عظیم اللہ قریشی
محفلین
ساجد کہ ساتھ ایک جگہ پر کچھ بات چیت ہورہی تھی تو اس کا جواب ادھر موضوع ذرا ہٹ کر تھا اس وجہ سے نیا دھاگہ کھولنا پڑادیکھئے جناب ، دو چیزوں پر غور کیجئے جو اس الیکشن میں تحریکِ انصاف نے متعارف کروائیں اول: غیر روایتی سیاست ، دوم: نیا پاکستان یعنی تبدیلی۔ اب ان دونوں چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لئے کیا کچھ درکار تھا بھلا؟؟؟۔ آپ اور میں سب جانتے ہیں کہ ایسا کام نعروں سے تو کبھی نہیں ہو سکتا تھا اس لئے جب تک عمران خان نے دوسروں سے ہٹ کر تحریک انصاف کو چلایا اور موجودہ کرپٹ اور فرسودہ نظام کے ستونوں کو اپنی پارٹی میں جگہ نہیں دی تھی تو میرے جیسے کم فہم اور میرے بعض ناقدوں کے مطابق ذو وہم بھی عمران کو تبدیلی کا استعارہ اور اہل سمجھتے تھے اور سچ مُچ میں تبدیلی لانے کے لئے عمران نے اپنی سیاست کو بہت درست سمت میں چلایا تھا۔ گو کہ عمران کی سابقہ زندگی کا سایہ اس کا پیچھا کر رہا تھا لیکن میں اس بات سے متفق ہوں کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور کم از کم عمران اپنی غلطیوں کو تسلیم ضرور کرتا تھا جو اس کا ایک مثبت اندازِ فکر تھا ۔
معاملات تب ایک ڈرامائی شکل اختیار کرنے لگے جب عمران نےاپنے دعووں اور اصولوں سے ہٹ کر ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں قبول کیا جو پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کے سرپنچ ، انگریز کے تاریخی وظیفہ خوار اور موروثی سیاست کے نقیب تھے۔ اگرچہ بابا ہارون الرشید اور حسن نثار اس وقت بھی عمران کی بلے بلے کرتے رہے لیکن میرے نزدیک عمران کے تبدیلی کے غبارے کی ہوا تبھی نکل چکی تھی اور یہ دونوں کالم نویس نہ جانے کس مصلحت کے تحت عمران کو اس وقت خبردار نہ کر سکے حالانکہ میں خود عمران کو اس غلطی پر ذاتی حیثیت سے اس پر خبردار بھی کر چکا تھا اور ایک کارکن ہونے کے ناطے جماعت سے الگ ہونے کا بھی لکھ چکا تھا۔ اب اگر تحریکِ انصاف ان آزمائے ہوئے کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی کے کلیدی عہدوں پر رکھ کر تبدیلی کی بات کہے یا نیا پاکستان کا دعوی کرے تو نہ صرف یہ عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہو گا بلکہ خود تحریک انصاف کے نظرئیے کے تابوت میں کیلیں ٹھونکنے کے مترادف۔ اس کے بعد کی کہانی بھی بڑی لمبی ہے جس میں سب سے اہم بات عمران کی پاکستان کی سیاست کے مزاج کو سمجھنے میں انتہا کی ناتجربہ کاری سر فہرست ہے ۔ عمران آخر یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کا 80 فیصد سے زیادہ ووٹ گاؤں ، گراؤں ، گوٹھوں ، دیہات اور کٹڑوں میں ہے ۔ عمران بڑے شہروں میں اپنے ارد گرد ناچتے تھرکتے چند ممی ڈیڈی لوگوں کو ہی اپنی پارٹی کا سرمایہ کیسے سمجھ بیٹھا ۔ کیا انقلابی سیاستدان کا دعوی کرنے والے کی سیاسی سوجھ بوجھ اسے اتنے بڑے نکتے سے روشناس نہ کروا سکی؟؟؟۔
میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میں ایک گاؤں میں پلا بڑھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں کے دیہات سے لے کر بڑے بڑے شہروں اور کھوکھے سے لے کر فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہونے والی سیاست کا چشم دید رہ چکا ہوں۔ اپنےا س تجربے کی بدولت کم از کم میں عمران کے ان اقدامات کو تب بھی دانش مندی نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی اب عمران کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہوں۔ لیکن عمران کی مخالفت ہی میرا مقصود نہیں ہے ۔ حالات کی اصلاح کے لئے میں نے ماضی میں بھی عمران کو لکھا تھا اور اب جبکہ بڑے بڑے جغادری قسم کے سیاسی بابے بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں تب بھی میں اصلاح کا دامن نہیں چھوڑ سکتا ۔ عمران اگر سیاسی میدان میں غلطی کر چکا ہے تو اس کے پاس بہت وسیع مواقع اب بھی موجود ہیں کہ وہ ان غلطیوں کا مداوا کرے جس میں سر فہرست اپنے اچھے کاموں کو اپنی سیاسی جیت سے غیر مشروط کرنا سر فہرست ہے۔ اور اگر عمران نے بھی اچھے کاموں کے لئے اپنی جیت کی شرط رکھی جیسا کہ ڈرائنگ روم سیاست کرنے والے لوگوں کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کے بعد سے رکھی جا رہی ہے تو آپ سمجھ لیں کہ اب تحریکِ انصاف اور موروثی سیاست کی دیگر جماعتوں کا فرق ختم ہو چکا ہے۔
بجلی بند ہونے کو ہے باقی تبصرے جاری رکھوں گا بس میری شرط یہ ہے کہ خود کو عمران کے حد سے زیادہ خیر خواہ کہنے والے بات کو سمجھے بغیر جذبات میں آ کر روایتی سیاست کا شو یہاں نہ چلائیں۔
دیکھیں ساجد بھائی کے قیام پاکستان کے وقت سے اس ملک کو صرف ایک طبقہ نے قابو کرلیا جس کو جاگیردار طبقہ کہتے ہیں پہلے مغل بادشاہ یا کسی بھی بادشاہ کے زمانے میں اگر کسی کو تعلقہ دار یا پھر بڑا حاکم لگایا جاتا تھا تو وہ عارضی ہوتا تھا یعنی کسی وقت بھی حکم ہوسکتا تھا کہ جاؤ جا کر دوسری جگہ ڈیوٹی سنبھالو یہ طبقہ اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ بادشاہ وقت تک کو معزول اور قتل کرادیتا تھا جب جلال الدین خلجی یعنی اپنے سسر کو قتل کرنے کے بعد علاء الدین خلجی تخت پر بیٹھا تو اس نے سب سے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ کوئی امیر آپس میں رشتہ داری نہیں کرے گا۔ سو اس طریقے سے اس نے جاگیرداروں کو قابو کیا۔
جب انگریز کی حکومت آئی اور اس کی گرفت کمزور ہونے لگی تو اس نے ہر جاگیردار کو اس کی جائیداد جس کا وہ صرف نگران تھا حاکم بنادیا۔یہی بائیس خاندان پاکستان بننے کے بعد ایک کینسر کی طرح پاکستان سے چمٹے ہوئے ہیں ان کی آپس کی رشتہ داریاں دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے زیادہ تفصیل نہیں پیش کرتا ہوں ایوب خان کی پوتی یعنی گوہر ایوب کی بیٹی جو کہ پکے مسلم لیگی ہیں ان کی بیٹی غلام احمد بلور صاحب کے صاحبزادے شبیر بلور مرحوم کی بیوی ہے اس طرح ہر کو قیاس کرلیں۔
ملک خداداد میں ان لوگوں کی شرارتیں جب حد سے بڑھنے لگیں تو آرمی نے ان کو نکیل ڈالی اور اس طرح آرمی دوسری بڑی طاقت بن گئی اب جنگ آرمی اور فوج کے مابین چھڑ گئی یہ ولد الحرام دیسی انگریزوں نے جب دیکھا کہ معاملہ اس طرح ہے تو انہوں نے اپنے بچوں کو جدید تعلیم سے روشناس کیا اور اس طرح سے ان کے بچے افسر شاہی اور فوج کے بڑے بڑے عہدوں پر براہ جمان ہوگئے ۔جب ضیاء الحق آیا تو اس نے ان جاگیرداروں کے مقابلے میں صنعت کاروں کو اتارا واضح ہو کہ اس سے پہلے کراچی کے تجارتی لوگوں جو کہ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے ان کو گوہر ایوب نے بہت شرمناک طریقے سے بے عزت کرکے ان کی کمر ایسی توڑی کہ وہ پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل اسطرح نہ رہے کہ صرف تجارت یعنی بیوپیار پر ہی توجہ دیتے ہیں ۔ضیاء الحق نے ایک صنعت کار شریف فیملی کو آگے کیا اور اتنا مہربان ہوا کہ یہ تاریخی جملہ اس کے منہ سے نکلا ۔۔۔۔خدا کرے میری عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔۔۔۔
اب یہ جاگیر دار طبقہ مکمل طور پر نواز شریف کے پیچھے لگ گیا اور اس کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے پروان چڑھانے لگا لیکن ضیاء الحق اس ننھے پودے کو بہت تناور درخت بناگیا تھا اس کی ٹہنیاں تو جاگیر دار طبقہ وقتا فوقتا کاٹتا رہا لیکن جڑیں نہ کاٹ سکا ۔۔۔۔جب نواز شریف کی شرارتیں کہہ لیں یا جرات کہہ لیں کہ اس نے پہلے سپریم کورٹ اور پھر ڈائریکٹ فوج کو للکارا تو اس کو سبق سکھانے کا بندوبست کرنے کے لیئے پہلے تو دس سال کا معاہدہ کرکے اس کو باہر بھیجا گیا اور اس دوران عمران خان کو غیر محسوس طریقے سے پنجاب میں شریف برادران کا پتہ کاٹنے کے لیئے تیار کیا گیا جس کی ایک جھلک آپ کو مینار پاکستان کا پہلا جلسہ کرکے ثبوت کے طور پر مل گئی ہے۔ جب عمران خان نے نواز شریف کو اچھی طرح رکیدنے کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھایا اور فوج کی کارکردگی پر بھی انگلیاں اٹھانے لگا یعنی باپ بننے لگا اور ملک عزیز میں اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے سٹاک ایکسچینج کی طرح تیزی دکھانے لگا تو اس کی مقبولیت سے خوف کھا کر کہ کہیں یہ شخص سچ مچ ووٹ لیکر آگیا اور ہمارے احتساب کرنے لگا تو پھر کیا ہوگا کیونکہ یہ جاگیردار طبقہ ٹیکس بالکل نہیں دیتا اس حد تک کہ زرداری جیسا بڑا جاگیر دار بھی سالانہ ایک روپیہ ٹیکس بھی نہیں ادا کرتا ہے اور عمران خان کا عزم اور ارادہ ہی یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے ٹیکس لے گا اور ٹیکس کے سارے نظا کو تبدیل کرے گا۔ تو اس خوف نے ان جاگیر دار طبقوں کی نیندیں اڑا دیں اور یہ سب خم ٹھونک کر اس کے سامنے آنے کی بجائے اس کی تحریک انصاف میں اپنے گماشتے اپنے نمائندے کی شکلوں میں بھیج دیئے جن کو خیر سے ٹکٹ بھی دے دیئے گئے ہیں ۔۔۔
جاگیر دار طبقہ نے کراچی میں ایم کیو ایم کی شکل میں جو کہ ایک طوفان اٹھاتھا اس کو پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک فوجی نصیر اللہ بابر نے بری طرح کچل دیا تھا ۔ کیونکہ ایم کیو ایم کے نعرے میں بھی بڑی جان ہے خاص کر جب الطاف حسین کہتا ہے
یعنی پنجابی انداز میں بڑھک مارتا ہے ۔۔۔۔اوئے پنجاب دے جاگیردارا ۔۔۔۔سن لے ۔۔۔۔الطاف حسین آندا پیا اے۔
دراصل یہ جاگیر دار طبقہ اس بات سے بہت پریشان اور خوفزدہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محنت کش طبقہ جس نے پاکستان بنایا تھا جو کہ اس کے اصل حقدار ہیں وہ پاکستان کے والی وارث نہ بن جائیں جیسا کہ ایک جاگیردار نے آدھا ملک گنوا دیا یعنی یہ نعرہ لگا کر کہ ادھر ہم ادھر تم۔