ملک میں دہشتگردی کی فضا ، بڑا صوبہ دوسرے صوبوں کیلئے مثال

172561_l.jpg

کراچی (ٹی وی رپورٹ)سینئر تجزیہ کار کامران خان نے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ پورے ملک میں دہشتگردی کی فضا قائم ہے، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ دوسرے صوبوں کیلئے مثال ہے، گزشتہ 15ماہ میں پنجاب میں دہشتگردی کے اِکّا دُکّا ہی بڑے واقعات ہوئے ہیں، پنجاب حکومت نے موثر کارکردگی کے ذریعے دہشتگردی پر قابو پایا ہے۔پنجاب کے وزیر قانون و داخلہ رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں امن و امان کی بہتر صورتحال کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پالیسی کو جاتا ہے، وزیر اعلیٰ نے پورے پنجاب کے تمام آر پی اوز اور ڈی پی اوز کا خود انٹرویو کر کے اور ایجنسیوں سے معلومات لے کر ایسے لوگوں کی ٹیم پنجاب میں لگائی ہے جو دیانتدار اور محنتی ہیں۔پروگرام میں افتخار احمد اور فرخ سلیم نے بھی اظہار خیال کیا۔ کامران خان نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ طالبان مذاکرات کے حوالے سے حکومت اب ایک بند گلی میں نظر آرہی ہے، جمعے کو طالبان اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ سامنے آیا اس سے کوئی بھی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا۔ پشاور میں آئی جی پولیس نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ خیبرپختونخوامیں خودکش بمبار فروخت ہورہے ہیں، کراچی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کراچی یونیورسٹی میں القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم کو پکڑا ہے، پکڑے جانے والے تین افراد سے دہشتگردی کی کئی وارداتوں کا سراغ ملا ہے۔ وہ جیو نیوز کے معروف پروگرام ’’آج کامران خان کے ساتھ‘‘ میں بطور میزبان تجزیہ پیش کررہے تھے۔ کامران خان نے کہا کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جمعہ کودوسرے دن مسلسل بڑا حملہ ہوا ہے اور آج رینجرز کے ایک سینئر اہلکار کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا، جمعہ کا یہ واقعہ خودکش حملہ تھا جو رینجرز کے خلاف 20دنوں میں دوسرا خودکش حملہ ہےجبکہ ایک اور حملہ پشاور میں بڈھ بیر کے قریب ہوا ، اس میں بھی کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔جمعہ کے حملوں کی ذمہ داری ایک نئی تنظیم انصار المجاہدین نے قبول کی ہے۔سینئر تجزیہ کار نے مزید کہا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوامیں دہشتگردی کی بدترین فضا ہے مگر پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس لحاظ سے نسبتاً محفوظ ہے کہ وہاں پر حکومت کی موثر کارروائیوں کے نتیجے میں دہشتگردی پر کسی حد تک قابو پایا جاچکا ہے، یقینی طور پر یہ انتہائی قابل ستائش قدم ہے جس کے نتیجے میں پنجاب میں پچھلے پندرہ ماہ کے دوران منظم دہشتگردی کے دو ہی بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ 2013ء میں تو ایک بھی منظم دہشتگرد حملہ پنجاب میں نہیں ہوا۔ 2014ء میں 20جنوری کو راولپنڈی کے آر اے بازار میں خودکش حملہ ہوا جو پندرہ ماہ بعد پنجاب میں خودکش حملہ تھا۔ پنجاب میں اب دہشتگردی کی مضبوط پناہ گاہیں نہیں رہی ہیں اس وجہ سے پنجاب کے عوام دہشتگردی سے مجموعی طور پر محفوظ ہیں۔حکومت طالبان مذاکرات پر تجزیہ میں کامران خان نے کہا کہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ موجودہ ماحول میں دہشتگردی کے واقعات میں جس طرح تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی ہے اس کے بعد حکومت طالبان مذاکراتی عمل بند گلی میں نظر آتا ہے اور طالبان سے مذاکرات آگے بڑھتے نہیں نظر آرہے ہیں مگرایک بات طے ہوگئی ہے کہ ان واقعات کے باوجود حکومت مذاکرات جاری رکھے گی یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو حکومتی اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اجلاس کے بعد صرف ڈھائی سطری بیان جاری ہوا جس سے کچھ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس ڈھائی سطری بیان سے طالبان کو ضرور اطمینان ہوگا کہ حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے حوالے سے اس اعلامیہ میں دہشتگردی کا لفظ نہیں استعمال کیا گیا بلکہ انہیں امن کے منافی سرگرمی کہا گیا ہے، یہ لفظ یقینی طور پر سوچ سمجھ کر ہی منتخب کیا گیا ہے۔ کامران خان نے تجزیے میں مزیدکہا کہ خیبرپختونخواپولیس کے سربراہ نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ اب خودکش حملہ آور رقم کے عوض بھی مل جاتے ہیں اور وہ تنظیمیں جو ملک میں دہشتگردی پھیلانا چاہتی ہیں وہ یہ خودکش حملہ آور حاصل کرلیتی ہیں۔حالیہ دنوں میں پشاور میں خواتین کے مذہبی اجتماع پر ہونے والے خودکش حملہ میں اسی قسم کا خودکش حملہ آور استعمال کیا گیا تھا جسے رقم دے کر حاصل کیا گیا تھا۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=172561
 
جب وفاقی حکومت نے کراچی میں امن و امان کے لئے گوجرانوالہ سے پنجاب پولیس کی ایک اعلی افسر کی پیشکش کی تھی تو پیپلز پارٹی نے انکار کر دیا تھا۔
 
Top