ٹی ٹی پی – مقاصد، ابہام اور کچھ ناقابل ترديد حقائق

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ٹی ٹی پی کے درندے آئے دن معصوم پاکستانی شہريوں کا خون بازاروں، سکولوں، مساجد، ہسپتالوں اور ديگر عوامی مقامات پر بہاتے ہيں مگر اس کے باوجود کچھ رائے دہندگان معاشرے کو درپيش اس بھياناک اور واضح خطرہ کو يہ کہہ کر رد کر ديتے ہيں کہ "يہ کاروائياں تو ان مبينہ ناانصافيوں کے نتيجے ميں کی جانے والی انتقامی کاروائياں ہيں جو اس راستے سے بھٹکے ہوئے ٹولے نے اپنی مقدس جدوجہد کے ضمن ميں کی ہيں"۔

پھر کچھ ايسے بھی ہيں جو ان دہشت گردوں کو بغير کسی پس وپيش کے امريکی ايجنٹ قرار دے ديتے ہيں۔ اس مضحکہ خيز سوچ کے پيچھے ايک غير حقيقی اور محض خواہش پر مبنی يہ نظريہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور خون آشام مہم پڑوسی ملک افغانستان سے بيرونی افواج کے انخلاء کے بعد خودبخود منظر سے غائب ہو جائے گی۔

سازشی نظريات کی بہتات ميں جس ناقابل ترديد حقيقت کا ادراک نہيں کيا جاتا وہ ہے ٹی ٹی پی کی پراگندہ تاريخ، واضح بيان کردہ سياسی ايجنڈہ جسے وہ دانستہ طور پر مذہبی رنگ ديتے ہيں اور سب سے بڑھ کر ان کی يہ صلاحيت کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج اور شہريوں کو نشانہ بنا سکتے ہيں۔

اس ضمن ميں کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ يہ دہشت گرد کوئ‏ راستے سے بھٹکے ہوئے فرشتہ صف انسان نہيں بلکہ عادی مجرموں کا گروہ ہے جو خطے کے سياسی منظر نامے ميں کسی بھی قسم کی تبديلی سے قطع نظر اپنی روش تبديل نہيں کرے گا۔

دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔

ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔

http://tiny.cc/whnmyw


بعض رائے دہندگان کے ناپختہ خيالات اور غلط تاثر پر مبنی سوچ سے قطع نظر ميرا خيال ہے کہ ٹی ٹی پی کی فکر اور سوچ کی وضاحت کے لیے اس شحض کی رائے کو بھی اہميت دينی چاہيے جو اس سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ ميرا اشارہ طالبان کے معروف ليڈر ملا نذير کی جانب ہے۔ ظاہر ہے تحريک طالبان کے بارے ميں اظہار رائے کے ليے بہترين چوائس خود ان ہی کا ليڈر ہو سکتا ہے۔

يہ مغربی ميڈيا کی جانب سے طالبان کو بدنام کرنے کی کوئ کوشش نہيں ہے۔ بلکہ يہ انٹرويو القائدہ کے ميڈيا پروڈکشن ہاؤس السحاب نے ريليز کيا تھا۔ يہ امر ان دوستوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گا جن کے نزديک القائدہ اور طالبان دو مختلف حقيقتيں ہيں اور ان کے مقاصد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔

http://archive.org/details/Waziristan

http://www.captainsjournal.com/2009/05/10/pakistans-future-an-interview-with-mullah-nazir-ahmad
/

مولوی نذير احمد نے اس انٹرويو ميں يہ واضح کر ديا ہے کہ وہ ايک منتخب حکومت پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ يہ بات ان لوگوں کے ليے شايد ايک نئ خبر ہو جو اس بات پر بضد ہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امريکہ کی ہے اور پاکستان کو اس سے کوئ سروکار نہيں ہونا چاہيے۔

اسی انٹرويو کی تفصيلی ويڈيو ميں طالبان ليڈر نے واشگاف الفاظ ميں کہا کہ وہ جمہوريت پر يقين نہيں رکھتے اور اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہيں۔ ان کا ايجنڈا اور مقصد پورے پاکستان پر اپنا مخصوص نظام کا نفاذ ہے۔ انھوں نے يہ بھی کہا کہ وہ اپنی "جدوجہد" کو محض اس خطے تک محدود نہيں رکھيں گے بلکہ پوری دنيا پر اپنے اثرو رسوخ کے لیے کوشش جاری رکھيں گے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہیں کہ اس سوچ سے مقابلہ کرنے کا بہترين طريقہ يہی ہے کہ انھيں محفوظ مقامات ديے جائيں اور اس خطرے کو نظرانداز کر ديا جائے؟

ملا نذير نے القائدہ کی ليڈرشپ کو بھی تسليم کيا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے يہ واضح کيا کہ افغانستان اور پاکستان ميں متحرک تمام گروپ ايک "امير" اسامہ بن لادن کی قيادت ميں متحد ہيں۔

انھوں نے اس حقيقت کو صيغہ راز ميں رکھنا ضروری نہيں سمجھا کہ وہ پاکستان آرمی اور پاکستان کی سيکورٹی فورسز پر براہراست حملوں ميں ملوث ہيں۔ يہی نہيں بلکہ انھوں نے سرحد پار افغانستان ميں اپنے "بھائيوں" کی مدد کی ضرورت پر بھی زور ديا تاکہ وہ بھی اسی طرح کی کاروائياں جاری رکھ سکيں۔

يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ کچھ افراد طالبان کے مقاصد پر تند وتيز تقريريں اور بحث ومباحثہ کر رہے ہيں مگر دوسری جانب طالبان بذات خود اپنے الفاظ اور اپنے اعمال سے اپنے مقاصد صاف الفاظ ميں واضح کر چکے ہيں۔

امريکی ميڈيا ميں شائع ہونی والی رپورٹوں کو غير ملکی پروپيگنڈہ قرار دے کر نظرانداز کيا جا سکتا ہے ليکن آپ ان مسلح دہشت گردوں کے الفاظ کو کيسے نظرانداز کريں گے جو اسلام آباد سے محض چند سوکلوميٹر کے فاصلے پر موجود ہيں اور برملا يہ کہہ رہے ہیں کہ

"ہم اسلام آباد پر قبضہ کر ليں گے"۔

ٹی ٹی پی کے اہداف کے حوالے سے سازشی نظريات پر اندھا اعتقاد رکھنے والوں کی يادادشت کو تازہ کرنے کے ليے يہ واضح کردوں کہ ملا نذير وہ واحد سرکردہ ليڈر نہيں تھے جنھوں نے ٹی ٹی پی کے ارادوں کا کھلم کھلا اعتراف کيا تھا۔ اسی تنظيم کے ايک اور ترجمان مولوی عمر نے سال 2009 ميں واہ کينٹ کے خود کش حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ ايک ٹی وی انٹرويو ميں تسليم کی تھی۔ ان کی يہ گفتگو ان افراد کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو ٹی ٹی پی کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے ابھی بھی ابہام کا شکار ہيں۔

مولوی عمر کا نقطہ نظر صرف ايک ٹی وی پروگرام تک ہی محدود نہيں تھا بلکہ انھوں نے متعدد ٹی وی انٹرويوز ميں بہت سے نامور صحافيوں کو انٹرويوز ديے تھے جس ميں انھوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ٹی ٹی پی کے وجود سے انکار اور اس تنظيم کے ارادوں کے حوالے سے رائے دہندگان ميں جو شش وپنج پايا جاتا ہے، اس کا احاطہ اس مشہور کہاوت سے کيا جا سکتا ہے۔

"شيطان کی سب سے بڑی کاميابی يہ ہے کہ وہ يہ يقين دلانے ميں کامياب ہو جاتا ہے کہ اس کا وجود حقيقت نہيں ہے"

يہ امر حيران کن ہے کہ ٹی ٹی پی نے بارہا اپنے ارادے، مقاصد، طريقہ کار اور عقائد واضح الفاظ ميں بيان کيے ہیں ليکن اس کے باوجود کچھ دوست يہ حقيقت تسليم کرنے کو تيار نہيں ہیں۔

جب بھی اس تنظيم کے مظالم کے حوالے سے کوئ ويڈيو يا رپورٹ منظر عام پر آتی ہے تو ان کے سپورٹرز اس کو "امريکی يا مغربی پراپيگنڈہ" قرار دے کر نظرانداز کر ديتے ہيں۔ باوجود اس کے کہ طالبان کے ترجمان اس ويڈيو کی حقيقت کو تسليم بھی کر چکے ہوتے ہیں۔

جو دوست انسانوں کو ذبح کرنے کی ان ويڈيوز کی حقيقت کے بارے ميں شکوک وشبہات رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ٹی ٹی پی کے اپنے ترجمان مسلم خان کا نقطہ نظر بھی اس حوالے سے سن ليں۔

اپريل 29 2009 کو ٹی وی اينکر عاصمہ چوہدری نے ان سے انسانوں کو ذبح کرنے کے حوالے سے سوال کيا۔ اس ويڈيو ميں 21:20 منٹ پر آپ ان کا جواب سن سکتے ہیں۔

http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?20132-In-Session-29th-April-2009-Haroon-Rasheed

انھوں نے واضح طور پر يہ کہا کہ

"جنھيں ذبح کيا جاتا ہے وہ اس کے مستحق ہيں"۔

اس کے علاوہ حال ہی ميں اسی تنظيم کے ترجمان کا يہ انٹرويو منظر عام پر آيا ہے جس ميں نا صرے يہ پاکستان کے پورے سياسی نظام کو مسترد کر ديا گيا ہے بلکہ تنطيم کی جانب سے يہ بھی واضح کر ديا گيا ہے کہ وہ پاکستان ميں تشدد اور جبر کے زور پر ايسا نظام لانے کے خواہاں ہيں جو ان کی دانست ميں پاکستان کے عوام کے ليے زيادہ بہتر ہے۔


يہ تمام شواہد اور ٹی ٹی پی کی قيادت کی جانب سے ريکارڈ پر موجود واضح پيغامات ان لوگوں کی ياد دہانی کے ليے ہيں جو بے تکی سازشی کہانيوں اور ان کے وجود سے انکار کے ذريعے نادانستگی ميں ان کی تمام پرتشدد کاروائيوں کے ليے توجيہہ يا جواز فراہم کرتے ہيں جو پھر براہراست يا بلواسطہ ان کے ايجنڈے اور سوچ کی ترويج اور تشہير کا سبب بنتا ہے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جو افراد ٹی وی اور ميڈيا پر نہ صرف يہ کہ قتل کا اعتراف کر رہے ہيں بلکہ مستقبل ميں بھی مزيد جرائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہيں، انھيں کسی بھی طريقےسے قابل قبول سياسی فريق کے طور پر تسليم کيا جا سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Mosque_bombing.jpg
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ ٹی ٹی پی کے ہرکارے سی آئ اے کے اشارے پر کام کرتے ہيں، انھيں چاہيے کہ ٹی ٹی پی کے اپنے ہی ايک سرکردہ ليڈر کے خيالات سنيں جس ميں اس کالعدم تنظيم کے اغراض و مقاصد اور ارادے واضح کيے گئے ہيں۔


ياد رہے کہ يہ انٹرويو ان کی اپنی اشتہاری مہم کا حصہ ہے اس ليے اسے "جانب دار مغربی ميڈيا کی رائے" قرار دے کر رد نہيں کيا جا سکتا ہے۔

جو بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے متوازن تجزيے کا متمنی ہے وہ يہ بات واضح طور پر ديکھ سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاگل پن کے پيچھے باقاعدہ ايک سوچ، رويہ اور حکمت عملی کارفرما ہے اور اس تنظيم کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانيت سوز کاروائياں ان کے مخصوص نظريے اور عوامی سطح پر خوف، دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنا طرز زندگی دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش سے منسلک ہيں۔ يہ کہنا صريح غلط ہے کہ جن علاقوں ميں يہ اپنا اثر قائم کر چکے ہيں اور جن پناہگاہوں سے يہ اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار وسيح کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں، ان علاقوں ميں حکومت اور رياست کی رٹ بحال کرنے کے ليے مشترکہ اجتماعی کوششوں کے بغير اس عفريت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

جو افراد برملا پاکستانی فوجيوں کے بيہيمانہ قتل کو تسليم بھی کر رہے ہيں اور ان بنياد پر اس کی توجيہہ بھی پيش کر رہے ہيں کہ وہ "سيکولر" نظريات رکھتے ہيں، کيا ان سے يہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ايک مغربی ملک اور اس کے اداروں کے اشاروں اور خواہشات پر خودکش حملے کريں گے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Mosque_bombing.jpg
 

یوسف-2

محفلین
جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہا ں مکمل امن و امان تھا۔ غربت کے باوجود جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ اور جو اکا دکا جرم ہوتےتھے تو فوری انصاف ہوتا تھا۔ گرفتار ہونے والے عیسائی، یہودی ایجنٹس تک کے ساتھ اتنا عمدہ برتاؤ ہوتا تھا کہ اکثر قیدی مسلمان ہوجاتے تھے۔ پوست کی کاشت ختم ہوگئی تھی اور افغانستان سے امریکی و یورپی منڈیوں میں ہیروئین کی سپلائی تقریباً بند ہوگئی تھی۔ ملک میں جوے اور فحاشی کے اڈے بند تھے

پھر افغانستان پر یہودییوں اور نصرانیوں نے (بش کے بقول) صلیبی جنگ کا آغاز کردیا۔ دنیا بھر کے کفار اور مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہوں نے مسلمان ملک افغانستان پر حملہ کرنے والے کفار کی مدد شروع کردی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنے وسائل جھونک دئے۔

آج ناٹو زدہ افغانستان میں امن و امان نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ جوئے، شراب خانے، مساض سینٹر کے نام پر فحاشی کے اڈے عام کھُل چکے ہیں۔ پوست کی کاشت میں اضافہ اور ہیروئین کے رسیا امریکیوں اور یورپینز کو منشیات کی سپلائی عام ہوچکی ہے۔

پاکستان میں امریکن، اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹس مختلف طریقوں سے دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ کراچی پورٹ سے افغانستان بھیجے جانے والے ہزاروں مسنگ کنٹینرز کے ذریعہ ان ایجنٹوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں میں وسیع پیمانے پر اسلحہ بارود تقسیم کردیا ہے تاکہ یہ پاکستان کی ایںٹ سے اینٹ بجا سکیں۔

طالبان کے نام سے کئے اور کروائے جانے والے یہ دھماکے اور خود کش حملے کیا کبھی:
  1. شراب خانوں میں ہوئے
  2. ہیروئین اور منشیات کے اڈوں پر ہوئے
  3. ڈانس کلبوں اور عیاشی کے مراکز پر ہوئے
اگر نہیں ہوئے تو کیا یہ مقامات طالبان کے پسندیدہ مقامات ہیں۔ دھماکے صرف مسلمانوں کے مقامات، مساجد، مزارات، اسکول اور عبادت گاہوں پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ منکرات کے مقامات کی بجائے دینی مقامات پر عام بے گناہوں کو دھماکوں سے صرف اور صرف امریکی، اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹس ہی دھماکے کروارہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوث اور اس کے سینکڑوں کافر ایجنٹس جب تک اس ملک میں آزادی سے اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے اور مسلم صفوں میں موجود منافقین ان کی مدد کرتے رہیں گے، یہ دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔
 

Fawad -

محفلین
جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہا ں مکمل امن و امان تھا۔ پوست کی کاشت ختم ہوگئی تھی اور افغانستان سے امریکی و یورپی منڈیوں میں ہیروئین کی سپلائی تقریباً بند ہوگئی تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق 90 کی دہاہی ميں افغانستان اوپيم کی پيداوار میں دنيا ميں دوسرے نمبر پر تھا۔ صرف سال 1998 ميں 41،720 ايکٹر رقبے پر 1350 ميٹرک ٹن اوپيم گم کاشت کی گئ۔

سال 1988 میں افغانستان نے اقوام متحدہ کے ڈرگ کنونشن کے تحت منشيات کی روک تھام کے ايک معاہدے پر دستخط کيے تھے ليکن طالبان سميت کسی بھی سياسی دھڑے نے اس معاہدے پر عمل نہيں کيا۔ سال 1998 کے آخر تک طالبان کا کنٹرول افغانستان کے 80 فيصد علاقے پر تھا۔ جون 1998 ميں جلال آباد ميں 1 ٹن اوپيم کو نذر آتش کرنے کے علاوہ سرکاری سطح پر ايسا کوئ قدم نہيں اٹھايا گيا جس کے تحت مورفين يا ہيروئين بنانے والی کسی ليبارٹری، يا ہيروئين کی ترسيل کی کسی کھيپ يا منشيات کی سمگلنگ ميں ملوث کسی گروہ کو مستقل طور پر اس مذموم کاروبار سے روکا جاتا۔ اقوام متحدہ اور کئ نجی و سرکاری تنظيموں کی بے شمار رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ يورپ ميں سمگل کی جانے والی 80 فيصد منشيات افغانستان ميں تيار کی گئ تھی۔ سال 1998 کے آخر تک افغانستان ميں پيدا کی جانے والی 95 فيصد منشيات طالبان کے زير اثر 80 فيصد علاقوں ميں تيار کيا جاتی تھی۔

افغانستان کی مختلف ليبارٹريوں ميں تيار کی جانے والی ہيروئين اور مورفين کی تياری کے ليے ايسڈيک اينہائيڈرئيڈ نامی عنصر کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے جو کہ عام طور پر يورپ، چين اور بھارت سے حاصل کيا جاتا ہے۔ منشيات کی ترسيل کے ليے افغانستان سے ملحقہ پاکستان، ايران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحديں استعمال کی جاتی تھيں۔افغانستان ميں منشيات کے اس کاروبار کے منفی اثرات براہراست ان علاقوں ميں منشيات کی آسان دستيابی اور کھلے عام استعمال کی صورت ميں نمودار ہوئے۔

منشيات کے حوالے سے طالبان کی پاليسی يہ تھی کہ اس کی روک تھام صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اقوام متحدہ نہ صرف طالبان کی حکومت کو سياسی سطح پر تسليم کرے بلکہ جن علاقوں ميں پوست کی کاشت کی جاتی ہے وہاں کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے مناسب فنڈز مہيا کيے جائيں۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کی جانب سے يہ اعلان کيا جا چکا تھا کہ منشيات کا استعمال اور اس کی پيداوار سے منسلک تمام کاروبار اسلام اور شريعت کے قوانين کے خلاف ہيں۔

سال 1997 ميں يو – اين – ڈی – سی – پی کے ڈائريکٹر آرلاچی نے طالبان کے ليڈر ملا عمر کے نام ايک خط لکھا تھا جس ميں ان سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جن علاقوں ميں کسانوں کو متبادل کاروبار کی سہوليات فراہم کی گئ ہيں وہاں منشيات کی پيداوار کی روک تھام کو يقينی بنايا جائے۔ اس کے علاوہ ان سے يہ اجازت بھی مانگی گئ کہ يو – اين – ڈی – سی – پی کو ان علاقوں تک رسائ دی جائے جہاں طالبان کے بقول منشيات کے کاروبار پر بين لگا ديا گيا ہے۔ طالبان سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا کہ منشيات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے ليے ضروری ہے نہ صرف ہيروئين کی تياری کی ليبارٹريوں کو ختم کيا جائے بلکہ ان گروہوں کا بھی خاتمہ کيا جائے جو منشيات کی تقسيم کے کاروبار ميں ملوث ہيں۔ طالبان کی جانب سے ان مطالبات کو اسی شرط پر تسليم کيا گيا کہ کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے فنڈز کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے۔

http://www.dpf.org/library/taliban.cfm

http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=9507E1D9133CF932A25754C0A96F958260

http://www.un.org/ga/20special/featur/crop.htm

ليکن تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود سال 2000 تک منشيات کی کاشت نہ صرف جاری رہی بلکہ کچھ نئے علاقے بھی اس کاروبار ميں شامل ہوگئے۔ 1998 ميں مئ کے مہينے ميں پوست کی کاشت کے موقع پر يو – اين – ڈی – سی – پی کی جانب سے طالبان کو مطلع کيا گيا کہ لغمان، لوگار اور ننگرہار کے صوبوں کے کچھ نئےعلاقوں ميں پوست کی کاشت کا کام شروع ہو گيا ہے۔ يہی وہ موقع تھا جب 1 جون 1998 کو جلال آباد کے شہر ميں طالبان نے سرعام ايک ٹن منشيات کو سرعام آگ لگا کر يہ دعوی کيا تھا اس سال منشيات کی تمام پيداوار کو تلف کر ديا گيا ہے۔ ليکن اعداد وشمار کچھ اور حقيققت بيان کر رہے تھے۔ سال 2000 کے آخر تک منشيات کو کنٹرول کرنے کے کسی ايک بھی پروگرام پر عمل درآمد نہيں کيا گيا۔

http://www.nytimes.com/2000/09/18/world/18AFGH.html?ex=1215748800&en=f470637e39d1c243&ei=5070

منشيات کی روک تھام کی کئ نجی تنظيموں کی رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ طالبان اور شمالی اتحاد کے بہت سے سينير اہلکار براہراست منشيات کی ترسيل سے مالی فوائد حاصل کر رہے تھے۔ سال 1997 میں طالبان کے ايک اعلی افسر نے يہ تسليم کيا تھا کہ پوست کی کاشت ميں ملوث کسانوں سے طالبان حکومت 10 فيصد "مذہبی ٹيکس" وصول کرتی تھی۔

افغانستان ميں منشيات کی پيداوار کے حوالے سے 90 کی دہاہی کے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔


http://img354.imageshack.us/my.php?image=clipimage002af5.jpg

http://img55.imageshack.us/my.php?image=clipimage00213sk4.jpg



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
پھر افغانستان پر یہودییوں اور نصرانیوں نے (بش کے بقول) صلیبی جنگ کا آغاز کردیا۔ دنیا بھر کے کفار اور مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہوں نے مسلمان ملک افغانستان پر حملہ کرنے والے کفار کی مدد شروع کردی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنے وسائل جھونک دئے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ افغانستان ميں فوجی کاروائ کو کس بنياد پر يہوديوں اور نصرانيوں کی سازش پر مبنی کسی اسلام مخالف تحريک سے تعبير کر رہے ہیں کيونکہ حقيقت تو يہ ہے کہ سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں سميت کئ سرکردہ اسلامی مملکتيں تو اس عالمی اتحاد پر مبنی مشترکہ کاوشوں ميں شراکت دار ہيں جو خطے ميں دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کی گئ ہيں۔ بلکہ کئ اسلامی ممالک کی تو باقاعدہ فوجيں وہاں تعنيات ہیں۔

يہ حقیقت توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں موجودہ صورت حال صرف امريکہ کا ہی مسلہ نہيں ہے بلکہ امريکی مقاصد افغانستان کے عوام اور حکومت کے علاوہ پاکستان اور دنيا کے ديگر ممالک جن ميں يورپ سے آسٹريليا، روس، چين، بھارت، مشرق وسطی اور ان تمام اسلامی ممالک سے مطابقت رکھتے ہيں جہاں القائدہ سے متعلق دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔

عسکری تعاون کے علاوہ قريب 60 ممالک سميت بے شمار عالمی تنظيميں افغانستان اور پاکستان کو امداد مہيا کر رہی ہيں۔ افغانستان اور پاکستان سے متعلق قريب 30 خصوصی نمايندے مستقل رابطوں اور ملاقاتوں کے ذريعے پاليسی مرتب کرتے ہیں۔

يہ ممکن نہيں ہے کہ يہ تمام ممالک اور بے شمار خود مختار عالمی تنظيميں اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صرف اس ليے تعاون کرنے پر رضامند ہو جائيں کہ افغانستان پر قبضے کے مبينہ امريکی منصوبے اور خطے ميں مسلمانوں کے بے دريخ قتل کو جاری رکھا جا سکے۔ اپنے دلائل ميں منطق کو بھی ملحوظ رکھيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


Mosque_bombing.jpg
 

Fawad -

محفلین
پھر افغانستان پر یہودییوں اور نصرانیوں نے (بش کے بقول) صلیبی جنگ کا آغاز کردیا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

صدر بش نے کس تناظر ميں وہ الفاظ کہے تھے اس کی تفصيل تو ميں فورمز پر بارہا پيش کر چکا ہوں۔ حقيقت يہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر ان عناصر کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دے رہے تھے جنھوں نے نا صرف يہ ہم پر حملہ کيا تھا بلکہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے تھے۔ انھوں نے تقرير کے کسی حصے ميں امريکی شہريوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہيں اکسايا۔

اگر آپ کی مکمل دليل اور سوچ ايک سابق امريکی صدر کے غلط تناظر ميں شائع شدہ بيان کی مسخ شدہ تشريح پر مبنی ہے تو پھر اسی اصول اور قاعدے کے مطابق آپ کو موجودہ امريکی صدر کے بيان کو بھی اہميت اور فوقيت دينی چاہيے۔ ان کا يہ بيان بالکل واضح، مکمل اور ابہام سے عاری ہے جسے نہ صرف خود امريکی صدر نے بلکہ تمام اہم امريکی سفارت کاروں اور عہديداروں نے بارہا دہرايا ہے۔

"ميں يہ واضح کرتا ہوں کہ امريکہ نہ تو اسلام کے ساتھ حالت جنگ ميں ہے اور نہ ہی کبھی ايسا ہو گا۔ ليکن ہم ان دہشت گردوں کا پيچھا ضرور کريں گے جو ہماری سيکورٹی کے لیے شديد خطرہ ہيں۔ کيونکہ ہم بھی اسی بات کی مذمت کرتے ہيں جس کی مذمت تمام مذاہب کے لوگ کرتے ہيں يعنی کہ بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت"۔

افغانستان اور پاکستان سے متعلق امريکہ کے مقاصد اور پاليسياں مذہب کی بنياد پر نہيں ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس بات کا اعادہ قاہرہ ميں اپنے تاريخی خطاب ميں کيا تھا۔

امريکہ حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کی جانب سے عوام کی حفاظت اور سيکورٹی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کی جانے کوششوں کی مکمل حمايت کرتا ہے، جو ہمارے مشترکہ دشمن ہيں۔

ليکن چونکہ امريکی صدر کی جانب سے ادا کيے جانے والے الفاظ کو رائے دہندگان "ناقابل ترديد" ثبوت کی حيثيت سے قابل قبول معيار اور پيمانہ تسليم کرتے ہيں تو پھر اسی صدر کے يہ واضح الفاظ اس غلط سوچ کو رد کرنے کے لیے کافی ہونے چاہیے کہ امريکی حکومت اسلام پر جنگ مسلط کرنے کے درپے ہے۔



اسی ضمن میں چاہوں گا کہ صدر اوبامہ کے نقطہ نظر کو بھی سنيں جنھوں نے متعدد بار بيانات اور تقارير ميں موجودہ امريکی انتظاميہ کی سرکاری پوزيشن واضح کی ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

Mosque_bombing.jpg
 

یوسف-2

محفلین
یہ ہے امریکہ بدمعاش نمبر ایک

7-3-2013_962_1.gif

ڈرون حملوں کے ذریعہ گھروں کے گھر ، خاندان کے خاندان تباہ کرتا ہے، تاکہ ان متاثرہ اور مظلوم خاندان میں سے کوئی زندہ بچ جائے تو اسے سی آئی اے کے گراؤنڈ کریو کے ذریعہ بدلہ لینے کے لئے تمام وسائل مہیا کرکے اسے خود کش حملہ پر راغب کیا جائے اور مسلمانوں کو ہر طرح سے قتل کیا جائے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ان شاء اللہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کا حشر بھی سویت یونین جیسا ہوگا
 

Fawad -

محفلین
اگر نہیں ہوئے تو کیا یہ مقامات طالبان کے پسندیدہ مقامات ہیں۔ دھماکے صرف مسلمانوں کے مقامات، مساجد، مزارات، اسکول اور عبادت گاہوں پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ميں کوئ شک نہيں کہ مساجد، بازاروں اور جنازوں جيسے عوامی مقامات پر سيکورٹی کے مناسب انتظامات نا ہونے کے سبب دہشت گردوں کے ليے يہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کی ہلاکت کے اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے اپنی بزدلانہ کاروائياں جاری رکھ سکيں۔ ليکن اس بات کو بنياد بنا کر يہ دليل قائم کرنا اور دعوی کرنا کہ پاکستان ميں مغربی اور امريکی مفادات سے متعلق عمارات کو کوئ نقصان نہيں پہنچايا جاتا، صرف آپ کے علم کی کمی اور کمزور يادادشت کو اجاگر کر رہا ہے۔

حاليہ دنوں ميں گلکت کے قريب نانگا پربت کے پہاڑوں پر دنيا کے نويں بلند ترين پہاڑوں پردہشت گردوں کے ہاتھوں 9 غير ملکی سياحوں کی ہلاکت کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ جب غيرملکی باشندوں، ان کی عبادت گاہوں، کاروباری اداروں، دفاتر، سفارت خانوں اور ديگر عمارات کو پاکستان ميں نشانہ بنايا گيا ہے۔ ذيل ميں ايسے کچھ واقعات کی تفصيل پيش ہے جو پاکستان ميں غير ملکی عمارات اور افراد پر حملوں کو اجاگر کرتے ہيں۔

فروری 22 2002 کو وال اسٹريٹ جرنل کے مشہور رپورٹر ڈينيل پرل کو خالد شيخ اور ان کے ساتھيوں نے اغوا کر کے ہلاک کر ديا۔ امريکی صحافی کا سر تن سے جدا کر ديا گيا تھا۔

مارچ 17 2002 کو اسلام آباد کے ڈپلوميٹک اين کليو ميں انتہائ سيکورٹی کے باوجود ايک پروٹيسٹنٹ چرج پر دستی بم سے حملہ کيا گيا جس کے نتيجے ميں 5 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک شدگان ميں ايک امريکی سفارت کار کی بيوی اور بيٹی بھی شامل تھی۔

مئ 8 2002 کو کراچی ميں شيرٹين ہوٹل کے قريب ايک بس پر ہونے والے بم دھماکے کے نتيجے ميں 11 فرانسيسی اور 3 پاکستانی شہری ہلاک ہو گئے۔ فرانسيسی شہری پيشے کے اعتبار سے انجينيرز تھے جو پاکستان نيوی کے ليے اگوسٹا 90 بی کلاس کی سب مرين کی تياری ميں معاونت کر رہے تھے۔ اس حملے ميں 40 افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ دار القائدہ تھی۔

نومبر 15 2005 کو کراچی ميں کے ايف سی کے باہر ايک کار بم دھماکہ ہوا جس ميں 3 افراد جاں بحق ہوئے۔

مارچ 15 2008 کو اسلام آباد کے لونا کيپريس نامی ريسٹورنٹ ميں بم سے حملہ کيا گيا۔ يہ ريسٹورنٹ مغربی صحافيوں اور سفارت کاروں کا پسنديدہ مقام تھا۔ ہلاک ہونے والے 12 افراد ميں سے 4 امريکی شہری تھے۔ اس کے علاوہ حملے کے نتيجے ميں ايک ترک خاتون ہلاک اور پانچواں امريکی شہری زخمی ہوا۔ ہلاک شدگان ميں 3 پاکستانی شہری، ايک برطانوی شہری اور ايک جاپانی شہری بھی شامل تھا۔

جون 9 2009 کو پشاور کے پرل کانٹينينٹل ہوٹل ميں خودش حملہ کيا گيا جس ميں 17 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے جن ميں غير ملکی بھی شامل تھے۔

اکتوبر 5 2009 کو ايک خودکش حملہ آور فوجی وردی ميں اسلام آباد ميں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفاتر ميں داخل ہوا جس کے نتيجے ميں 5 افراد ہلاک ہوئے جن ميں ايک عراقی باشندہ بھی شامل تھا۔ اس حملے ميں 6 افراد زخمی ہوئے۔

دسمبر 25 2010 کو پاکستان کے قبائلی علاقے ميں اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام سے متعلق دفتر پر بم دھماکہ کيا گيا جس کے نتيجے ميں 47 افراد ہلاک ہوئے۔

ستمبر 20 2008 کو اسلام آباد کے ميريٹ ہوٹل ميں ايک ٹرک ميں بم دھماکہ کيا گيا جس کے نتيجے ميں 57 افراد ہلاک اور 266 زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان ميں زيادہ تر پاکستانی تھے ليکن 5 غير ملکی بھی ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ 15

غير ملکی زخمی ہوئے۔ دو امريکی فوجی اور ايک ڈنمارک کا شہری بھی اس حملے ميں ہلاک ہوئے۔ پاکستان ميں چيک ريپبلک کے سفير ڈاکٹر آئيو بھی اپنے ويتنام کے ساتھی سميت آگ ميں جھلس کر ہلاک ہو گئے۔

http://www.cnn.com/2008/WORLD/asiapcf/09/20/pakistan.islamabad.marriott.blast/

جون 2 2008 – ڈنمارک کے سفارت خانے پر حملہ

http://www.nytimes.com/2008/06/03/world/asia/03pakistan.html?_r=0

ذيل ميں پشاور اور کراچی ميں واقع امريکی قونصل خانوں پر حملوں کی مختصر تاريخ پيش ہے۔

مارچ 29 2013 کو پشاور ميں امريکی قونصل خانے کے قريب حملہ کيا گيا جس کے نتيجے ميں 10 افراد ہلاک ہوئے۔

http://www.cnn.com/2013/03/29/world/asia/pakistan-bomb-attack

اپريل 5 2010 کو پشاور ميں امريکی قونصل خانے پر ايک اور حملہ اور اس کی تفصيل

http://news.bbc.co.uk/2/hi/8603288.stm

ستمبر 3 2012 کو امريکی قونصل خانے پر حملے کے نتيجے ميں عملے کے اراکين زخمی ہوئے۔

http://abcnews.go.com/International...hicle-pakistan/story?id=17140993#.UdLqw_m1GSo

اسی طرح کراچی ميں بھی امريکی قونصل خانے پر دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے کئ بار حملے کيے گئے جن کی کچھ تفصيل ذيل ميں پیش ہے۔

جون 2002

جون 14 2002 کی صبح ايک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھرے ايک ٹرک کو امريکی قونصل خانے کے گيٹ پر دھماکے سے اڑا ديا جس کے نتيجے ميں 12 افراد ہلاک ہوئے۔

بعد ميں القانون نامی گروہ نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ حملے کے بعد گرفتار شدگان ميں سے اکثر کا تعلم حرکت المجاہدين نامی تنظيم سے ثابت ہو گيا۔ نومبر 2004 ميں حملے کے منصوبہ ساز نويدالحسن نامی شخص کو پاکستان ميں گرفتار کر ليا گيا۔

فروری 2003

فروی 28 2003 کو امريکی قونصل خانے کے سامنے اسلحہ بردار افراد نے دو پوليس افسران اور 5 ديگر سيکورٹی گارڈز کو گوليوں سے بھون ڈالا۔ يہ حملہ موٹر سائيکلوں کے ذريعے کيا گيا اور اس ميں ان فوجی رينجرز کو نشانہ بنايا گيا جنھوں نے قونصل خانے کے گيٹ پر سيکورٹی کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔

مارچ 2004

مارچ 15 2004 کو قونصل خانے کے گيٹ پر ايک بار پھر بارود سے بھری وين کے ذريعے حملے کی کوشش کی گئ۔ اس مقصد کے ليے ايک روز قبل گرے رنگ کی وين چوری کی گئ اور اس کے ڈرائيور کی ٹانگ ميں گولی مار دی گئ۔ اگلے روز صبح 7 بج کر 15 منٹ پر وہی وين ايک مختلف نمبر پليٹ کے ساتھ امريکی قونصل خانے کے سامنے پائ گئ۔ جب وين کے ڈرائيور سے پوچھ کچھ کی گئ تو اس نے يہ دعوی کيا کہ اس کی وين خراب ہے۔ جب پوليس نے وين کی تلاشی لی تو وين ميں سے نيلے رنگ کا ايک ٹينک برآمد ہوا جس ميں 200 گيلن کا دھماکہ خيز مواد پايا گيا جسے دو ٹائمرز سے منسلک کيا گيا تھا۔ اس دھماکہ خيز مواد کو قبضے ميں لے کر غير فعال کر ديا گيا۔

مارچ 2006

مارچ 2 2006 کو ايک خودکش حملہ آور نے چار افراد کو ہلاک اور 30 کو ميريٹ ہوٹل کے باہر زخمی کر ديا جو کہ امريکی قونصل خانے کے قريب ہی واقع ہے۔ ہلاک شدگان ميں ڈيوڈ فوائے نامی امريکی سفارت کار اور 3 پاکستانی بھی شامل تھے۔ حملے کا اصل ہدف امريکی سفارت کار ڈيوڈ فوئے ہی تھے جن کی گاڑی کے قريب پہنچتے ہی خودکش حملہ آور نے دھماکہ کر ديا۔ رپورٹس کے مطابق يہ دھماکہ کراچی ميں کيا جانے والا سب سے بڑا دھماکہ تھا جس کے نتيجے ميں کار پارک ميں 2 ميٹر بڑا گڑھا پيدا ہو گيا اور آس پاس کھڑی 10 کاريں تباہ ہو گئيں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران امريکی اور ديگر غير ملکيوں اور ان کی عمارات اور املاک پر کيے جانے والے بے شمار حملوں کا يہ ايک مختصر سا جائزہ ہے ، باوجود اس کے کہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں قونصل خانوں اور سفارت خانوں ميں عمومی طور پر سيکورٹی کے سخت ترين انتظامات کيے جاتے ہيں۔

ان ناقابل ترديد شواہد اور حقائق کی موجودگی ميں کيا آپ کا دعوی اور نقطہ نظر درست قرار ديا جا سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s21.postimg.org/5jdm801hz/Mosque_bombing.jpg
 

یوسف-2

محفلین
سو کالڈ وار اگینسٹ ٹیررزم اور حقیقت میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فوجی آمر مشرف کی طرف سے پاک حکومت اور پاک فوج کو اس جنگ میں جھونکے جانے سے قبل پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کتنی تھیں اور اس کے بعد کتنی ہوئیں؟ دونوں تعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مشرف دور میں بلیک واٹر اور سی آئی اے اینجنٹس جتنی تعداد میں پاکستان میں سرگرم عمل رہے، اس سے قبل پاکستان کی پوری تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں ان یہودی و نصرانی ایجنٹس کو پاکستان میں کھُل کھیلنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ اللہ اور یوم آخرت پر مسلمان کے علاوہ یہودی اور نصرانی بھی یقین رکھتے ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اس دنیا میں مسلمانوں کے مقابلہ میں جو لوگ یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، روز حشر ان کا حشر بھی انہی کے ساتھ ہوگا۔ اور یوم حشر دور نہیں ہے۔ بس ہماری آنکھ بند ہونے کی دیر ہے۔ ہمارا حشر نشر سب کچھ سامنے آجائے گا کہ ہم میں سے کتنے مسلمانوں نے حق و باطل کی جنگ میں حق کا ساتھ دیا تھا اور کتنوں نے کتنے معاوضہ پر کفار کا ساتھ دیا تھا۔ اللہ تمام مسلمانوں کو دین حق پر قائم رہنے کی توفیق دے آمین
 

یوسف-2

محفلین
اسلام آباد میں ہتھیار تقسیم کرنے والے امریکی ایجنٹوں کو گرفتارکرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ آئی ایس آئی افسر کے انکشافات
*****************
کسی بھی غیر ملکی سفارت کار کا میزبان ملک میں غیر سفارتی سرگرمیوں اور غیر قانونی حرکات کا مرتکب ہونا یوں تو عام سی بات ہے مگر جنیوا کنونشن کی رو سے یہ معاملہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں کنونشن کی دستاویزات میں ضروری اصول طے کر دیئے گئے ہیں۔ تاہم کسی بھی سفارت کار کی اس طرح کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے پہلے مہمان سفارت کار کے ملک اور میزبان ملک کے مابین عمومی تعلقات ، ان ممالک کے سیاسی حالات اور ان کے لئے دفاعی خطروں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ امریکی سفارتخانے کا ایک سیکنڈ سیکرٹری جس کا نام بوب تھا، اسلام آباد کے 7/4 سیکٹر میں رہائش پذیر تھا۔ ہماری معمول کی نگراں ٹیم نے کئی بار ہمیں رپورٹ کیا کہ اکثر رات کے اندھیروں میں بہت سے خان اور ملک صاحبان پجارو اور دیگر بڑی بڑی گاڑیوں میں بوب کے گھر آتے جاتے ہیں۔ یہ اطلاع ہمارے لئے اس لئے اہم تھی کہ مسٹر بوب کا نام نہ تو آئی ایس آئی کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے رابطہ افسران کی فہرست میں شامل تھا اور نہ ہی اس کا تعلق انسداد منشیات کے اسکواڈ سے تھا۔ اس لئے بوب ہمارے لئے ایک پراسرار شخصیت بن گیا۔ بوب کی بیوی تھی نہ بچے اور وہ گھر میں اکیلا رہتا تھااور مزید یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ وہ اکثر پاکستان سے باہر بھی جایا کرتا تھا۔اس کیس میں دو عناصر خاصے اہم تھے۔ ایک افغانستان کی جنگ۔ جب سے روسی فوجوں کے خلاف افغانستان میں مزاحمت کی جنگ شروع ہوئی تھی امریکہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ خود اس جنگ کا کنٹرول حاصل کرلے اور آئی ایس آئی کا کردار محض بارہویں کھلاڑی کا سا ہو کر رہ جائے۔ امریکی سفارتگار ہمیشہ افغان راہنماؤں سے براہ راست ملاقات کی کوشش کرتے یا آئی ایس آئی سے کہتے کہ ان رہنماوں کے ساتھ ہماری ملاقات کا اہتمام کیا جائے اور ہم ان لوگوں کو امدادی رقوم اور دیگر سامان خود اپنے ہاتھوں سے دیں تاکہ افغان رہنما امریکہ کے مرہون منت رہیں۔ امریکہ کو اس خواہش کی تکمیل سے بازرکھنے کے لئے آئی ایس آئی کو خصوصی منصوبہ بندی کرنا پڑی، کیونکہ ان کی اس خواہش کی تکمیل کا مطلب یہ
تھا کہ امریکہ افغان جدوجہد کو ہائی جیک کرلے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
دراصل امریکہ براہ راست اس جدوجہد کو کنٹرول کرکے افغانستان میں امریکہ کی حامی ایک ایسی حکومت کے قیام کا خواہاں تھا جو کلیتا سیکولر ہو۔ جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو ہم نے فوری طورپر اس کی اطلاع صدر پاکستان کو دی۔ انہوں نے جب اس معاملے پر امریکیوں سے بات کی تو وہ اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا۔ مگر جب تیسرے ہی دن افغان مہاجرین اسلام آباد میں آنا شروع ہوگئے تو امریکیوں کو ’’علم‘‘ ہوا کہ افغانستان پر روسی قبضہ ہوچکا ہے ۔ ہمیں یقین تھاکہ انہیں روسی حملے کا بہت پہلے سے علم تھا، مگر امریکی ہمیں یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ یہ حملہ ان کے لئے بھی غیر متوقع تھا۔ روسی فوجوں کی افغانستان میں آمد یقینی طورپر امریکیوں کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھی، اس جنگ میں امریکہ کے منفی کردار کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے پوری افغان جدوجہد کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا اور آئی ایس آئی کے کردار کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔(اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لئے ایک علیحدہ کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔)
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
دوسرا عنصر منشیات کا تھا۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ منشیات نے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے ۔ پاکستان میں بھی انہوں نے ہماری قدروں اور اخلاقیات کی تباہی کے لئے منشیات کے ہتھیار کو کامیابی سے استعمال کیا۔ ہمارے پاس یہ اطلاعات بھی موجود تھیں کہ امریکہ ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک کے سفارتخانوں سے منسلک ڈرگ لیزان آفیسرز DLOنے بجائے خود اپنی حکومتیں قائم کر رکھی تھیں اور وہ ہمارے دفتر خارجہ کی اجازت کے بغیر پاکستان کے ہر حصے میں گھومتے تھے اور جاسوسوں کا ایک جال بچھا رکھا تھا جو ان کے لئے وہ معلومات بھی اکٹھی کرتے تھے ، جن کا انسداد منشیات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے بلیک میلنگ سے لے کر بھاری رشوتیں دینے تک کا سلسلہ جاری رکھا اور کھلے عام پاکستانی کے تحفظ کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔
منشیات کے عالمی سوداگروں کو پکڑنے کے لئے یہ طریقہ کار وضع کیا گیا تھا کہ وہ اپنے منتخب شدہ کسی ’’کیریئر‘‘ کو منشیات کی تھوڑی سی مقدار دے کر باہر بھیجیں گے تاکہ امریکہ اور یورپ میں ان کی مدد سے پورے گینگ کو پکڑا جاسکے۔ مگر انسداد منشیات کے یہ ذمہ دار افسران طے شدہ تھوڑی مقدار سے کہیں زیادہ منشیات ان کیریئرز کے ہاتھ باہر بھجواتے رہے اور خود بھی بلا روک ٹوک جتنی اور جیسی منشیات چاہتے لے جاتے تھے، یوں وہ نہ صرف اس مکروہ دھندے میں خود شامل رہے بلکہ انہوں نے منشیات کی عالمی منڈی میں لاکھوں ڈالر بھی کمائے۔ ہماری بے بسی دیکھئے کہ کسی ایجنسی کو یہ اجازت نہ تھی کہ انہیں یا ان کے بھیجے گئے کسی کیریئر کو چیک کرسکیں۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
افغانستان کی مقدس جنگ پر استعمال ہونے والا امریکی امداد کا بہت بڑا حصہ منشیات کی فروخت سے حاصل شدہ رقم پر مشتمل تھا اور امریکہ اپنے ان ایجنٹوں کو جو پاکستان میں منشیات کے فروغ کی سرگرمیوں میں مصروف تھے اس فنڈ کی ادائیگی کے ذریعے استعمال کر رہا تھا۔ امریکیوں نے اس سرگرمی کی آڑمیں پاکستان کے کونے کونے میں ہیروئن پھیلانے کے لئے جو مذموم کارروائی کی وہ بجائے خود امریکہ کی پاکستان کے ساتھ ’’دیرینہ دوستی ‘‘ اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ’’دلی ہمدردی‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔امریکہ نے منشیات کے کنٹرول کے لئے پاکستان کی امداد کا سلسلہ 1979-80 میں شروع کیا جب پوست کی کاشت انتہائی محدود پیمانے پر ہوتی تھی اور غریب کاشتکار محض اپنی علاقائی ضرورت کے مطابق یہ پودا کاشت کرتے تھے۔ مگر اس امداد کی آڑ میں امریکہ نے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس کے ذریعے ان کاشتکاروں کو پوست کی کاشت کے لئے خفیہ طریقوں سے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جدید ترین تکنیکی سہولتیں ، ادویات، عالمی منڈیاں، محفوظ راستے اور سب سے بڑھ کر انہیں براؤن اور سفید’’سونے‘‘ کی انتہائی دلکش اور شاندار قیمتیں ادا کیں ۔ امریکہ کی ان کرم فرمائیوں کی بدولت بوقت تحریر تقریبا 6 ہزار ہیکٹر اراضی پر پوست کاشت ہوتی ہے۔ انتہائی غیر ترقی یافتہ اور دور دراز علاقوں میں ہیروئن تیار کرنے کے 100 کے قریب کارخانے کام کر رہے ہیں۔ مقامی اور عالمی مارکیٹ میں اس وقت ہیروئن کی تجارت کے ’’معزز پیشے ‘‘ سے ہزاروں کی تعداد میں شرفا منسلک ہیں اور پاکستان میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد تیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ افیون تباہی اور بربادی کے بجائے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اسے ایٹم برائے سکون کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اس بات کا بھی افسوس ہے کہ امریکی منصوبہ بندی اور ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کی منفی پالیسیوں اور منفی کردار کی وجہ سے ہم قدرت کے اس عطیے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ حالانکہ یہی وہ پودا ہے جس سے ہیروئن حاصل کرنے بجائے مارفین، کوڈین تھیابین جیسے مفید اور کارآمد طبی عناصر حاصل کئے جاسکتے ہیں، جو زندگی بچانے والی اور درد سے نجات دلانے والی ادویات کا لازمی جزو ہیں۔ اگر ہم پوست کے پودے سے یہ عناصر حاصل کرکے عالمی منڈی میں بین الاقوامی دواساز اداروں کو برآمد کر رہے ہوتے تو پاکستان ہر سال لاکھوں ڈالرز کا زرمبادلہ کماسکتا تھا۔ ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھاری قرضے لینے نہ پڑتے ۔ مگر پاکستان کے کروڑوں عوام کی خوشحالی اور ترقی کا خواب ان بیرونی اور اندرونی ’’خیر خواہوں‘‘ کی وجہ سے ہی کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
بہر حال بوب کے بارے میں ان اطلاعات کے بعد ہم نے اسے مستقل نگرانی میں لے لیا مگر ہمارے کارکن ساتھی ان کے گھر آنے جانے والی گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں اور بوب کی آمدورفت کے علاوہ اور کوئی مفید معلومات حاصل نہ کرسکے۔ ہم نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ بوب کے گھر میں جاسوسی کرنے والے خفیہ آلات نصب کردیئے جائیں تاکہ مہمانوں کے ساتھ اس کی گفتگو سنی جاسکے۔ یہ فیصلہ بڑا نازک تھا مگر اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کے نتائج ہمیں کسی مصیبت میں بھی گرفتارکرواسکتے تھے، ہم یہ رسک لینے کے لئے تیار ہوگئے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
چنانچہ ایک دن جب بوب دفتر میں تھا۔ ہمارا ایک آدمی نہایت ہوشیاری سے اس کے گھر میں داخل ہوگیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بوب کے بیڈروم اور سائیڈروم کی الماریوں میں انتہائی قیمتی اور جدید ترین رائفلیں ، پستول، بندوقیں اور کیمرے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ایک باتھ روم میں چالو حالت میں ایک وائرلیس سیٹ بھی تھا۔ اسے بوب کے تکیے کے نیچے سے اس کا بٹوہ بھی ملا جو وہ شاید جانے کی جلدی میں بھول گیا تھا۔ اس بٹوے میں اس کا سی آئی اے کا شناختی کارڈ تھا۔ ہمارے آدمی نے سارے گھر کی تصاویر بنائیں کارڈ کی تصویر بھی بناکر اسے واپس اپنی جگہ رکھ دیا گیا اور خفیہ آلات لگاکر واپس آگیا۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ سارے ہتھیار انسداد منشیات کے حوالے سے جمع کئے گئے تھے یا بوب خود ہتھیاروں کی تجارت میں ملوث تھا؟ ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب تو نہیں تھا مگر بوب یقینا غیر قانونی دھندے میں ملوث تھا۔ ہم نے ایک تفصیلی رپورٹ تصاویر کے ساتھ جنرل ضیا کو اپنی اس رائے کے ساتھ بھجوادی کہ بوب کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان سے نکل جانے کا حکم صادر فرمایا جائے۔ چند روز کے بعد ہمیں یہ جواب موصول ہوا کہ صدر پاکستان نے دفتر خارجہ سے اس معاملے میں مشورہ کیا ہے اور ہمارے دفتر خارجہ کا خیال ہے کہ ہمیں یہ سب بھول جانا چاہئے۔ اس وقت پاکستان میں اور بھی بہت سے ’’بوب‘‘ ہیں اور ہم سب کو دھکے دے کر ملک سے باہر نہیں نکال سکتے اور اس وقت امریکہ کو ناراض کرنا بھی مناسب نہیں۔ اس لئے آئی ایس آئی کو چاہئے کہ بوب پر اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ہمارے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمن کا اس جواب پر ردعمل قابل ستائش تھا، وہ کسی صورت بھی دفتر خارجہ کے مشورے پر آنکھیں موندلینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ ہم نے اس صورتحال کے بارے میں کئی روز تک تبادلہ خیال کیا، بہت سے راستے تلاش کئے، بالآجنرل نے کہا کہ ’’اس بات کو خفیہ رکھتے ہوئے کہ ہم اس سلسلے میں کارروائی کر رہے ہیں آپ جو چاہیں کیجئے مگر اس بات کا خیال رہے کہ کسی بھی کارروائی میں پکڑے جانے کا کوئی احتمال نہ ہو۔‘‘
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
جنرل صاحب کے اس حکم کے بعد ہم نے ایک تفصیلی منصوبہ تیار کر کے ان کی خدمت میں پیش کیا، جس کی انہوں نے منظوری دے دی۔یہ منصوبہ کچھ یوں تھا۔ بوب کے گھرکے پچھواڑے ایک چھوٹا سا غیر آباد زمین کا ٹکڑا تھا جس میں خودرو پودوں اور جھاڑیوں کی بہتات تھی۔ اسلام آباد میں ایسے کئی پلاٹ موجود ہیں۔ ہم نے اپنے منصوبے کے مطابق اس زمین پر بوب کے گھر کی بیرونی دیوار سے ملتی ہوئی ، ایک خندق کھودی اور اسے جھاڑیوں اور پودوں سے ڈھانپ دیا۔ ہم نے مقامی پولیس کو یہ اطلاع فراہم کی کہ ہم نے اسلام آباد کی سڑکوں پر رات کی تاریکی میں مشکوک لوگوں کو گھومتے ہوئے دیکھاہے۔ ہمیں شک ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی گروہ کسی بڑی واردات کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ ہم نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ ہمیں شک ہے کہ مختلف وارداتوں میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ بھی انہوں نے کسی جگہ چھپا رکھا ہے ۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ مجسٹریٹ کی قیادت میں ایک چھاپہ مار ٹیم کو کارروائی کے لئے تیار کیا جائے۔ ہم نے وائرلیس سے مسلح آئی ایس آئی کے ایک کارکن کو پولیس کے ساتھ لگادیا تاکہ جب ہم کہیں وہ پولیس کو متوقع جائے واردات تک لے جائے۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
اس دوران ہم بوب کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ اچانک پھر چند دنوں کے لئے پاکستان سے باہر چلا گیا اور منصوبہ روک دیا گیا۔ جب بوب واپس آیاتو کارروائی کا پروگرام اور وقت طے کرلیا گیا۔ حتمی کارروائی کے وقت نگران ٹیم کے ارکان کو منتخب جگہوں پر تعینات کردیا گیا۔ آئی ایس آئی کے کارکنوں نے ایک بار پھر خاموشی سے بوب کے گھر کے دروازے کھولے اور گھر کے اندر موجود سارا اسلحہ لاکر پہلے سے کھودی گئی خندق میں جمع کردیا۔ بوب اپنے معمول کے مطابق دفتر سے نکلا اور گھر کی جانب روانہ ہوا۔
ہم نے پولیس کو کارروائی کرنے کا اشارہ دے دیا۔ آئی ایس آئی کا کارکن پولیس پارٹی کو لے کر جائے واردات پر پہنچ گیا۔ پولیس پارٹی جب خندق تک پہنچی تو ان کی گاڑیوں کے شور نے پورے علاقے کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اسی اثنائ میں بوب بھی پہنچ گیا، اور اپنی گاڑی گیراج میں کھڑی کرنے کے بعد شور سن کر باہر آگیا تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ اس کے گھر کے عقب میں کیا معاملہ درپیش ہے؟ وہاں کا منظر اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پولیس اس کے گھر کے پچھواڑے سے اسلحہ برآمد کر رہی تھی۔ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے ہتھیاروں کی فہرست بھی بنانا شروع کردی تھی، اپنے ہتھیار اور کیمرے دیکھ کر بوب کا رنگ فق ہوگیا اور وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے گھر کے اندر چلا گیا۔
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ
اس معاملے میں امریکی سفارتخانے کا ناطقہ بند کرنے کے لئے یہی کافی تھا۔ چنانچہ اگلے دو روز میں بوب پاکستان چھوڑکر چلا گیا۔
ہمارا اگلا شکار امریکی انٹرنیشنل اسکول اسلام آباد کا ایک استاد ریگن کلیگ تھا۔ وہ نہ صرف ہتھیاروں کی تجارت کرتا تھا بلکہ اس نے گھر میں ہتھیاروں کی ایک ورکشاپ بھی بنارکھی تھی۔ کلیگ سے نمٹنا ہمارے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ اس لئے کہ وہ سفارتکار نہیں تھا۔ ہم نے معمولی سی منصوبہ بندی سے اسے بھی قابوکرلیا اور وہ بھی پاکستان کی سرزمین سے اپنا ناپاک دھندا سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور ہوگیا۔لیکن ہماری پاک سرزمین کے گلی کوچوں اور دفتروں میں واقعی اتنے بوب اور کلیگ پھر رہے ہیں کہ ان سب کا قلع قمع کرنا کسی ایجنسی کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں بیٹھے ہر بوب اور کلیگ کو پہچانیں اور جہاں کہیں بھی شک ہو کسی ایجنسی کو اطلاع کردیں تاکہ دشمن کے ایجنٹوں کا صفایا کیا جاسکے ۔ ڈالر کی کھڑکھڑاہٹ سے کتنے ہی قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور اندر کا شیطان قوم اور ملک سے غداری پر مجبورساکردیتا ہے ، لیکن کاش ہم ان موت کے سوداگروں کے ہاتھ کبھی نہ بکیں۔
*******************
تحریر:بریگیڈئیر( ر)سید احمد ارشاد ترمذی۔ آئی ایس آئی
**********************
Link
 

سید ذیشان

محفلین
جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی تو یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وہا ں مکمل امن و امان تھا۔ غربت کے باوجود جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ اور جو اکا دکا جرم ہوتےتھے تو فوری انصاف ہوتا تھا۔ گرفتار ہونے والے عیسائی، یہودی ایجنٹس تک کے ساتھ اتنا عمدہ برتاؤ ہوتا تھا کہ اکثر قیدی مسلمان ہوجاتے تھے۔ پوست کی کاشت ختم ہوگئی تھی اور افغانستان سے امریکی و یورپی منڈیوں میں ہیروئین کی سپلائی تقریباً بند ہوگئی تھی۔ ملک میں جوے اور فحاشی کے اڈے بند تھے

پھر افغانستان پر یہودییوں اور نصرانیوں نے (بش کے بقول) صلیبی جنگ کا آغاز کردیا۔ دنیا بھر کے کفار اور مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہوں نے مسلمان ملک افغانستان پر حملہ کرنے والے کفار کی مدد شروع کردی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اپنے وسائل جھونک دئے۔

آج ناٹو زدہ افغانستان میں امن و امان نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ جوئے، شراب خانے، مساض سینٹر کے نام پر فحاشی کے اڈے عام کھُل چکے ہیں۔ پوست کی کاشت میں اضافہ اور ہیروئین کے رسیا امریکیوں اور یورپینز کو منشیات کی سپلائی عام ہوچکی ہے۔

پاکستان میں امریکن، اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹس مختلف طریقوں سے دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ کراچی پورٹ سے افغانستان بھیجے جانے والے ہزاروں مسنگ کنٹینرز کے ذریعہ ان ایجنٹوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں میں وسیع پیمانے پر اسلحہ بارود تقسیم کردیا ہے تاکہ یہ پاکستان کی ایںٹ سے اینٹ بجا سکیں۔

طالبان کے نام سے کئے اور کروائے جانے والے یہ دھماکے اور خود کش حملے کیا کبھی:
  1. شراب خانوں میں ہوئے
  2. ہیروئین اور منشیات کے اڈوں پر ہوئے
  3. ڈانس کلبوں اور عیاشی کے مراکز پر ہوئے
اگر نہیں ہوئے تو کیا یہ مقامات طالبان کے پسندیدہ مقامات ہیں۔ دھماکے صرف مسلمانوں کے مقامات، مساجد، مزارات، اسکول اور عبادت گاہوں پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ منکرات کے مقامات کی بجائے دینی مقامات پر عام بے گناہوں کو دھماکوں سے صرف اور صرف امریکی، اسرائیلی اور بھارتی ایجنٹس ہی دھماکے کروارہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوث اور اس کے سینکڑوں کافر ایجنٹس جب تک اس ملک میں آزادی سے اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے اور مسلم صفوں میں موجود منافقین ان کی مدد کرتے رہیں گے، یہ دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔

نسیم حجازی کے ناولوں کا سا انداز ہے۔ بہت خوب!
 

Fawad -

محفلین
دراصل امریکہ براہ راست اس جدوجہد کو کنٹرول کرکے افغانستان میں امریکہ کی حامی ایک ایسی حکومت کے قیام کا خواہاں تھا جو کلیتا سیکولر ہو۔

روسی فوجوں کی افغانستان میں آمد یقینی طورپر امریکیوں کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھی، اس جنگ میں امریکہ کے منفی کردار کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے پوری افغان جدوجہد کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا اور آئی ایس آئی کے کردار کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔Link


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نہيں جانتا کہ کالم کار نے محض اپنا ذاتی تجزيہ پيش کيا ہے يا کسی منطق کے تحت واقعات کے تسلسل کو بيان کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر دونوں ہی صورتوں ميں اگر آپ پورے کالم کو پڑھيں تو اس ميں موجود تضادات بالکل واضح ہو جاتے ہيں۔ ايک جانب تو کالم کار يہ دعوی کر رہے ہيں کہ امريکی حکومت اتنی بااثر، طاقتور اور عيار تھی کہ روس کو افغانستان ميں سازش کے ذريعےجنگ ميں دھکيل ديا گيا تا کہ ايک دوردراز ملک ميں اپنے پرانے دشمن کو شکست دی جا سکے۔

ليکن پھر اس رائے کا بھی اظہار کيا جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام کے فيصلے کے مخالف تھا اور ايک سيکولر نظام کے قيام کا متمنی تھا۔ ليکن حقيقت تو يہی ہے کہ طالبان 1995 سے 2001 تک طالبان افغانستان ميں برسراقدار رہے۔ طالبان پر يوں تو بے شمار الزامات لگ سکتے ہيں ليکن سيکولر ہونے کا "الزام" يقینی طور پر ان پر نہيں لگايا جا سکتا ہے۔ يہ کيسے ممکن ہے کہ انتہائ طاقتور اور با اثر امريکہ جس نے اپنی عياری اور چالاکی سے روس جيسی سپر پاور کو ايک جنگ ميں ملوث کر ديا، وہ ايک مسلح گروہ کو اپنی مرضی کے خلاف افغانستان ميں حکومت کی تشکيل سے نہيں روک سکے۔

چونکہ کالم ميں ظاہری طور پر آئ ايس آئ کے ايک سابق افسر کا نقطہ نظر اجاگر کيا گيا ہے تو اسی مناسبت سے ميں چاہوں گا کہ اس وقت کے آئ ايس آئ کے چيف جرنل حميد گل کا موقف بھی سنيں جو انھوں نے کچھ برس قبل ايک انٹرويو ميں بيان کيا تھا۔ انھوں نے برملا اس بات کا اعتراف کيا تھا کہ يہ پاکستان تھا جس نے اس وقت کی صورت حال کے حوالے سے امريکہ کو استعمال کيا تھا۔

آپ ان کا يہ انٹرويو اس ويب لنک پر سن سکتے ہيں۔


http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔

انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ واضح الفاظ ميں کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

اگر آئ ايس آئ کے کسی سابق افسر کا بيان کسی موضوع کے اعتبار کے آپ کے نزديک سند کی حيثيت رکھتا ہے اور ناقابل ترديد ہے تو پھر اسی معيار کے مطابق کچھ اہميت ان افسران بالا کے موقف کو بھی ديں جو اس ادارے کے سربراہ تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


Mosque_bombing.jpg
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

تحريک طالبان پاکستان – ردعمل، بدلہ يا ايک متشدد سوچ کے بنياد پر منظم خونريزی

ٹی ٹی پی کا ايجنڈہ اور اس کے مقاصد، خود ان کے اپنے قائدين کی زبانی سنيے۔






فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
سو کالڈ وار اگینسٹ ٹیررزم اور حقیقت میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فوجی آمر مشرف کی طرف سے پاک حکومت اور پاک فوج کو اس جنگ میں جھونکے جانے سے قبل پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کتنی تھیں اور اس کے بعد کتنی ہوئیں؟




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔ آپ اس بات پر بضد ہيں کہ پاکستان ميں سال 2001 سے پہلے مکمل امن تھا۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

اگر آپ جانب دارانہ سوچ کو ايک طرف رکھ کر حقائق اور اعداد وشمار پر ايک نظر ڈاليں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ اس کھوکھلے نظريے ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ افغانستان ميں امريکی فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں دہشت گردی کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں تھا۔

ذيل ميں ديا ہوا گراف دہشت گردی سے متعلق ان واقعات کو ظاہر کر رہا ہے جو سال 1984 سے 2007 کے درميانی حصے ميں رونما ہوئے۔

آپ خود ديکھ سکتے ہيں کہ دہشت گردی کا عفريت قريب دو عشروں سے پاکستانی معاشرے کو ديمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ يہ کہنا بالکل غلط ہے کہ يہ وبا 911 کے واقعے کے بعد اچانک ہی پاکستانی معاشرے ميں نمودار ہو گئ تھی۔ اعداد و شمار اس دعوے کی نفی کرتے ہيں۔



http://s9.postimg.org/o3b2emuof/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_32_PM.png


اس کے بعد خود کش حملوں کے حوالے سے اعداد وشمار کا جائزہ ليتے ہيں۔ فورمز پر رائے دہندگان نے اکثر مجھ سے اس بات پر جرح کی ہے کہ سال 2001 سے قبل پاکستان ميں سرے سے کوئ خودکش حملہ نہيں ہوا تھا۔

آپ واضح طور پر ديکھ سکتے ہيں کہ سال 1995 سے خودکش حملوں کے واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں۔

http://s15.postimg.org/gkjiipifv/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_12_02_PM.png


اس گراف ميں سال 2007 کے قريب جو غير معمولی اضافہ دکھائ دے رہا ہے اس کے وجہ وہ خودکش حملے ہيں جو لال مسجد پر حکومت پاکستان کی کاروائ کے بعد ردعمل کے طور پر سامنے آئے تھے۔ سال 2007 ميں جون کے مہينے تک 8 خودکش حملے ہوئے تھے اس کے بعد اگلے چھ ماہ ميں 48 حملے کيے گئے۔

ايک مرتبہ پھر اعداد وشمار اور گراف سے يہ واضح ہے کہ خطے ميں امريکی افواج کے آنے سے کئ برس پہلے بھی دہشت گرد تنظيميں اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کے ليے کم سن بچوں کو خود کش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کر رہی تھيں۔

موازنے کے ليے يہ اعداد وشمار پيش ہين جو افغانستان ميں فوجی کاروائ سے پہلے اور اس کے بعد دہشت گردی کی کاروائيوں کے حوالے سے حقائق واضح کر رہے ہيں۔

http://s15.postimg.org/faqahee1n/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_11_36_PM.png



اور آخر ميں يہ تصوير افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل پاکستان ميں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ان کے حدود واربعہ کو واضح کر رہی ہے۔



http://s10.postimg.org/6e14qc8k9/Screen_Shot_2013_07_31_at_3_13_24_PM.png


اس ميں کوئ شک نہيں کہ گزشتہ ايک دہائ کے دوران آزاد ميڈيا، سوشل ويب سائٹس اور مواصلات سے متعلق ہونے والی عمومی ترقی کے سبب اب ان موت کے سوداگروں کی ظالمانہ کاروائيوں کے حوالے سے عوامی سطح پر پہلے کے مقابلے ميں زيادہ آگہی اور معلومات ميسر ہيں۔

ليکن اس حوالے سے کوئ مغالطہ نہيں ہونا چاہیے۔ يہ دہشت گرد تنظيميں محض کسی ردعمل يا انتقام کے جذبے سے سرشار ہو کر اچانک منظرعام پر نہيں آ گئ ہيں۔ 911 کے واقعات سے بہت پہلے ہی عوامی سطح پر خوف، دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافے کے ليے اپنے واضح کردہ ايجنڈے پر کاربند ہيں۔

فورمز پر موجود مقبول عام تاثر کے برعکس يہ عالمی برادری بشمول امريکی اور پاکستانی افواج تھيں جو ردعمل پر مجبور ہوئيں نا کہ يہ دہشت گردی تنظيميں – اور اس ردعمل کا فيصلہ اس وقت کيا گيا جب عالمی دہشت گردی کا يہ عفريت ہماری سرحدوں کے اندر پہنچ گيا۔

آپ ان حقائق کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت اور امريکی افسران کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے ، يہ جانتے ہوئے کہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top