ چشم، جو بڑی سے بڑی خوشی کو بغیر رشک و حسد کے نہیں دیکھ سکتا! اس کاسے کو دعا کر، جو لبریز ہی ہونے کو ہے، تا کہ اس سے درخشاں پانی چھلکے، اور تیری برکت کے عکس کو ہر طرف پہنچائے۔“​
سنو! یہ کاسہ دوبارہ تہی ہونے کو ہے، اور زرتشت پھر انسان بننے کو ہے۔​
تو زرتشت کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔​

(۲)
زرتشت اکیلا پہاڑ کے نیچے چلا گیا، جہاں اس سے کوئی نہ ملے۔ ابھی وہ جنگلات میں داخل ہی ہوا تھا کہ، وہاں اس کے سامنے اچانک ایک بوڑھا نمودار ہوا، جو جڑی بوٹیوں کی تلاش میں اپنی مقدس چلہ گاہ سے خارج ہوا تھا۔ تو اس پیر مرد نے زرتشت کو مخاطب کیا:
میرے لیے کوئی اجنبی اتنا انجان نہیں: وہ برسوں پہلے یہاں سے گزرا تھا۔ اسے زرتشت کہتے تھے۔ لیکن وہ بدل چکا ہے۔
تو تم نے اپنے خاکستر کو پہاڑوں تک پہنچایا ہے: کیا تم اب اپنی آگ کو وادیوں تک پہنچاؤ گے؟ کیا تمہیں آگ کا عذاب خوف میں مبتلا نہیں کرتا؟
ہاں! میں زرتشت کو جانتا ہوں۔ اس کی آنکھیں خالص ہیں، اور اس کی زبان کے نیچے کوئی چھپی ہوئی نفرت نہیں ہے۔ کیا وہ ساتھ ایک سرِحالی کی کیفیت میں نہیں گیا؟
زرتشت بدل چکا ہے؛ زرتشت ایک خورد سال بچے کا سا ہو گیا ہے؛ زرتشت ایک جاگتا ہوا بشر ہے؛ تم یہاں سونے والوں کی دنیا میں کیا کر رہے ہو؟
جیسے تم سمندر میں تنہائی میں رہے ہو، اور یہ تمہیں اوپر لایا ہے۔ آہ! کیا تم اب ساحل کی جانب جاؤ گے؟ آہ! کیا تم دوبارہ اپنے جسم کو آپ گھسیٹو گے؟"
زرتشت نے کہا: "میں انسان سے محبت کرتا ہوں۔"،
"کیوں" درویش نے اس سے سوال کیا۔ "میں جنگلوں اور بیابانوں میں گیا، کیا میں انسانوں سے بہت محبت نہیں کرتا تھا؟
اب میں خدا سے محبت کرتا ہوں، انسان سے میں پیار نہیں کرتا۔ انسان میرے لیے بہت ادھورا ہے۔ انسان سے محبت میری تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔"
زرتشت نے کہا: "میں نے محبت کے بارے میں کیا کہہ دیا! میں انسانوں کے لیے مقدس تحفے لے جا رہا ہوں۔"
"انہیں کچھ مت دو،" درویش نے کہا، "ان کے بوجھ کا کچھ حصہ لے لو، اور ان کے ساتھ اسے حمل کرو۔ یہ ان کے لیے زیادہ سود مند ہو گا: صرف اگر یہ تمہارے اپنے لیے سود مند ہے۔
اگر پھر بھی، تم انہیں دینا چاہتے ہو، تو انہیں صدقات(نقد) دو، اور اس کے لیے بھی انہیں پہلے مانگنے اور التجا کرنے دو!"
"نہیں،" زرتشت نے جواب دیا، "میں کوئی صدقہ نہیں دیتا۔ میں اس کام کے لیے بہ اندازہ کافی غریب اور گرا ہوا نہیں ہوں۔"
درویش زرتشت پر ہنستا ہے، اور اس طرح کہتا ہے: "تو دیکھو کہ وہ تمہارا خزانہ قبول کرتے بھی ہیں! وہ زاہدوں پر بھروسہ نہیں کرتے، اور ہمارے مقدس تحفوں پر ایمان نہیں رکھتے۔
ہمارے قدموں کی گونج انکی سڑکوں پر بہت خالی خالی ہوتی ہے۔ اور جب رات کو، وہ بستر پر ہوتے ہیں اور کسی کو باہر سنتے ہیں، طلوع سے پہلے، تو وہ ہمارے بارے اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں: چور کہاں ہے!؟
انسانوں کے پاس نہ جاؤ، اور قیام کرو جنگل میں ہی! اس کے بدلے حیوانوں کے قریب ہو جاؤ! کیوں نہ میری طرح—ہرنوں کے بیچ ہرن، پرندوں کے بیچ پرندہ؟"
"اور درویش جنگل میں کرتا کیا ہے؟" زرتشت نے پوچھا۔
درویش نے کہا: "میں نغمے بناتا ہوں اور انہیں گاتا ہوں؛ اور نغمے بناتے ہوئے، میں ہنستا ہوں اور روتا ہوں اور بھنبھناتا ہوں: تو میں خدا کی ستائش کرتا ہوں۔
میں گا کر، رو کر، ہنس کر، اور بھنبھنا کر خدا کی پرستش کرتا ہوں، جو میرا خدا ہے۔ لیکن تم ہمارے لیے کیا تحفہ لائے ہو؟"
جب زرتشت نے یہ سنا، تو اس نے درویش کی تعظیم کی اور کہا: "جو مجھے آپ کو دینا ہے! مجھے اجازت دو میں یہاں سے جلدی چلا جاؤں اس سے پہلے کہ آپ سے کچھ لوں!"۔۔۔ اور پھر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے، درویش اور زرتشت، مدرسہ میں زیر تعلیم بچوں کی طرح ہنستے ہوئے۔
جب زرتشت تنہا تھا، تو اس نے دل میں کہا: "کیا یہ ممکن ہے! کیا اس پیر مرد نے ابھی تک نہیں سنا، کہ

خدا فوت ہو چکا ہے!"

(۳)
جب زرتشت جنگل کے مقابل نزدیک ترین محلّے میں پہنچا، اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ بازار میں جمع ہیں؛ کہ رسی پر رقص والا اپنا ہنر دکھلانے کا اعلان کرا چکا ہے۔ تو زرتشت لوگوں کی جانب رخ کر کے ان سے خطاب کرتا ہے:
میں تمہیں "فوق انسان" کے بارے میں بتاتا ہوں۔ انسان ایسی چیز ہے جس سے اب فوقیت حاصل کر لینی چاہیے۔ تم نے انسان سے فوقیت حاصل کرنے کے لیے کیا کر رکھا ہے؟
تمام انسانوں نے اب تک اپنے آگے کچھ نہ کچھ احاطہ بنا رکھا ہے: اور تم اس عظیم موج میں تہہ نشین ہونا چاہتے ہو، اور تم انسان سے فوقیت حاصل کرنے کے بجائے، دوبارہ چار پا کہلانا چاہتے ہو؟
بندر کا آدمی سے کیا ہے؟ باعثِ خندہ، باعث ننگ۔ اور بالکل اسی طرح ہو گا انسان فوق انسان کا: باعثِ خندہ، باعثِ ننگ۔
تم نے کیڑے سے انسان کی جانب سفر کیا ہے، اور تمہارے بیچ بہت سے اب بھی کیڑے ہیں۔ کبھی تم بندر تھے، اور حتی اب بھی انسان بندروں میں سے، بندر سے زیادہ ہے بس۔
حتی تم میں سے دانا ترین، فقط ایک شبیہ اور احضار شدہ کا ناہماہنگ اتفاق ہے۔ لیکن کیا میں نے تم سے شبیہ یا احضار شدہ بننے کا کہا ہے؟
سنو، میں نے تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتایا ہے!
فوق انسان ہی زمین کی حقیقی وجہ ہے۔ اپنے ضمیر کو کہنے دو: فوق انسان کو زمین کی حقیقی وجہ ہونا چاہیے!
میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں، میرے بھائیوں، زمین سے ہمیشہ سچے رہو، اور ان پر یقین نہ رکھو جو تمہیں ما سوائے زمین کے خواب دکھاتے ہیں! وہ زہریلے ہیں، چاہے وہ یہ جانتے ہوں یا نہیں۔
وہ حیات سے نفرت کرنے والے ہیں، سڑنے والے اور اپنے آپ سے ناامید، وہ جن سے زمین بیزار ہے: تو دور رہو ان سے!
کبھی خدا سے کفر سب سے بڑا کفر تھا؛ لیکن خدا فوت ہو گیا، اور ساتھ ہی وہ کافر بھی۔ اب زمین سے کفر سب سے گھناؤنا گناہ ہے، اور دل کی قیمت گزاری، زمین کے معنی سے بے شمار گنا زیادہ!
کبھی روح جسم سے حقیر و پوچ تصور کی جاتی تھی، اور پھر یہ حقارت افضل چیز تھی: روح جسم کو ناچیز، ہولناک، اور بھوکا تصور کرتی تھی۔ اس لیے وہ جسم سے اور دنیا سے فرار کے بارے میں سوچتی تھی۔
اوہو، وہ روح خود ناچیز، ہولناک، اور بھوکی تھی؛ اور ظلم روح کا شوق تھا!
لیکن تم بھی، میرے بھائیوں، مجھے بتاؤ: تمہارا اپنا جسم تمہاری روح کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا تمہاری روح فقر اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی نہیں؟
حقیقتاً، بشر ایک آلودہ نہر ہے۔ انسان کو دریا ہونا چاہیے، تا کہ وہ کسی آلودہ نہر کو سما سکے، آلودہ ہوئے بغیر۔
سنو، میں تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتاتا ہوں: وہ ہی یہ دریا ہے؛ اس میں تمہاری عظیم اہانت گھل مل سکتی ہے۔
کیا ہے عظیم ترین شے جس سے تم گزر سکتے ہو؟ یہ عظیم توہین کی گھڑی ہے۔ وہ گھڑی جس میں حتی تمہاری خوشی تمہارے لیے نفرت انگیز ہو جاتی ہے، اور اسی طرح تمہارے دلائل اور ایمان بھی۔
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میری خوشی میں کیا اچھا ہے؟ یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔ لیکن میری خوشی کو وجود کی اپنی تصدیق کرنی ہے!"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے دلائل میں کیا اچھا ہے! کیا یہ آگاہی کے لیے لپکتے ہیں جیسے شیر شکار کے لیے؟ یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے ایمان میں کیا اچھا ہے! جیسے اس نے اب تک مجھے سودائی نہیں بنایا۔ میں اپنے اچھے اور اپنے برے سے کتنا اکتا گیا ہوں! یہ غربت اور آلودگی اور بدبخت خود خوشنودی ہے۔"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میرے انصاف میں کیا اچھا ہے! میں یہ نہیں دیکھتا کہ میں اشتہاب اور شعلہ ہوں۔ حق پرست البتہ اشتہاب اور شعلہ ہیں!"
وہ گھڑی جب تم کہتے ہو: "میری رحمت میں کیا اچھا ہے! کیا ترحم وہی صلیب نہیں جس پہ وہ کسا گیا ہے جو انسان سے محبت کرتا تھا؟ لیکن میرا رحم کوئی صلیب سازی نہیں۔"
کیا تم نے کبھی اس طرح بولا ہے؟ کیا تم کبھی اس طرح روئے؟ آہ! کہ میں تمہیں اس طرح روتے سن چکا ہوں!
یہ تمہارا گناہ نہیں۔۔ یہ تمہاری خود خوشنودی ہے جو جنت پر روتی ہے؛ تمہاری گناہ میں ناچیزی ہے جو جنت پر روتی ہے!
کہاں ہے وہ رعد و برق جو تمہیں اپنی زبان سے چاٹے(اور گناہوں سے پاک کرے)؟ کہاں ہے وہ ہیجان جس کے ذریعے تمہیں نکھرنا ہے؟
سنو، میں تمہیں فوق انسان کے بارے میں بتاتا ہوں: وہ ہی یہ رعد و برق ہے، وہی یہ ہیجان ہے!۔۔۔۔"

جب زرتشت اس طرح خطاب کر چکا، تماشائیوں میں سے ایک کہنے لگا: "ہم نے بہت سن لیا ہے رسی پر رقص کرنے والے کے بارے میں؛ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اسے دیکھیں!" اور سب لوگ زرتشت پر ہنسنے لگے۔ لیکن رسی پر رقص کرنے والے نے ان الفاظ کو اپنے آپ سے جوڑا، اور اپنا تماشا شروع کر دیا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ کیا کسی مضمون کا ترجمہ ہے؟ اصل فارسی کا لگ رہا ہے، ورنہ ’زندگی کی‘ اردو کا محاورہ نہیں۔ کچھ الفاظ بھی اجنبی ہیں اردو کے لحاظ سے، مثلاً خزندے۔ چلہ گاہ۔
اس کے علاوہ شتر گربہ بھی ہو گیا ہے۔ ایک ہی جملہ میں آپ اور تم کا استعمال کم از کم فعل کی صورت میں۔ (جیسے جاتے ہو)۔ یہ اس غرض سے کہ مہدی کو اصلاح درکار ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کیا کسی مضمون کا ترجمہ ہے؟ اصل فارسی کا لگ رہا ہے، ورنہ ’زندگی کی‘ اردو کا محاورہ نہیں۔ کچھ الفاظ بھی اجنبی ہیں اردو کے لحاظ سے، مثلاً خزندے۔ چلہ گاہ۔
اس کے علاوہ شتر گربہ بھی ہو گیا ہے۔ ایک ہی جملہ میں آپ اور تم کا استعمال کم از کم فعل کی صورت میں۔ (جیسے جاتے ہو)۔ یہ اس غرض سے کہ مہدی کو اصلاح درکار ہے۔
خزندے۔۔ غالبا" جدید اردو کی اصطلاح ہے جو۔reptiles ۔کے متبادل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن فی الحال کوئی مثال یا حوالہ یاد نہیں۔۔۔۔
۔amphibians۔کے لئے نہ جانے کوئی اصطلاح وضع کی گئی ہے یا نہیں۔
 
یہ کیا کسی مضمون کا ترجمہ ہے؟ اصل فارسی کا لگ رہا ہے، ورنہ ’زندگی کی‘ اردو کا محاورہ نہیں۔ کچھ الفاظ بھی اجنبی ہیں اردو کے لحاظ سے، مثلاً خزندے۔ چلہ گاہ۔
اس کے علاوہ شتر گربہ بھی ہو گیا ہے۔ ایک ہی جملہ میں آپ اور تم کا استعمال کم از کم فعل کی صورت میں۔ (جیسے جاتے ہو)۔ یہ اس غرض سے کہ مہدی کو اصلاح درکار ہے۔

جنابِ من! احقر (ہر چند حقیر) نے "نےچے" کی مشہور کتاب "Thus Spake Zarathustra" کے ترجمے کا آغاز کیا ہے۔ یہ وہی ہے! اب آپ سے کیا چھپی ہے جناب! آپ تو خوب جانے ہیں کہ ہماری اردو پر فارسی 13 سالوں تک اثر انداز رہی ہے! اسی خاطر یہ غلطیاں سر زد ہو رہی ہیں۔۔ اگر گراں نہ گزرے تو جس سطر میں غلطی ہے اسے کاپی کر کے دوبارہ ٹھیک فرما دیجے! ممنون رہوں گا!
 
خزندے۔۔ غالبا" جدید اردو کی اصطلاح ہے جو۔reptiles ۔کے متبادل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن فی الحال کوئی مثال یا حوالہ یاد نہیں۔۔۔ ۔
۔amphibians۔کے لئے نہ جانے کوئی اصطلاح وضع کی گئی ہے یا نہیں۔

جناب یہ اردو کی اصطلاح ہی نہیں شاید!
یہ میں نے محض فارسی سے اخذ کی ہے کہ اسکا متبادل اردو میں دریافت نہ ہو سکا!
البتہ فارسی میں ثانی الذکر کو "دوزیست" کہتے ہیں!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جناب یہ اردو کی اصطلاح ہی نہیں شاید!
یہ میں نے محض فارسی سے اخذ کی ہے کہ اسکا متبادل اردو میں دریافت نہ ہو سکا!
البتہ فارسی میں ثانی الذکر کو "دوزیست" کہتے ہیں!
مہدی نقوی حجاز صاحب میں نے یہ اصطلاح چند جدید سائنسی مضامین وغیرہ میں دیکھی ہے۔۔۔البتہ اردو میں دوزیست ۔amphibians۔کا متبادل ابھی تک کہیں نہیں دیکھا ۔۔۔اگرچہ دوزیست اردو میں استعمال کیا جا نا عجیب نہیں۔ایک کتاب جو پاکستان میں پائے جانے والے ریپٹائلز اور ایمفی بئنز پہ لکھی گئی۔اس میں خزندے استعمال گیا ہے۔
http://bookexchange.com.pk/details.php?book_id=4245
 
مہدی نقوی حجاز صاحب میں نے یہ اصطلاح چند جدید سائنسی مضامین وغیرہ میں دیکھی ہے۔۔۔ البتہ اردو میں دوزیست ۔amphibians۔کا متبادل ابھی تک کہیں نہیں دیکھا ۔۔۔ اگرچہ دوزیست اردو میں استعمال کیا جا نا عجیب نہیں۔ایک کتاب جو پاکستان میں پائے جانے والے ریپٹائلز اور ایمفی بئنز پہ لکھی گئی۔اس میں خزندے استعمال گیا ہے۔
http://bookexchange.com.pk/details.php?book_id=4245

بس ٹھیک ہے تو پھر ہم اپنی استعمال شدہ اصطلاح کو ٹھیک ہی جانیں گے!
 
فقاریہ
لیجیے ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے ناموں کا ایک استعمال۔ بحوالہ وکیپیڈیا اردو ۔۔۔ پہلے گروپ میملز کے لئے ہم نے درسی کتب میں ممالیہ نام پڑھا تھا ۔
اب تو اردو کے ساتھ نہ جانے کیا کیا ہونے لگا ہے!! :rolleyes:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بس ٹھیک ہے تو پھر ہم اپنی استعمال شدہ اصطلاح کو ٹھیک ہی جانیں گے!
جہاں تک کسی اصطلاحی کلمے کے ترجمے کا مرحلہ ہو وہاں اصل ٌ متن کے زبان کی تکنیکی اصطلاح کو قوسین یا حاشیہ میں ساتھ ذکر کر دینا ترجمے کو بہتر اور مؤثر بنا نے میں مدد دے گا ۔۔۔اس کا التزام میرے خیال میں ہر ترجمے میں کیا جانا چاہئے۔۔۔
 
جہاں تک کسی اصطلاحی کلمے کے ترجمے کا مرحلہ ہو وہاں اصل ٌ متن کے زبان کی تکنیکی اصطلاح کو قوسین یا حاشیہ میں ساتھ ذکر کر دینا ترجمے کو بہتر اور مؤثر بنا نے میں مدد دے گا ۔۔۔ اس کا التزام میرے خیال میں ہر ترجمے میں کیا جانا چاہئے۔۔۔

مجھے کاملا اتفاق ہے۔۔۔ اگلی اقساط میں آپ ضرور ملاحظہ فرمائیں گے! ان اقساط میں بھی یہ کام کرنے کی خاطر شاید کسی مدیر کی ہی مدد درکار ہوگی!
 

عبدالحسیب

محفلین
لگتا ہے برادرم عبدالحسیب کی نظر اب تک اس عنوان پر نہیں پڑی!

سب سے پہلے تاخیر کے لیے معذرت بھائی جان مہدی نقوی حجاز ۔ میں کل دن تمام مصروف رہا ۔ خیر
بے حد عمدہ ترجمہ ہے بھائی جان۔ بہترین۔ اللہ جزائے خیر دے۔
مزہ آگیا۔ یہ انگریزی ترجمہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ لکھتے رہیں ۔ مزید کا انتطار رہے گا۔
 
سب سے پہلے تاخیر کے لیے معذرت بھائی جان مہدی نقوی حجاز ۔ میں کل دن تمام مصروف رہا ۔ خیر
بے حد عمدہ ترجمہ ہے بھائی جان۔ بہترین۔ اللہ جزائے خیر دے۔
مزہ آگیا۔ یہ انگریزی ترجمہ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ لکھتے رہیں ۔ مزید کا انتطار رہے گا۔

شرمندہ نہ کیجے جناب!
آپ کی مہربانی ہے!
 
کہاں شرمندہ بھائی جان۔ یہ تو احسانِ عظیم ہے آپ کا کہ نطشے کا فلسفہ اپنی زبان میں پڑھنے مل رہا ہے ہمیں۔

مجھے خود انتہائی افسوس ہوا اربابِ اردو پر کہ نےچے جیسے مشہور و واردِ کار فلسفی کا حتیٰ ایک مقالہ اپنی زبان میں موجود نہیں!
اس خاطر میں نے ٹھان رکھی ہے کہ کم از کم یہ ایک کتاب تو ہاتھ سے گزر ہی جائے جیسی تیسی۔۔ گرچہ اردو میں ہماری وہ کمال نہیں۔۔ لیکن پوچ ہونے سے تو بہتر ہی ہے!
 

عبدالحسیب

محفلین
مجھے خود انتہائی افسوس ہوا اربابِ اردو پر کہ نےچے جیسے مشہور و واردِ کار فلسفی کا حتیٰ ایک مقالہ اپنی زبان میں موجود نہیں!
اس خاطر میں نے ٹھان رکھی ہے کہ کم از کم یہ ایک کتاب تو ہاتھ سے گزر ہی جائے جیسی تیسی۔۔ گرچہ اردو میں ہماری وہ کمال نہیں۔۔ لیکن پوچ ہونے سے تو بہتر ہی ہے!

جی بھائی ، افسوس کا مقام تو ہے لیکن ممکن ہے کئی حضرات نے ارادہ کیا ہو اور اس سے آگے نا جاسکے کہ اردو پر اپنا کمال نہیں! آپ نے بے شک بہت ہی اہم قدم اٹھایا ہے۔ بس اس پر مضبوتی سے قائم رہیں ۔ ہم جیسے کم علم تو کم از کم فیض یاب ہو جائیں گے ۔
 
جی بھائی ، افسوس کا مقام تو ہے لیکن ممکن ہے کئی حضرات نے ارادہ کیا ہو اور اس سے آگے نا جاسکے کہ اردو پر اپنا کمال نہیں! آپ نے بے شک بہت ہی اہم قدم اٹھایا ہے۔ بس اس پر مضبوتی سے قائم رہیں ۔ ہم جیسے کم علم تو کم از کم فیض یاب ہو جائیں گے ۔

جی با کمال تاسف!
ہم کوشش کر رہے ہیں۔۔ خدا ثابت قدم رکھے بس۔۔ اس کے علاوہ یہاں احباب و اساتذہ ہیں۔ وہ زبان و بیان کی غلطیوں میں ضرور سدھار لے آئیں گے!
 

عبدالحسیب

محفلین
جی با کمال تاسف!
ہم کوشش کر رہے ہیں۔۔ خدا ثابت قدم رکھے بس۔۔ اس کے علاوہ یہاں احباب و اساتذہ ہیں۔ وہ زبان و بیان کی غلطیوں میں ضرور سدھار لے آئیں گے!

جی بلکل۔ آپ لکھتے رہیں۔ زبان و بیان میں اگر کہیں اصلاح درکار ہو تو اساتذہ ہیں ہی یہاں۔:)
 
Top