رانا
محفلین
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اونٹ کا محاورہ کوے کو کس خوشی میں عنایت کیا جارہا ہے۔ تو جناب بات یہ ہے کہ اس ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی ایک کوے نے ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ ہوا کچھ یوں کہ پہلے روزے کی سحری کرکے نماز کے لئے مسجد گئے۔ اس وقت تک سب خیر تھی۔ شائد کوے صاحب سو رہے تھے۔ لیکن نماز فجر کے بعد جب مسجد سے گھر کی طرف چلا ہوں تو راسے میں ایک رحمت بیکری آتی ہے اس کے پاس ایک بہت چوڑا شاہانہ انداز کا اسپیڈ بریکر ہے۔ اس پر کوے کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں اس شاہزادے پر ایک نظر غلط ڈالنا بھی گوارا نہ ہوا اور چلتے رہے۔ لیکن شائد اس کے ابا جان کو ہماری یہ بے نیازی پسند نہیں آئی اس نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی خیر تھی لیکن کمینے نے پیچھے سے چوتھے گئیر میں اسپیڈ پکڑی اور ہمارے سر پر پوری تیز رفتاری سے پنجے مارتا ہوا آگے نکل گیا۔ ہمارے تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ آگے جا کر وہ پھر پلٹا اور بار بار یہی حرکت کرنے کا موقع تاکتا رہا۔ بڑی مشکل سے بار بار پیچھے دیکھتے ہوئے وہاں سے نکلے اور گھر پہنچ کر سکون کا سانس لیکن اگلے دن صبح نماز سے واپسی پر پھر وہی کائیں کائیں اور اسی طرح سر پر پھر ایک ڈرون حملہ کیا گیا۔ آج تیسرے دن شدت میں کچھ کمی آئی ہے وہ اسطرح کہ آج حملہ تو نہیں کیا گیا لیکن کائیں کائیں کی گھن گرج سے آج بھی دھمکیاں دی گئیں۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی ایک پیار بھری نظر شہزادے پر ڈال لینے میں کیا حرج تھا۔ کیوں اس سے بے نیازی برت کر اس کی توہین کی گئی۔ تو جناب اس کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنی پیاری کراچی یونیورسٹی سے ایم سی ایس کررہے تھے۔ پہلے سمسٹر میں تو ہم سلور جوبلی گیٹ استعمال کرتے تھے لیکن وہاں سے ہمارے ڈیپارٹمنٹ UBIT کا فاصلہ کوئی 18 منٹ کا ہوتا تھا۔ لہذا اگلے سمسٹر سے ہم نے مسکن والا گیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا تو پتہ یہ لگا کہ اس گیٹ سے ڈپارٹمنٹ کا فاصلہ 20 منٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسکن والے گیٹ کو ہی استعمال کرتے رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ یہاں سے کیونکہ گاڑیاں بھی اندر جاتی تھیں اس لئے لفٹ ملنے کا کافی امکان ہوتا تھا یہ الگ بات کہ ہمیں دو تین مرتبہ کے سوا کبھی کار میں لفٹ نہیں ملی کیونکہ کاروں کو لڑکیاں بڑے دھڑلے سے روک کر چار پانچ ایسی بے نیازی سے براجمان ہوجاتی تھیں جیسے کار ان کے ابا جی کی ہے۔ ہمارے حصے میں ہمیشہ موٹر سائکل سوار ہی آتا تھا۔
ایک دن کچھ لیٹ ہوگئے تو نہ ہی شٹل سروس ملی اور نہ ہی لفٹ۔ لہذا پیدل پیاں پیاں چلتے گئے۔ کچھ آگے جاکر الٹے ہاتھ پر ایک بہت بڑا خالی قطعہ آتا ہے جس کے گرد چار دیواری ہے۔ اس کی دیوار پر ایک کوا بیٹھا تھا۔ ہم بھی پتہ نہیں کس دھیان میں تھے یا شائد ٹائم پاس کرنے کا موڈ تھا چلتے ہوئے مسلسل اسے گھورتے جارہے تھے کہ کراچی یونیورسٹی کا باسی ہوکر بھی اکیلا بیٹھا ہے۔ اس کوے کو ہمارا وہ گھورنا ایک آنکھ نہ بھایا۔ لیکن یہ کوا ذرا ٹھنڈے مزاج کا لگتا تھا۔ اس نے شور تو نہ مچایا لیکن پیچھے سے آکر سر پر ڈرون حملہ کردیا۔ ہم جلدی جلدی قدم اٹھانے لگ گئے لیکن وہ دوبارہ نہیں آیا۔ ہم سمجھے سب خیر ہے۔ اگلے دن اسی جگہ سے گزرتے ہوئے پھر اس نے ہمارے سر کی اپنے پنجوں سے خبر لی اور اپنی راہ لگ گیا۔ یہ سلسلہ کوئی چار پانچ دن تک چلا۔ ہم سمجھ گئے کہ اب یہ ہمارا پکا دشمن بن چکا ہے۔ لہذا عافیت اسی میں جانی کہ مسکن والے گیٹ کا استعمال ترک کردیا جائے۔ اب ہم نے سلور جوبلی گیٹ استعمال کرنا شروع کردیا۔ بارشوں کے بعد یونیورسٹی کچھ اتنی سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے کہ سلورجوبلی گیٹ سے ہم شٹل میں نہیں بیٹھا کرتے تھے بلکہ پیدل ہی ڈپارٹمنٹ تک جاتے تھے۔ ابھی ہم مائکرو بیالوجی کے ڈپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ پیچھے سے کوے نے سر پر جھپٹا مارا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ کہاں مسکن اور کہاں مائکرو ڈپارٹمنٹ۔ کیا یہ وہی کوا ہے؟ لیکن جب مسلسل اگلے کئی دنوں تک یہ گولہ باری ہوتی رہی تو یقین آگیا کہ یہ وہی کمبخت ہے جو ہمیں اس دن کے گھورنے کی سزا دے رہا ہے۔ ہمیں حیرت کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں یہ ہمیں ڈھونڈ کیسے لیتا ہے؟ اس کوے نے کوئی مہینہ بھر ناک میں دم کئے رکھا۔ پھر شائد یہ سوچ کر اب اس کمپیوٹر ماسٹر کو ٹھیک ٹھاک سبق مل گیا ہوگا ہماری جان چھوڑی۔
تو جناب اس واقعے کے بعد ہمیں آج تک کبھی کسی کوے پر دوسری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ مبادا کب وہ کیا سمجھ بیٹھے۔ ہماری نظر تو شریف ہی ہوتی ہے لیکن کوے کی سوچ کا کیا بھروسا۔ وہ کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔اسی وجہ سے ہم نے کوے کے اس شاہ بچے پر دوسری نظر نہیں ڈالی کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے اس مرتبہ یہی گناہ سمجھا گیا کہ ہمارے شاہزادے کو نظر انداز کیوں کیا؟
اب اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوے رے کوے تیری کون سی کل سیدھی۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی ایک پیار بھری نظر شہزادے پر ڈال لینے میں کیا حرج تھا۔ کیوں اس سے بے نیازی برت کر اس کی توہین کی گئی۔ تو جناب اس کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنی پیاری کراچی یونیورسٹی سے ایم سی ایس کررہے تھے۔ پہلے سمسٹر میں تو ہم سلور جوبلی گیٹ استعمال کرتے تھے لیکن وہاں سے ہمارے ڈیپارٹمنٹ UBIT کا فاصلہ کوئی 18 منٹ کا ہوتا تھا۔ لہذا اگلے سمسٹر سے ہم نے مسکن والا گیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا تو پتہ یہ لگا کہ اس گیٹ سے ڈپارٹمنٹ کا فاصلہ 20 منٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسکن والے گیٹ کو ہی استعمال کرتے رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ یہاں سے کیونکہ گاڑیاں بھی اندر جاتی تھیں اس لئے لفٹ ملنے کا کافی امکان ہوتا تھا یہ الگ بات کہ ہمیں دو تین مرتبہ کے سوا کبھی کار میں لفٹ نہیں ملی کیونکہ کاروں کو لڑکیاں بڑے دھڑلے سے روک کر چار پانچ ایسی بے نیازی سے براجمان ہوجاتی تھیں جیسے کار ان کے ابا جی کی ہے۔ ہمارے حصے میں ہمیشہ موٹر سائکل سوار ہی آتا تھا۔
ایک دن کچھ لیٹ ہوگئے تو نہ ہی شٹل سروس ملی اور نہ ہی لفٹ۔ لہذا پیدل پیاں پیاں چلتے گئے۔ کچھ آگے جاکر الٹے ہاتھ پر ایک بہت بڑا خالی قطعہ آتا ہے جس کے گرد چار دیواری ہے۔ اس کی دیوار پر ایک کوا بیٹھا تھا۔ ہم بھی پتہ نہیں کس دھیان میں تھے یا شائد ٹائم پاس کرنے کا موڈ تھا چلتے ہوئے مسلسل اسے گھورتے جارہے تھے کہ کراچی یونیورسٹی کا باسی ہوکر بھی اکیلا بیٹھا ہے۔ اس کوے کو ہمارا وہ گھورنا ایک آنکھ نہ بھایا۔ لیکن یہ کوا ذرا ٹھنڈے مزاج کا لگتا تھا۔ اس نے شور تو نہ مچایا لیکن پیچھے سے آکر سر پر ڈرون حملہ کردیا۔ ہم جلدی جلدی قدم اٹھانے لگ گئے لیکن وہ دوبارہ نہیں آیا۔ ہم سمجھے سب خیر ہے۔ اگلے دن اسی جگہ سے گزرتے ہوئے پھر اس نے ہمارے سر کی اپنے پنجوں سے خبر لی اور اپنی راہ لگ گیا۔ یہ سلسلہ کوئی چار پانچ دن تک چلا۔ ہم سمجھ گئے کہ اب یہ ہمارا پکا دشمن بن چکا ہے۔ لہذا عافیت اسی میں جانی کہ مسکن والے گیٹ کا استعمال ترک کردیا جائے۔ اب ہم نے سلور جوبلی گیٹ استعمال کرنا شروع کردیا۔ بارشوں کے بعد یونیورسٹی کچھ اتنی سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے کہ سلورجوبلی گیٹ سے ہم شٹل میں نہیں بیٹھا کرتے تھے بلکہ پیدل ہی ڈپارٹمنٹ تک جاتے تھے۔ ابھی ہم مائکرو بیالوجی کے ڈپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ پیچھے سے کوے نے سر پر جھپٹا مارا۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ کہاں مسکن اور کہاں مائکرو ڈپارٹمنٹ۔ کیا یہ وہی کوا ہے؟ لیکن جب مسلسل اگلے کئی دنوں تک یہ گولہ باری ہوتی رہی تو یقین آگیا کہ یہ وہی کمبخت ہے جو ہمیں اس دن کے گھورنے کی سزا دے رہا ہے۔ ہمیں حیرت کہ اتنی بڑی یونیورسٹی میں یہ ہمیں ڈھونڈ کیسے لیتا ہے؟ اس کوے نے کوئی مہینہ بھر ناک میں دم کئے رکھا۔ پھر شائد یہ سوچ کر اب اس کمپیوٹر ماسٹر کو ٹھیک ٹھاک سبق مل گیا ہوگا ہماری جان چھوڑی۔
تو جناب اس واقعے کے بعد ہمیں آج تک کبھی کسی کوے پر دوسری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ مبادا کب وہ کیا سمجھ بیٹھے۔ ہماری نظر تو شریف ہی ہوتی ہے لیکن کوے کی سوچ کا کیا بھروسا۔ وہ کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔اسی وجہ سے ہم نے کوے کے اس شاہ بچے پر دوسری نظر نہیں ڈالی کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے لیکن اب اس کا کیا کیا جائے اس مرتبہ یہی گناہ سمجھا گیا کہ ہمارے شاہزادے کو نظر انداز کیوں کیا؟
اب اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوے رے کوے تیری کون سی کل سیدھی۔