فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ٹی ٹی پی کے درندے آئے دن معصوم پاکستانی شہريوں کا خون بازاروں، سکولوں، مساجد، ہسپتالوں اور ديگر عوامی مقامات پر بہاتے ہيں مگر اس کے باوجود کچھ رائے دہندگان معاشرے کو درپيش اس بھياناک اور واضح خطرہ کو يہ کہہ کر رد کر ديتے ہيں کہ "يہ کاروائياں تو ان مبينہ ناانصافيوں کے نتيجے ميں کی جانے والی انتقامی کاروائياں ہيں جو اس راستے سے بھٹکے ہوئے ٹولے نے اپنی مقدس جدوجہد کے ضمن ميں کی ہيں"۔
پھر کچھ ايسے بھی ہيں جو ان دہشت گردوں کو بغير کسی پس وپيش کے امريکی ايجنٹ قرار دے ديتے ہيں۔ اس مضحکہ خيز سوچ کے پيچھے ايک غير حقيقی اور محض خواہش پر مبنی يہ نظريہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور خون آشام مہم پڑوسی ملک افغانستان سے بيرونی افواج کے انخلاء کے بعد خودبخود منظر سے غائب ہو جائے گی۔
سازشی نظريات کی بہتات ميں جس ناقابل ترديد حقيقت کا ادراک نہيں کيا جاتا وہ ہے ٹی ٹی پی کی پراگندہ تاريخ، واضح بيان کردہ سياسی ايجنڈہ جسے وہ دانستہ طور پر مذہبی رنگ ديتے ہيں اور سب سے بڑھ کر ان کی يہ صلاحيت کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج اور شہريوں کو نشانہ بنا سکتے ہيں۔
اس ضمن ميں کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ يہ دہشت گرد کوئ راستے سے بھٹکے ہوئے فرشتہ صف انسان نہيں بلکہ عادی مجرموں کا گروہ ہے جو خطے کے سياسی منظر نامے ميں کسی بھی قسم کی تبديلی سے قطع نظر اپنی روش تبديل نہيں کرے گا۔
دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔
ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔
http://tiny.cc/whnmyw
بعض رائے دہندگان کے ناپختہ خيالات اور غلط تاثر پر مبنی سوچ سے قطع نظر ميرا خيال ہے کہ ٹی ٹی پی کی فکر اور سوچ کی وضاحت کے لیے اس شحض کی رائے کو بھی اہميت دينی چاہيے جو اس سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ ميرا اشارہ طالبان کے معروف ليڈر ملا نذير کی جانب ہے۔ ظاہر ہے تحريک طالبان کے بارے ميں اظہار رائے کے ليے بہترين چوائس خود ان ہی کا ليڈر ہو سکتا ہے۔
يہ مغربی ميڈيا کی جانب سے طالبان کو بدنام کرنے کی کوئ کوشش نہيں ہے۔ بلکہ يہ انٹرويو القائدہ کے ميڈيا پروڈکشن ہاؤس السحاب نے ريليز کيا تھا۔ يہ امر ان دوستوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گا جن کے نزديک القائدہ اور طالبان دو مختلف حقيقتيں ہيں اور ان کے مقاصد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔
http://archive.org/details/Waziristan
http://www.captainsjournal.com/2009/05/10/pakistans-future-an-interview-with-mullah-nazir-ahmad
/
مولوی نذير احمد نے اس انٹرويو ميں يہ واضح کر ديا ہے کہ وہ ايک منتخب حکومت پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ يہ بات ان لوگوں کے ليے شايد ايک نئ خبر ہو جو اس بات پر بضد ہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امريکہ کی ہے اور پاکستان کو اس سے کوئ سروکار نہيں ہونا چاہيے۔
اسی انٹرويو کی تفصيلی ويڈيو ميں طالبان ليڈر نے واشگاف الفاظ ميں کہا کہ وہ جمہوريت پر يقين نہيں رکھتے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں۔ ان کا ايجنڈا اور مقصد پورے پاکستان پر اپنا مخصوص نظام کا نفاذ ہے۔ انھوں نے يہ بھی کہا کہ وہ اپنی "جدوجہد" کو محض اس خطے تک محدود نہيں رکھيں گے بلکہ پوری دنيا پر اپنے اثرو رسوخ کے لیے کوشش جاری رکھيں گے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ اس سوچ سے مقابلہ کرنے کا بہترين طريقہ يہی ہے کہ انھيں محفوظ مقامات ديے جائيں اور اس خطرے کو نظرانداز کر ديا جائے؟
ملا نذير نے القائدہ کی ليڈرشپ کو بھی تسليم کيا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے يہ واضح کيا کہ افغانستان اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپ ايک "امير" اسامہ بن لادن کی قيادت ميں متحد ہيں۔
انھوں نے اس حقيقت کو صيغہ راز ميں رکھنا ضروری نہيں سمجھا کہ وہ پاکستان آرمی اور پاکستان کی سيکورٹی فورسز پر براہراست حملوں ميں ملوث ہيں۔ يہی نہيں بلکہ انھوں نے سرحد پار افغانستان ميں اپنے "بھائيوں" کی مدد کی ضرورت پر بھی زور ديا تاکہ وہ بھی اسی طرح کی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔
يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ کچھ افراد طالبان کے مقاصد پر تند وتيز تقريريں اور بحث ومباحثہ کر رہے ہيں مگر دوسری جانب طالبان بذات خود اپنے الفاظ اور اپنے اعمال سے اپنے مقاصد صاف الفاظ ميں واضح کر چکے ہيں۔
امريکی ميڈيا ميں شائع ہونی والی رپورٹوں کو غير ملکی پروپيگنڈہ قرار دے کر نظرانداز کيا جا سکتا ہے ليکن آپ ان مسلح دہشت گردوں کے الفاظ کو کيسے نظرانداز کريں گے جو اسلام آباد سے محض چند سوکلوميٹر کے فاصلے پر موجود ہيں اور برملا يہ کہہ رہے ہیں کہ
"ہم اسلام آباد پر قبضہ کر ليں گے"۔
ٹی ٹی پی کے اہداف کے حوالے سے سازشی نظريات پر اندھا اعتقاد رکھنے والوں کی يادادشت کو تازہ کرنے کے ليے يہ واضح کردوں کہ ملا نذير وہ واحد سرکردہ ليڈر نہيں تھے جنھوں نے ٹی ٹی پی کے ارادوں کا کھلم کھلا اعتراف کيا تھا۔ اسی تنظيم کے ايک اور ترجمان مولوی عمر نے سال 2009 ميں واہ کينٹ کے خود کش حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ ايک ٹی وی انٹرويو ميں تسليم کی تھی۔ ان کی يہ گفتگو ان افراد کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو ٹی ٹی پی کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے ابھی بھی ابہام کا شکار ہيں۔
مولوی عمر کا نقطہ نظر صرف ايک ٹی وی پروگرام تک ہی محدود نہيں تھا بلکہ انھوں نے متعدد ٹی وی انٹرويوز ميں بہت سے نامور صحافيوں کو انٹرويوز ديے تھے جس ميں انھوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ٹی ٹی پی کے وجود سے انکار اور اس تنظيم کے ارادوں کے حوالے سے رائے دہندگان ميں جو شش وپنج پايا جاتا ہے، اس کا احاطہ اس مشہور کہاوت سے کيا جا سکتا ہے۔
"شيطان کی سب سے بڑی کاميابی يہ ہے کہ وہ يہ يقين دلانے ميں کامياب ہو جاتا ہے کہ اس کا وجود حقيقت نہيں ہے"
يہ امر حيران کن ہے کہ ٹی ٹی پی نے بارہا اپنے ارادے، مقاصد، طريقہ کار اور عقائد واضح الفاظ ميں بيان کيے ہیں ليکن اس کے باوجود کچھ دوست يہ حقيقت تسليم کرنے کو تيار نہيں ہیں۔
جب بھی اس تنظيم کے مظالم کے حوالے سے کوئ ويڈيو يا رپورٹ منظر عام پر آتی ہے تو ان کے سپورٹرز اس کو "امريکی يا مغربی پراپيگنڈہ" قرار دے کر نظرانداز کر ديتے ہيں۔ باوجود اس کے کہ طالبان کے ترجمان اس ويڈيو کی حقيقت کو تسليم بھی کر چکے ہوتے ہیں۔
جو دوست انسانوں کو ذبح کرنے کی ان ويڈيوز کی حقيقت کے بارے ميں شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ٹی ٹی پی کے اپنے ترجمان مسلم خان کا نقطہ نظر بھی اس حوالے سے سن ليں۔
اپريل 29 2009 کو ٹی وی اينکر عاصمہ چوہدری نے ان سے انسانوں کو ذبح کرنے کے حوالے سے سوال کيا۔ اس ويڈيو ميں 21:20 منٹ پر آپ ان کا جواب سن سکتے ہیں۔
http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?20132-In-Session-29th-April-2009-Haroon-Rasheed
انھوں نے واضح طور پر يہ کہا کہ
"جنھيں ذبح کيا جاتا ہے وہ اس کے مستحق ہيں"۔
اس کے علاوہ حال ہی ميں اسی تنظيم کے ترجمان کا يہ انٹرويو منظر عام پر آيا ہے جس ميں نا صرے يہ پاکستان کے پورے سياسی نظام کو مسترد کر ديا گيا ہے بلکہ تنطيم کی جانب سے يہ بھی واضح کر ديا گيا ہے کہ وہ پاکستان ميں تشدد اور جبر کے زور پر ايسا نظام لانے کے خواہاں ہيں جو ان کی دانست ميں پاکستان کے عوام کے ليے زيادہ بہتر ہے۔
يہ تمام شواہد اور ٹی ٹی پی کی قيادت کی جانب سے ريکارڈ پر موجود واضح پيغامات ان لوگوں کی ياد دہانی کے ليے ہيں جو بے تکی سازشی کہانيوں اور ان کے وجود سے انکار کے ذريعے نادانستگی ميں ان کی تمام پرتشدد کاروائيوں کے ليے توجيہہ يا جواز فراہم کرتے ہيں جو پھر براہراست يا بلواسطہ ان کے ايجنڈے اور سوچ کی ترويج اور تشہير کا سبب بنتا ہے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جو افراد ٹی وی اور ميڈيا پر نہ صرف يہ کہ قتل کا اعتراف کر رہے ہيں بلکہ مستقبل ميں بھی مزيد جرائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہيں، انھيں کسی بھی طريقےسے قابل قبول سياسی فريق کے طور پر تسليم کيا جا سکتا ہے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
ٹی ٹی پی کے درندے آئے دن معصوم پاکستانی شہريوں کا خون بازاروں، سکولوں، مساجد، ہسپتالوں اور ديگر عوامی مقامات پر بہاتے ہيں مگر اس کے باوجود کچھ رائے دہندگان معاشرے کو درپيش اس بھياناک اور واضح خطرہ کو يہ کہہ کر رد کر ديتے ہيں کہ "يہ کاروائياں تو ان مبينہ ناانصافيوں کے نتيجے ميں کی جانے والی انتقامی کاروائياں ہيں جو اس راستے سے بھٹکے ہوئے ٹولے نے اپنی مقدس جدوجہد کے ضمن ميں کی ہيں"۔
پھر کچھ ايسے بھی ہيں جو ان دہشت گردوں کو بغير کسی پس وپيش کے امريکی ايجنٹ قرار دے ديتے ہيں۔ اس مضحکہ خيز سوچ کے پيچھے ايک غير حقيقی اور محض خواہش پر مبنی يہ نظريہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور خون آشام مہم پڑوسی ملک افغانستان سے بيرونی افواج کے انخلاء کے بعد خودبخود منظر سے غائب ہو جائے گی۔
سازشی نظريات کی بہتات ميں جس ناقابل ترديد حقيقت کا ادراک نہيں کيا جاتا وہ ہے ٹی ٹی پی کی پراگندہ تاريخ، واضح بيان کردہ سياسی ايجنڈہ جسے وہ دانستہ طور پر مذہبی رنگ ديتے ہيں اور سب سے بڑھ کر ان کی يہ صلاحيت کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج اور شہريوں کو نشانہ بنا سکتے ہيں۔
اس ضمن ميں کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ يہ دہشت گرد کوئ راستے سے بھٹکے ہوئے فرشتہ صف انسان نہيں بلکہ عادی مجرموں کا گروہ ہے جو خطے کے سياسی منظر نامے ميں کسی بھی قسم کی تبديلی سے قطع نظر اپنی روش تبديل نہيں کرے گا۔
دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔
ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔
http://tiny.cc/whnmyw
بعض رائے دہندگان کے ناپختہ خيالات اور غلط تاثر پر مبنی سوچ سے قطع نظر ميرا خيال ہے کہ ٹی ٹی پی کی فکر اور سوچ کی وضاحت کے لیے اس شحض کی رائے کو بھی اہميت دينی چاہيے جو اس سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ ميرا اشارہ طالبان کے معروف ليڈر ملا نذير کی جانب ہے۔ ظاہر ہے تحريک طالبان کے بارے ميں اظہار رائے کے ليے بہترين چوائس خود ان ہی کا ليڈر ہو سکتا ہے۔
يہ مغربی ميڈيا کی جانب سے طالبان کو بدنام کرنے کی کوئ کوشش نہيں ہے۔ بلکہ يہ انٹرويو القائدہ کے ميڈيا پروڈکشن ہاؤس السحاب نے ريليز کيا تھا۔ يہ امر ان دوستوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گا جن کے نزديک القائدہ اور طالبان دو مختلف حقيقتيں ہيں اور ان کے مقاصد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔
http://archive.org/details/Waziristan
http://www.captainsjournal.com/2009/05/10/pakistans-future-an-interview-with-mullah-nazir-ahmad
/
مولوی نذير احمد نے اس انٹرويو ميں يہ واضح کر ديا ہے کہ وہ ايک منتخب حکومت پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ يہ بات ان لوگوں کے ليے شايد ايک نئ خبر ہو جو اس بات پر بضد ہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امريکہ کی ہے اور پاکستان کو اس سے کوئ سروکار نہيں ہونا چاہيے۔
اسی انٹرويو کی تفصيلی ويڈيو ميں طالبان ليڈر نے واشگاف الفاظ ميں کہا کہ وہ جمہوريت پر يقين نہيں رکھتے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں۔ ان کا ايجنڈا اور مقصد پورے پاکستان پر اپنا مخصوص نظام کا نفاذ ہے۔ انھوں نے يہ بھی کہا کہ وہ اپنی "جدوجہد" کو محض اس خطے تک محدود نہيں رکھيں گے بلکہ پوری دنيا پر اپنے اثرو رسوخ کے لیے کوشش جاری رکھيں گے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ اس سوچ سے مقابلہ کرنے کا بہترين طريقہ يہی ہے کہ انھيں محفوظ مقامات ديے جائيں اور اس خطرے کو نظرانداز کر ديا جائے؟
ملا نذير نے القائدہ کی ليڈرشپ کو بھی تسليم کيا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے يہ واضح کيا کہ افغانستان اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپ ايک "امير" اسامہ بن لادن کی قيادت ميں متحد ہيں۔
انھوں نے اس حقيقت کو صيغہ راز ميں رکھنا ضروری نہيں سمجھا کہ وہ پاکستان آرمی اور پاکستان کی سيکورٹی فورسز پر براہراست حملوں ميں ملوث ہيں۔ يہی نہيں بلکہ انھوں نے سرحد پار افغانستان ميں اپنے "بھائيوں" کی مدد کی ضرورت پر بھی زور ديا تاکہ وہ بھی اسی طرح کی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔
يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ کچھ افراد طالبان کے مقاصد پر تند وتيز تقريريں اور بحث ومباحثہ کر رہے ہيں مگر دوسری جانب طالبان بذات خود اپنے الفاظ اور اپنے اعمال سے اپنے مقاصد صاف الفاظ ميں واضح کر چکے ہيں۔
امريکی ميڈيا ميں شائع ہونی والی رپورٹوں کو غير ملکی پروپيگنڈہ قرار دے کر نظرانداز کيا جا سکتا ہے ليکن آپ ان مسلح دہشت گردوں کے الفاظ کو کيسے نظرانداز کريں گے جو اسلام آباد سے محض چند سوکلوميٹر کے فاصلے پر موجود ہيں اور برملا يہ کہہ رہے ہیں کہ
"ہم اسلام آباد پر قبضہ کر ليں گے"۔
ٹی ٹی پی کے اہداف کے حوالے سے سازشی نظريات پر اندھا اعتقاد رکھنے والوں کی يادادشت کو تازہ کرنے کے ليے يہ واضح کردوں کہ ملا نذير وہ واحد سرکردہ ليڈر نہيں تھے جنھوں نے ٹی ٹی پی کے ارادوں کا کھلم کھلا اعتراف کيا تھا۔ اسی تنظيم کے ايک اور ترجمان مولوی عمر نے سال 2009 ميں واہ کينٹ کے خود کش حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ ايک ٹی وی انٹرويو ميں تسليم کی تھی۔ ان کی يہ گفتگو ان افراد کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو ٹی ٹی پی کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے ابھی بھی ابہام کا شکار ہيں۔
مولوی عمر کا نقطہ نظر صرف ايک ٹی وی پروگرام تک ہی محدود نہيں تھا بلکہ انھوں نے متعدد ٹی وی انٹرويوز ميں بہت سے نامور صحافيوں کو انٹرويوز ديے تھے جس ميں انھوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ٹی ٹی پی کے وجود سے انکار اور اس تنظيم کے ارادوں کے حوالے سے رائے دہندگان ميں جو شش وپنج پايا جاتا ہے، اس کا احاطہ اس مشہور کہاوت سے کيا جا سکتا ہے۔
"شيطان کی سب سے بڑی کاميابی يہ ہے کہ وہ يہ يقين دلانے ميں کامياب ہو جاتا ہے کہ اس کا وجود حقيقت نہيں ہے"
يہ امر حيران کن ہے کہ ٹی ٹی پی نے بارہا اپنے ارادے، مقاصد، طريقہ کار اور عقائد واضح الفاظ ميں بيان کيے ہیں ليکن اس کے باوجود کچھ دوست يہ حقيقت تسليم کرنے کو تيار نہيں ہیں۔
جب بھی اس تنظيم کے مظالم کے حوالے سے کوئ ويڈيو يا رپورٹ منظر عام پر آتی ہے تو ان کے سپورٹرز اس کو "امريکی يا مغربی پراپيگنڈہ" قرار دے کر نظرانداز کر ديتے ہيں۔ باوجود اس کے کہ طالبان کے ترجمان اس ويڈيو کی حقيقت کو تسليم بھی کر چکے ہوتے ہیں۔
جو دوست انسانوں کو ذبح کرنے کی ان ويڈيوز کی حقيقت کے بارے ميں شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ٹی ٹی پی کے اپنے ترجمان مسلم خان کا نقطہ نظر بھی اس حوالے سے سن ليں۔
اپريل 29 2009 کو ٹی وی اينکر عاصمہ چوہدری نے ان سے انسانوں کو ذبح کرنے کے حوالے سے سوال کيا۔ اس ويڈيو ميں 21:20 منٹ پر آپ ان کا جواب سن سکتے ہیں۔
http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?20132-In-Session-29th-April-2009-Haroon-Rasheed
انھوں نے واضح طور پر يہ کہا کہ
"جنھيں ذبح کيا جاتا ہے وہ اس کے مستحق ہيں"۔
اس کے علاوہ حال ہی ميں اسی تنظيم کے ترجمان کا يہ انٹرويو منظر عام پر آيا ہے جس ميں نا صرے يہ پاکستان کے پورے سياسی نظام کو مسترد کر ديا گيا ہے بلکہ تنطيم کی جانب سے يہ بھی واضح کر ديا گيا ہے کہ وہ پاکستان ميں تشدد اور جبر کے زور پر ايسا نظام لانے کے خواہاں ہيں جو ان کی دانست ميں پاکستان کے عوام کے ليے زيادہ بہتر ہے۔
يہ تمام شواہد اور ٹی ٹی پی کی قيادت کی جانب سے ريکارڈ پر موجود واضح پيغامات ان لوگوں کی ياد دہانی کے ليے ہيں جو بے تکی سازشی کہانيوں اور ان کے وجود سے انکار کے ذريعے نادانستگی ميں ان کی تمام پرتشدد کاروائيوں کے ليے توجيہہ يا جواز فراہم کرتے ہيں جو پھر براہراست يا بلواسطہ ان کے ايجنڈے اور سوچ کی ترويج اور تشہير کا سبب بنتا ہے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جو افراد ٹی وی اور ميڈيا پر نہ صرف يہ کہ قتل کا اعتراف کر رہے ہيں بلکہ مستقبل ميں بھی مزيد جرائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہيں، انھيں کسی بھی طريقےسے قابل قبول سياسی فريق کے طور پر تسليم کيا جا سکتا ہے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu