سنی اتحاد کونسل کے لئیے امریکی امداد

حماد

محفلین
جہاد اور صوفی ازم میں تفریق کوئی غیر مسلم کر سکتا ہے مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا
محترم ! آپ نے درست فرمایا۔ میں نے بھی غیر مسلموں کی ہی پالیسی کی نشاندہی کی ہے کہ کسطرح وہ حالات کے پیش نظرمختلف فرقوں کومقاصد کی تکمیل کیلئے اپنے تیئں کمزور یا مضبوط کرتے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
میں نے پہلے ہی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ایک نئی بحث شروع ہو بھی گئی۔ جہاد سے واقعی کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کیوں کہ اسلام کا رکن ہے اور اگر کوئی بھی مسلمان اسلام کے ایک بھی رکن پر بھی اعتراض کردے تو وہ مسلمان نہیں پر فلسفہ جہاد سب کا اپنا اپنا ہے۔ہر رکن کے فرض ہونے کے شرائط ہوتے ہیں
 
’’الجہاد ماض الی یوم القیمۃ‘‘ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اتحاد کی دولت نصیب فرمائے اور اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔
ڈیر زلفی صاحب جہاد کے مخالفین وہی ہیں جو امریکی برانڈ اسلام کے حامی ہیں یا اس گروہ کے فالوور ہیں جو جہاد کا سرے سے ہی منکر ہے
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ڈیر زلفی صاحب جہاد کے مخالفین وہی ہیں جو امریکی برانڈ اسلام کے حامی ہیں یا اس گروہ کے فالوور ہیں جو جہاد کا سرے سے ہی منکر ہے
الحمدللہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرقہ نہیں جو جہاد جیسے اہم اسلامی رکن کا مخالف ہو کیونکہ جہاد کی فرضیت نص قطعی سے ثابت ہے اور نص کا منکر بالاجماع دین سے خارج ہو جاتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
نہایت احترام سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں معاملہ جہاد کی فرضیت کا نہیں بلکہ ایک معتبر دینی اتحاد پر ڈالرز وصول کرنے کا الزام ہے۔
اللہ کی مہربانی سے آپ سب حضرات مجھ سے زیادہ دین کی سُوجھ بوُجھ رکھتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ عدل اور انصاف کے بارےقرآن مجید اور حدیث پاک میں کیا احکامات ہیں۔ قرآن پاک کی آیت کا مفہوم ہے کہ" تمہیں کسی قوم سے مناقشت زیادتی (نا انصافی) پر آمادہ نہ کر دے"۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ 'تم سے پہلے کی اقوام اسی لئیے تباہ و برباد ہوئیں کہ کمزور کو سزا دیتے اور طاقتور سے پہلو تہی کرتے'۔ قرآن مجید فرماتا ہے "عدل اختیار کرو کہ وہ تقوی کے زیادہ قریب ہے"۔
ہم کسی جماعت سے موافقت رکھتے ہیں یا کسی سے مخالفت لیکن عدل اور انصاف میں ہمارے اس روئیے کی وجہ سے رکاوٹ آئی تو ہم ظالموں میں شمار کئے جائیں گے۔
دین سے محبت اوراتباع رسول کا تقاضا ہے کہ خود کو انصاف کے لئیے پیش کیا جائے اور عامۃ الناس کے لئیے اس اعرابی کی مثال میں بہت کچھ موجود ہے جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بیچ مسجد کے مال غنیمت کی چادر سے بنے ان کے لباس پر اعتراض اٹھا دیا تھا اور وقت کے خلیفہ نے خود کچھ کہنے کی بجائے ٹھوس ثبوت کے طور پر اپنے بیٹے کو عوام کے سامنے پیش کیا تھا۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تُو نے​
وہ کونسا گردوں تھا تُو ہے جس کا اک ٹُوٹا ہوا تارا​
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



يہ انتہائ مضحکہ خيز الزام ہے کہ امريکی حکومت کسی مذہبی يا سياسی گروہ کے خلاف ان کی سوچ يا نقطہ نظر کی وجہ سے کوئ مہم چلائے گی۔ يہ امريکی حکومت نہيں ہے جس نے فنڈز کی تقسيم کے معاملے کی تشہير شروع کی تھی۔ ہم نے صرف اپنا موقف واضح کيا تھا اور ان سوالوں کے جواب ديے جو پوچھے گئے تھے۔ جس امداد کا ذکر کيا جا رہا ہے اس کی منظوری تجريری طور پر دسمبر 17 2009 کو دی گئ تھی اور يہ معلومات کسی بھی موقع پر خفيہ نہيں تھی۔ يہ پبلک ريکارڈز کا حصہ ہے اور کوئ بھی اس معلومات تک رسائ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ اگر چاہيں تو خود بھی اس ريکارڈ کی جانچ پڑتال کر سکتے ہيں۔ آپ لفظ "پاکستان" يا کوئ بھی اور لفظ لکھ کر تمام متعلقہ معلومات مذکورہ ويب سائٹ سے حاصل کر سکتے ہيں۔


http://www.usaspending.gov/


ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ اس ضمن ميں لگائے جانے والے بعض الزامات کے برعکس اس ويب سائٹ کو امريکہ کی جانب سے کسی قسم کے کردار کشی يا تشہيری مہم کے ليے نہيں شروع کيا گيا ہے۔ سال 2006 کے اکاؤنٹيبليٹی اور شفافيت سے متعلق ايکٹ کے تحت اس ويب سائٹ کا باقاعدہ اجراء دسمبر 2007 ميں کيا گيا تھا۔ اس ايکٹ کے تحت يہ لازمی قرار پايا تھا کہ سال 2007 کے مالی سال سے وفاقی حکومت سے امداد وصول کرنے والے تمام اداروں اور تنظيموں کے متعلق معلومات عوام کی دسترس ميں ہونا لازمی ہے۔


اس ويب سائٹ کے سرسری جائزے سے يہ حقيقت واضح ہو جائے گی کہ اس ويب سائٹ کا مقصد امريکی حکومت کی جانب سے ٹيکس دہندگان کے پيسے کو استعمال کرنے کے نظام ميں شفافيت لانا ہے، کسی مذہبی يا سياسی گروہ کو نشانہ بنانا ہرگز نہيں ہے۔


ميرا خيال ہے کہ اس ميں تو دو رائے نہيں ہو سکتيں کہ حکومت کی جانب سے عوام کے سرمائے کو استعمال کرنے کے نظام ميں بہتری اور شفاف لائحہ عمل اختيار کرنا ايک اچھی روايت ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بہت سے دعوؤں کے برعکس امريکی حکومت کی جانب سے سال 2009 ميں سنی اتحاد کونسل کو دی جانے والی امداد کا مقصد اس مخصوص مذہبی گروپ کو امریکی ایجنڈے کے فروغ دینے کے لئے رشوت دينا يا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ہرگز نہيں تھا۔

یہ امداد ہماری ان جاری کوششوںکا ايک حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان سميت دنیابھرمیں دہشت گردی کے خلاف مقامی لوگوں کی آوازوں کو اجا گر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی سفارتخے مشترکہ تشویش کے معاملات پر آواز اٹھانے کے ليے اکثر مقامی تنظیموں کو گرانٹ ديتے رہتے ہيں۔

امریکی امداد کو عسکریت پسندوں اور خود کش بم دھماکوں کے خلاف ملک گیر ریلیوں کو منظم کرنے کے لئے استعمال کیا گيا تھا۔ ملک میں انتہا پسندی کے خلاف سب سے پہلے اس جماعت نے مظاہرے کيے تھے اور اس کو وسیع پیمانے پر میڈیا کوریج بھی ملی تھی۔

میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ 2003 سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے 35000 لوگ مارے گے۔ لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد نہ صرف پاکستان کے باہر بلکہ پاکستان کے اندر رہنے والے لوگوں کے لیے بھی ايک بہت بڑا خطرہ ہے۔


ہمارا مقصد پاکستان اور بين الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس لعنت کو دنیا بھر سے ختم کرنا ہے۔ ان دہشت گردوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا ميں بڑی تباہی پھيلائ ہے۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ کوئ خفيہ امر نہيں ہے کہ امريکی حکومت دنيا بھر ميں پرتشدد دہشت گردی کے فلسفے کی نفی اور عالمی سطح پر تسليم شدہ رواداری اور برداشت کے اصولوں کے فروغ کے ليے کوشاں ہے۔

يہ نہ تو کوئ مخفی ايجنڈہ ہے اور نہ ہی کوئ ايسی متنازعہ سفارتی کاروائ جس کا باريک بينی کے ساتھ فلسفانہ تجزيہ کرنے کی ضرورت ہو۔

آج کے دور ميں جب دہشت گردی کے عالمی عفريت اور اس کے حقائق اپنی تمام تر قباحتوں اور مکروہ شکل کے ساتھ ہمارے سامنے ہيں تو يقينی طور پر يہ ہماری مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان افراد اور آوازوں کی حوصلہ افزائ اور حمايت کی جائے جو کسی بھی پليٹ فورم پر دہشت گردی اور عدم برداشت کے خلاف کھڑے ہوئے ہيں، جن ميں سفارتی ذرائع بھی شامل ہيں۔

ميں يہ نشاندہی بھی کر دوں کہ دنيا بھر ميں حکومتيں اسی قسم کی کاوشوں کی تشہير اور حوصلہ افزائ کے ليے اقدامات اٹھاتی ہيں جن میں مختلف افراد، گروہوں اور تنظيموں کی امداد اور تعاون بھی شامل ہوتا ہے۔ پاکستان ميں بھی ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جب نجی اداروں اور افراد نے دہشت گردی اور عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے ليے عوام کے شعور کو بيدار کرنے کے ليے کليدی کردار ادا کيا۔

اس ضمن ميں "يہ ہم نہيں" تحريک سے ہم سب واقف ہيں جس ميں نوجوانوں کو اس عفريت کے خلاف کھڑے ہونے کا پيغام ديا گيا۔


http://www.yehhumnaheen.org/
ايک نجی ٹی وی چينل آج ٹی وی پر دہشت گردی کے خلاف اشتہاری مہم بھی ايسی ہی ايک مثال ہے۔
امريکی حکومت کی جانب سے ايسی ہی ايک کوشش کی امداد کا فيصلہ عالمی سطح پر تسليم شدہ سفارتی قدروں اور روايات کے عين مطابق اور عوامی سطح پر معاشرے ميں موجود متعدل آوازوں کے ساتھ اظہار يک جہتی کی ايک کوشش تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ يہ دنيا بھر ميں ہمارے اس عزم کو بھی اجاگر کرتا ہے جس کے تحت ہم ان قدروں کے فروغ کے ليے کوشاں رہيں گے جو ہمارے مشترکہ انساني جذبوں اور خواہشات کو بيان کرتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
يہ کوئ خفيہ امر نہيں ہے کہ امريکی حکومت دنيا بھر ميں پرتشدد دہشت گردی کے فلسفے کی نفی اور عالمی سطح پر تسليم شدہ رواداری اور برداشت کے اصولوں کے فروغ کے ليے کوشاں ہے۔
"پُر تشدد دہشتگردی؟" قبلہ کیا دہشت گردی کی کوئی پُر امن قسم بھی ہے؟ یا پھر آپ اپنی فوج کی جارحیت کے دفاع کے لئیے لفاظی سے کام لے رہے ہیں؟۔ امریکی حکومت دنیا بھر میں جس "اعلی درجے کا امن" لانے کے لئیے کوشاں ہے اس کی تشہیر کی چنداں ضرورت نہیں۔ ایسا امن کہ جس کے بارے میں شاعر کہہ گیا۔
سُنجیاں ہو جان گلیاں
تے وچہ مرزا یار پھرے
--------------------------------------------------
يہ نہ تو کوئ مخفی ايجنڈہ ہے اور نہ ہی کوئ ايسی متنازعہ سفارتی کاروائ جس کا باريک بينی کے ساتھ فلسفانہ تجزيہ کرنے کی ضرورت ہو۔
یہ بات آپ اپنی اس سفارت خانے کی ملازم کو سمجھاتے تو اچھا تھا جس نے سب سے پہلے اس کو عام کیا۔
--------------------------------------------------
آج کے دور ميں جب دہشت گردی کے عالمی عفريت اور اس کے حقائق اپنی تمام تر قباحتوں اور مکروہ شکل کے ساتھ ہمارے سامنے ہيں تو يقينی طور پر يہ ہماری مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان افراد اور آوازوں کی حوصلہ افزائ اور حمايت کی جائے جو کسی بھی پليٹ فورم پر دہشت گردی اور عدم برداشت کے خلاف کھڑے ہوئے ہيں، جن ميں سفارتی ذرائع بھی شامل ہيں۔
دہشت گردی کا یہ عالمی عفریت اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ کس کی مدد اور سرمایہ کاری کی بدولت وجود میں آیا؟۔ اور مشترکہ ذمہ داری سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟۔ کیا آپ کی حکومت اپنے قومی مفاد کے خلاف کوئی کام کرتی ہے ؟ تو پھرمشترکہ ذمہ داریوں کی آڑ میں آپ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی پالیسی کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟۔ سب سے اہم یہ کہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے بعد بھی آپ کا ملک دہشت گردی کے ایک فیصد خاتمے کا بھی دعوی کر سکتا ہے؟۔ اس کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ آپ اس منافقانہ روئیے کی بدولت دنیا بھر میں تشدد کے فروغ کا ٹریڈ مارک بن چکے ہیں۔
-----------------------------------------------

 
Top