تلخیاں (ساحر لدھیانوی)


متاعِ غیر

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے

میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے

پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناوں کا اظہار کروں یا نہ کروں

تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں

تیرے ہاتھوں کی حرارت، ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں

تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو

کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں

میری درماندہ جوانی کی تمناوں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتادے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بشرطِ استواری

خونِ جمہور میں بھیگے ہوئے پرچم لے کر
مجھ سے افراد کی شاہی نے وفا مانگی ہے
صبح کے نور پہ تعزیر لگانے کے لیے
شب کی سنگین سیاہی نے وفا مانگی ہے
اور یہ چاہا ہے کہ میں قافلہء آدم کو
ٹوکنے والی نگاہوں کا مددگار بنوں!
جس تصور سے چراغاں ہے سر جادہء زیست
اس تصور کی ہزیمت کا گنہگار بنوں!
ظلم پروردہ قوانین کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاقِ تادیب سے انصاب کے بت گھورتے ہیں
مسندِ عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
لیکن اے عظمتِ انساں کے سنہرے خوابو
میں کسی تاج کی سطوت کا پرستار نہیں
میرے افکار کا عنوانِ ارادت تم ہو
میں تمہارا ہوں لٹیروں کا وفادار نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

ہر قدم مرحلہء دار و صلیب آج بھی ہے
جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے

جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن
راستہ منزل ہسنتی کا مہیب آج بھی ہے

سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے

اہل دانش نے جسے امرِ مسلم مان
اہلِ دل کے لیے وہ بات عجیب آج بھی ہے

یہ تیری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سارگِ جاں کے قریب آج بھی ہے

کون جانے یہ تیرا شاعرِ آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداوں کا رقیب آج بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
انتظار

چاند مدہم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے

دور وادی میں دودھیا بادل
جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں
دل میں ناکام حسرتیں لے کر
ہم ترا انتظار کرتے ہیں

ان بہاروں کے سائے میں آجا
پھر محبت جواں رہے نہ رہے
زندگی تیرے نامرادوں پر!
کل تلک مہرباں رہے نہ رہے

روز کی طرح آج بھی تارے
صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں
کم سے کم ایک رات سو جائیں

چاند مدہم ہے آسماں چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تیری آواز

رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے
دلِ کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلی دینے
میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آجائے

دیر تک آنکھوں میں چھبتی رہی تاروں کی چمک
دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں
اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کے لیے
تو نہ آئی مگر اس رات کی پہنائی میں

یوں اچانک تری آواز کہیں سے آئی
جیسے پربت کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں تڑپ کر ناگاہ
آسمانوں سے کوئی شوخ ستارہ ٹؤٹے

شہد سا گھل گیا تلخابہء تنہائی میں
رنگ سا پھیل گیا دل کے سیہ خانے میں
دیر تک یوں تری مستانہ صدائیں گونجیں
جس طرح پھول چٹکنے لگیں ویرانے میں

تو بہت دور کسی انجمنِ ناز میں تھی
پھر بھی محسوس کیا میں نے کہ تو آئی ہے
اور نغموں میں چھپا کر مرے کھوئے ہوئے خواب
میری روٹھی ہوئی نیندوں کو منا لائی ہے

رات کی سطح پر اُبھرے ترے چہرے کے نقوش
وہی چپ چاپ سی آنکھیں وہی سادہ سی نظر
وہی ڈھلکا ہوا آنچل وہی رفتار کا خم
وہی رہ رہ کے لچکتا ہوا نازک پیکر

تو مرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تک
تیرا ہر سانس مرے جسم کو چھو کر گزرا!
قطرہ قطرہ ترے دیدار کی شبنم ٹپکی
لمحہ لمحہ تری خوشگو سے معطر گزرا!

اب یہی ہے تجھے منظور تو اے جانِ قرار
میں تری راہ نہ دیکھوں گا سیہ راتوں میں
ڈھونڈ لیں گی مری ترسی ہوئی نظریں تجھ کو
نغمہ و شعر کی امڈی ہوئی برساتوں میں

اب ترا پیار ستائے گا تو میری ہستی!
تیری مستی بھری آواز میں ڈھل جائے گی
اور یہ روح جو تیرے لیے بے چین سی ہے
گیت بن کر ترے ہونٹوں پہ مچل جائے گی

تیرے نغمات ترے حسن کی ٹھنڈک لے کر
میرے تپتے ہوئے ماحول میں آ جائیں گے
چند گھڑیوں کے لیے ہوں کہ ہمیشہ کے لیے
مری جاگی ہوئی راتوں کو سلا جائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

بھڑکا رہے ہیں آگ لبِ نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم

کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھوں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
خوبصورت موڑ

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کیوں امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لرکھرائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیشقدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں مرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں

تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اک خوبصورت موڑ دے کرچھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں زخم رہگزاروں کے

خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو، راز پردہ داروں کے

گیسووں کی چھاوں میں، دل نواز چہرے ہیں
یا حسیں دھندلکوں میں، پھول ہیں بہاروں کے

پہلے ہنس کے ملتے ہیں، پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ، اجنبی دیاروں کے

ہم نے صرف چاہا ہے ہم نے چھوکے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاوں کے، جسم برق پاروں کے

شغلِ مے پرستی گو، جشن نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
[align=right:ff679cb09b]مرے عہد کے حسینو

وہ ستارے جن کی خاطر کئی بےقرار صدیاں
مری تیرہ بخت دنیا میں ستارہ وار جاگیں
کبھی رفعتوں پہ لپکیں، کبھی وسعتوں سے الجھیں
کبھی سوگوارسوئیں، کبھی نغمہ بار جاگیں

وہ بلند بام تارے وہ فلک مقام تارے
وہ نشان دے کے اپنا رہے بے نشاں ہمیشہ
وہ حسیں، وہ نورزادے، وہ خلاء کے شہزادے
جو ہماری قسمتوں پر رہے حکمراں ہمیشہ

جنہیں مضمحل دلوں نے ابدی پناہ جانا
تھکے ہارے قافلوں نے جنہیں خضرِ راہ جانا
جنہیں کم سنوں نے چاہا کہ لپک کے پیار کر لیں
جنہیں مہوشوں نے مانگا کہ گلے کا ہار کر لیں
جنہیں عاشقوں نے چاہا کہ فلک سے توڑ لائیں

کسی راہ میں بچھائیں، کسی سیج پر سجائیں
جنہیں بت گروں نے چاہا کہ صنم بنا کے پوجیں
یہ جو دُور کے حسین ہیں انہیں پاس لاکے پوجیں
جنہیں مطربوں نے چاہا کہ صداوں میں پرولیں
جنہیں شاعروں نے چاہا کہ خیال میں سمو لیں

جو ہزار کوششوں پر بھی شمار میں نہ آئے
کہیں خاک بے بضاعت کے دیار میں نہ آئے
جو ہماری دسترس سے رہے دور دور اب تک
ہمیں دیکھتے رہے ہیں جو بصد غرور اب تک

مرے عہد کے حسینو! وہ نظر نواز تارے
مرا دورِ عشق پرور تمہیں نذر دے رہا ہے
وہ جنوں جو آب و آتش کو اسیر کر چکا تھا!
وہ خلا کی وسعتوں سے بھی خراج لے رہا ہے

مرے ساتھ رہنے والو! مرے بعد آنے والو
میرے دور کا یہ تحفہ تمہیں سازگار آئے
کبھی تم خلا سے گزرو کسی سیم تن کی خاطر
کبھی تم کو دل میں رکھ کر کوئی گلغدار آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[/align:ff679cb09b]
 
یہ کس کا لہو ہے

(جہازیوں کی بغاوت 1946ء)

اے رہبرِ ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں
تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں
سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگرکے کنارے پوچھتے ہیں

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

وہ کون سا جذبہ تھا جس سے فرسودہ نظامِ زیست ملا
جھلسے ہوئے ویراں گلشن میں اک آس امید کا پھول کھلا
جنتا کا لہو فوجوں سے ملا، فوجوں کا خوں جنتا سے ملا

اے رہبر ملک و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا

کیا قوم وطن کی جے گا گر مرتے ہوئے راہی غنڈے تھے
جو دیس کا پرچم لے کے اٹھے وہ شوخ سپاہی غنڈے تھے
جو بار غلامی سہہ نہ سکے، وہ مجرم شاہی غنڈے تھے

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

اے عزمِ فنا دینے والو! پیغام بقا دینے والو!
اب آگ سے کیوں کتراتے ہو؟ شعلوں کو ہو دینے والو
طوفان سے اب ڈرتے کیوں ہو؟ موجوں کی صدا دینے والو!

کیا بھول گئے اپنا نعرہ
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

سمجھوتے کی امید سہی، سرکار کے وعدے ٹھیک سہی
ہاں مشقِ ستم افسانہ سہی، ہاں پیار کے وعدے ٹھیک سہی
اپنوں کے کلیجے مت چھیدو اغیار کے وعدے ٹھیک سہی

جمہور سے یوں دامن نہ چھڑا
اے رہبرِ مل و قوم بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا

ہم ٹھان چکے ہیں اب جی میں ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
تم سمجھوتے کی آس رکھو، ہم آگے بڑھتے جائیں گے
ہر منزل آزادی کی قسم، ہر منزل پہ دہرائیں گے

یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبرِ ملک و قوم بتا!
یہ کس کا لہو ہے کون مرا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پرچھائیاں

جواں رات کے سینے پہ دودھیا آنچل
مچل راہ ہے کسی خوابِ مرمریں کی طرح
حسین پھول، حسیں پتیاں، حسیں شاخیں
لچک رہی ہیں کسی جسمِ نازنیں کی طرح
فضا میں گھل سے گئے ہیں افق کے نرم خطوط
زمیں حسیں ہے خوابوں کی سرزمیں کی طرح
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح
وہ پیڑ جن کے تلے ہم پناہ لیتے تھے
کھڑے ہیں آج بھی ساکت کسی امیں کی طرح

انہی کے سائے میں پھر آج دو دھڑکتے دل
خموش ہونٹوں سے کچھ کہنے سننے آئے ہیں
نہ جانے کتنی کشاکش سے کتنی کاوش سے
یہ سوتے جاگتے لمحے چرا کے لائے ہیں
یہی فضا تھی، یہی رت، یہی زمانہ تھا
یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی
دھڑکتے دل سے، لرزتی ہوئی نگاہوں سے
حضورِ غیب میں ننھی سی التجا کی تھی
کہ آرزو کے کنول کھل کےپھول ہو جائیں
دل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تم آرہی ہو زمانے کی آنکھ سے بچ کر
نظر جھکائے ہوئے اور بدن چرائے ہوئے
خود اپنے قدموں کی آہنٹ سے جھنپتی ڈرتی
خود اپنے سائے کی جنبش سے خوف کھائے ہوئے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواوں کے رخ پر
ندی کے ساز پہ ملاح گیت گاتا ہے
تمہارا جسم ہر اک لہر کے جھکولے سے
مری کھلی ہوئی باہوں میں جھول جاتا ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں
تمہاری آنکھ مسرت سے جھکتی جاتی ہے
نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں
زبان خشک ہے آواز رکتی جاتی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
مرے گلے میں تمہاری گداز باہیں ہیں
تمہارے ہونٹوں پہ میرے لبوں کے سائے ہیں
مجھے یقیں ہے کہ ہم اب کبھی نہ بچھڑیں گے
تمہیں گمان کہ ہم مل کے بھی پرائے ہیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
مرے پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں کو
ادائے عجزو کرم سے اٹھا رہی ہو تم
سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں
دبے سروں میں وہی گیت گارہی ہو تم

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ لمحے کتنے دلکش تھے وہ گھڑیاں کتنی پیاری تھیں
وہ سہرے کتنے نازک تھے وہ لڑیاں کتنی پیاری تھیں
بستی کی ہر اک شاداب گلی خوابوں کا جزیرہ تھی گویا
ہر موجِ نفس، ہر موجِ صبا، نغموں کا ذخیرہ تھی گویا

ناگاہ مہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارود کی بوجھل بو لے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمر کے روشن چہرے پر تخریب کا بادل پھیل گیا
ہر گاوں میں وحشت ناچ اٹھی، ہر شہر میں جنگل پھیل گیا

مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے
اٹھلائے ہوئے مغرور آئے، لہرائے ہوئے مدہوش آئے
خاموش زمیں کے سینے میں خیموں کی طنابیں گڑنے لگیں
مکھن سی ملائم راہوں پر، بوٹوں کی خراشیں پڑنے لگیں
فوجوں کے بھیانک بینڈ تلے، چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سلگتی دھول تلے، پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
انسان کی قمیت گرنے لگی اجناس کے بھاو چڑھنے لگے
چوپال کی رونق گھٹنے لگی، بھرتی کے دفاتر بڑھنے لگے
بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے
جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے، اس راہ پہ راہی جانے لگے
اُن جانے والے دستوں میں ، غیرت بھی گئی، برنائی بھی
ماوں کے جواں بیٹے بھی گئے، بہنوں کے چہیتے بھائی بھی
بستی پہ اداسی چھانے لگی، میلوں کی بہاریں ختم ہوئیں
آموں کی لچکتی شاخوں سے جھولوں کی قطاریں ختم ہوئیں
دھول اڑنے لگی بازاروں میں، بھوک اگنے لگی کھلیانوں میں
ہر چیز دکانوں سے اُٹھ کر، روپوش ہوئی تہہ خانوں میں
بدحال گھروں کی بدحالی، بڑھتے بڑھتے جنجال بنی
مہنگائی بڑھ کر کال بنی، ساری بستی کنگال بنی
چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑ گئیں
کتنی ہی کنواریں ابلائیں، ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس ذدہ دہقانوں کے، ہل بیل بکے کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں ،جینے کے سب سامان بکے
کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو، جسموں کی تجارت ہونے لگی
خلوت میں بھی ممنوع تھی وہ جلوت میں جسارت ہونے لگی

تصورات کی پرچھائیں اُبھرتی ہیں
تم آرہی ہو سرِ شام بال بکھرائے
ہزار گونہ ملامت کا بار اٹھائے ہوئے
ہوس پرست نگاہوں کی چیرہ دستی سے
بدن کی چھینپتی عریانیاں چھپائے ہوئے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
میں شہر جا کے ہر اک دو پر جھانک آیا ہوں
کسی جگہ میری محنت کا مول مل نہ سکا
ستمگروں کے ساسی قمار خانے میں
الم نصیب فراست کا مول مل نہ سکا

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
تمہارے گھر میں قیامت کا شور برپا ہے
محاذِ جنگ سے ہرکارہ تار لایا ہے
کہ جس کے ذکر تمہیں زندگی سے پیارا تھا
وہ بھائی نرغہء دشمن میں کام آیا ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
ہر ایک گام پہ بدنامیوں کا جمگھٹ ہے
ہر ایک موڑ پر رسوائیوں کے میلے ہیں
نہ دوستی، نہ تکلف، نہ دلبری، نہ خلوص
کسی کا کوئی نہیں آج سب اکیلے ہیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
وہ رہگذار جو مرے دل کی طرح سونی ہے
نہ جانے تم کو کہاں لے کے جانے والی ہے
تمہیں خرید رہے ہیں ضمیر کے قاتل
اُفق پہ خونِ تمنائے دل کی لالی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

اس شام مجھے معلوم ہوا کھیتوں کی طرح اس دنیا میں
سہمی ہوئی دوشیزاوں کی مسکان بھی بیچی جاتی ہے

اس شام مجھے معلوم ہوا اس کارگہِ زرداری میں
دو بھولی بھالی روحوں کی پہچان بھی بیچی جاتی ہے

اُس شام مجھے معلوم ہوا جب باپ کی کی کھیتی چھن جائے
ممتا کے سنہرے خوابوں کی انمول نشانی بکتی ہے

اُس شام مجھے معلوم ہوا، جب بھائی جنگ میں کام آئیں
سرمائے کے قحبہ خانے میں بہنوں کی جوانی بکتی ہے

سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

تم آج ہزاروں میل یہاں سے دور کہیں تنہائی میں
یا بزمِ طرب آرائی میں
میرے سپنے بنتی ہوگی بیٹھی آغوش پرائی میں
اور سینے میں غم لے کر دن رات مشقت کرتا ہوں
جینے کی خاطر مرتا ہوں
اپنے فن کو رسوا کرکے اغیار کا دامن بھرتا ہوں
مجبور ہوں میں، مجبور ہو تم، مجبور یہ دنیا ساری ہے
تن کا دکھ من پر بھاری ہے
اس دور میں جینے کی قمیت یا دارورسن یا خواری ہے
میں دارورسن تک جا نہ سکا تم جہد کی حد تک آ نہ سکیں
چاہا تو مگر اپنا نہ سکیں
ہم تو دو ایسی روحیں ہیں جو منزلِ تسکیں پا نہ سکیں
جینے کو جیے جاتے ہیں مگر سانسوں میں چتائیں جلتی ہیں
خاموش وفائیں جلتی ہیں
سگین حقائق زاروں میں، خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں
اور آج جب ان پیڑوں کے تلے پھر دو سائے لہراتے ہیں
پھر دو دل ملنے آئے ہیں
پھر موت کی آندھی اٹھی ہے پھر جنگ کے بادل چھائے ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنون ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی، اک خون سے لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا انجام ہے اب تک یاد مجھے

ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا
مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جائے
ہمیں تو کشمکشِ مرگِ بے اماں ہی ملی
انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جائے
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
بہت دنوں سے جوانی کے خواب ویراں ہیں
بہت دنوں سے محبت پناہ ڈھونڈتی ہے
بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں
نگارِ زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈتی ہے
چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں، سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کرلیں
چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آئے
ہمیں حیات کے اُس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی
ہر ایک موج ِ ہوا رخ بدل کے چھپٹے گی
ہر ایک شاخ رگِ سنگ ہوتی جائے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگ جو سے یہ کہیں دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے
اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جائے گی
یہ کھیت جاگ پڑے، اُٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں
اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جائے گی
یہ سرزمین ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارض پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسلِ نو کے لیے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاوں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top