تبدیلی کیسے لائیں ؟

سبط الحسین

لائبریرین
اگر آپ کسی ذی شعور سے پوچھیں کہ کیا آپ موجودہ حال قومی و ملکی صورتحال پر خوش ہیں تو یہی جواب ملے گا کہ نہیں۔ تو پھر کروڑ روپے کا سوال جو آج ہر ذی شعور نوجوان پوچھتا ہوا نظر آئے گا کہ آخر تبدیلی کیسے لائیں

اس سے پہلے کہ میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کروں یہی سوال آپ احباب کہ سامنے رکھتا ہوں اور آپ کے جوابات کا منتظر ہوں


میر ے نظریے کے مطابق موجودہ حالات میں بہتری دو طریقے سے لائی جاسکتی ہے .1 انقلاب سے یا پھر .2 ووٹ سے

انقلاب قوموں کی تقدیریں بدلنے کی صلاحتیں رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ قوموں کی زندگی میں بہت کم وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پزیر ہونے کے لیے قوموں کا ایک خاص شعوری سطح پر ہونا اور اک قابل قدر راہنما کا ہونا ضروری ہوتا ہے
اگر انقلاب نہیں تو پھر تبدیلی کا دوسرا ذریعہ جمہوری ہے جو کہ ایک سست اور ارتقائی عمل ہونے کہ ساتھ ساتھ صبراورحوصلے کا بھی تقاضاکرتا ہے ۔اس حل میں اگر اجتماعی مفادات کو سا منے رکھ کر اپنی انتخابی صلاحیت کا ایماندارانہ استعمال کریں تو پھر آپ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی جانب گامزن رہتے ہیں (مثال کے طور پر بھارت کی صورتحال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں) ۔

اب بدقسمتی سے ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ انفرادی مفادا ت کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دی اوراسی سبق کا پرچار بھی کیا اور آج کی موجودہ صورتحال کے کلی طور پر ذمہ دار ہیں ۔ مثال کےطور پر انہوں نے یا تو ”مقدس گائے'' کی خاموشی سے پوجا کی یا پھر اپنے حق کو برادری کے شملہ پر قربان کر دیا یا پھر گلی کی نا لی پر یا پھر یہ کہہ کر جان چھوڑالی کہ ہم نے تو کبھی ووٹ ہی نہیں دیا ( کیا وہ نہیں جانتے کہ خاموش رہنے کا مطلب برائی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے) ۔
تو پھر اب ! اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم اپنے بزرگوں کی ہی روش کو اپنائیں یا پھر وہ فیصلہ کریں جو ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے
مستقبل کو بہتری سے ہمکنار کرسکے ۔ اور میرے نزدیک سب سے بہتریں راستہ اپنی رائے دہی کا منصفانہ استعمال ہے نہ کہ اس احتراز ہے ۔ یاد رہے کہ نہ ہمیں ایک ہی رات میں مسیحا مل جائے گا اورنہ ہی کوئی جادو کی چھڑی جو ایک پل میں ہمارے مسائل کو حل کردے گی ۔بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل ہےجس کے ہر چکر پر ہمیں بہتری کی طر ف بڑھنا نہ کہ تنزلی کی طرف اور نظام کو غلظا توں سے پاک کرنا ہے ۔ تو پھر ! فیصلہ آپ کا کہ آپ آزمائے ہوں کو آزماتے ہیں یا ارتقائی عمل کو آگے بڑھاتے ہو ئے بہتری کی شروعات کرتے ہیں

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

آپ کے جوابات کا منتظر ہوں​
 

نایاب

لائبریرین
محترم ملنگ بھائی
درست لکھا آپ نے
میرے نزدیک سب سے بہتریں راستہ اپنی رائے دہی کا منصفانہ استعمال ہے نہ کہ اس سےاحتراز ہے۔
کم برائی کے حامل کو ووٹ دینا بڑی برائی کے حامل سے بیزاریت کی علامت ٹھہرے گا ۔
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستان کے سیاسی حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ووٹ سے تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ وہاں ایمانداری سے الیکشن ہی نہیں ہوتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے نظریئے میں تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں، تبدیلی لانی ہے تو پاکستان کے سسٹم میں لانی ہے جو اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ انقلائے آئے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔
 
Top