آپکی مدد کا منتظر۔۔۔

اسلامُ علیکم دوستو!

اس فورم پر یہ میری پہلی پوسٹ ہے۔ امید کرتا ہوں کے آپ لوگ مدد کرنے میں دیر نہیں فرمائیں گے۔

دراصل، میری بنیادی تعلیم ملک سے باہر ہوئی، جس کی وجہ سے کچھ بنیادی کمزوریاں رہہ گئیں۔ ایک مصرع میں 'آشوبِ چشم' کا استعمال کیا ہے مگر شبہ ہے کہ غلط ہے۔ مصرع پیشِ خدمت ہے:

'کچھ تو آشوبِ چشم کم ہونگے'​
غلط اس لئے لگا کہ 'آشوبِ چشم' مؤنث، واحد ہے، جب کہ اوپر دئے مصرعے میں مذکر، جمع کے طور استعمال ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح استعمال کی گنجائش ہے؟ یہ مصرع میری ایک زیرِ تخلیق غزل کا حصہ ہے۔ انشاءاللہ اپنا کچھ کلام بھی جلد فورم پر پوسٹ کروں گا۔

آپ کی مدد کا بیحد ممنون!

اجلال​
 
شکریہ بیٹے محمد امین!

میں بھی اسی لغت کو دیکھتا ہوں۔
http://urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=آشوب_چشم
آشوب الگ ہے۔ 'آشوبِ چشم' تو آنکھ کی ایک بیماری کو کہتے ہیں، اب پتہ نہیں اسے محبوب کے نظر آنے آنکھوں کی ٹھنڈک ملنے کے طور پر استعمال بھی کیا جا سکتا ہے کہ نہیں، جیسا کہ میں نے کیا ہے۔ اوپر سے مونث ہونے کا الگ مسئلہ ہے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
آشوب مذکر ہے تو آشوبِ چشم بھی مذکر ہونا چاہئے۔ لیکن اس کو جمع کے طور پر استعمال کرنا غلط ہے، یہ میرا ذاتی خیال ہے۔
محفل میں خوش آمدید
 
محفل پر خوش آمدید سید اجلال صاحب۔
ایک اور بزرگ کا اضافہ ہوا محفل پر۔ امید ہے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

آشوبِ چشم بمعنی: آنکھ کا دکھنا۔
میں اس معاملے میں بڑے استاد جی محترم الف عین سے متفق ہوں۔
آشوب چشم مذکر ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ جمع میں مستعمل نہیں اور غلط ہے۔
غزل کا انتظار رہے گا۔
 
آپ لوگوں کی محبت اور خلوص نے بیحد متاثر کیا ہے۔ دل سے ممنون ہوں۔

مجھے جنس پر تھوڑا سا اختلاف ہے۔ آشوب مذکر ہے، چشم مونث۔۔۔ لہذا احقر کے خیال میں 'آشوبِ چشم' کو بھی مونث ہونا چاہئے۔ اردو انسائکلوپیڈیا نے بھی اسے مونث ہی ٹھیرایا ہے۔ گھر میں 'فیروز اللغت' ہوا کرتی تھی، نہ جانے کون لے گیا۔۔۔ ورنہ اس میں بھی دیکھ لیتا۔ مگر جیسا میں عرض کر چکا ہوں، میری اردو کی تعلعم میں بنیادی کمزوریاں رہہ گئی تھیں، لہذا اس بحث کو خدارا صرف علمی ہی سمجھیئے گا۔ میں تسلیم کرتا ہوں، میرے غلط ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

شکریہ!
تسلیمات
 
حضور آشوب چشم کو ارد انسائکلو پیڈیا والوں نے درج نہیں کیا ۔ ہاں اردو وکی والوں نے اسے مؤنث قرار دے ڈالا ہے۔ مگر یہ ایک فاش غلطی ہے۔ یہ ایک عام اصول ہے کے اضافت کی کسرہ لگ کر جو تراکیب بنائی جاتی ہیں ان میں تذکیر و تانیث کا دار و مدار پہلے اسم پر ہوتا ہے۔ کیونکہ اردو میں اس کی صورت اردو کے حوالے سے فارسی سے برعکس ہوتی ہے۔ مثلاً آشوبِ چشم مذکر ہے تو اس کو چشم کا آشوب کہیں گے۔
حورِ بہشت مؤنث ہے تو اسے بہشت کیحور کہا جائے گا۔ امید ہے اب واضح ہوا ہوگا۔
 
جناب آپ ہی درست ہونگے، مجھے اس سے بحث نہیں۔ بہرصورت، اردو انسائکلو پیڈیا نے بھی لسٹ کیا ہے۔ لنک پہلے بھی اوپر دے چکا ہوں، دوبارا لکھ رہا ہوں۔ بصورتِ دیگر، آپ طلاش میں پورا 'آشوبِ چشم'(بغیر زیر کے) ٹائپ کر کے دیکھئے۔
http://urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=آشوب_چشم
 
بہر حال اپنے حوالے کے لئے میں جو کر سکتا ہوں وہ یہ کہ آپ پہلے تو فیروز الغات ملاحظہ فرمائیں جس میں آشوب چشم کو مذکر (مذ) لکھا ہے:
Untitled-1_zps5c95a990.jpg


فرہنگ آصفیہ جلد اول میں بھی مذکر لکھا ہے:
farhangiafiyah01amaduoft_0163_zps2b8d1e22.jpg


امید ہے اب واضح ہوا ہوگا۔
 
عزیز بھائیوں، سلام!

کل رات غزل پوسٹ کی تھی جو کہ بحر خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع میں کہی ہے، اور ایک مصرعِ اول میں بحر خفیف مسدّس مخبون محذوف بھی استعمال کی ہے۔ نیچے دئے گئے لنک پر آپ کرم فرماؤں کی تنقید کے لئے بیحد ممنون رہوں گا۔ موضوعات کوئی خاص نہیں، بس وہی عشقِ مجازی۔۔۔۔ بہت شکریہ۔

دیکھیئے: http://www.urduweb.org/mehfil/threads/میری-تازہ-غزل-ایک-ادنی-سی-کوشش۔۔۔.58301/
 
عزیز بھائیوں، سلام!

کل رات غزل پوسٹ کی تھی جو کہ بحر خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع میں کہی ہے، اور ایک مصرعِ اول میں بحر خفیف مسدّس مخبون محذوف بھی استعمال کی ہے۔ نیچے دئے گئے لنک پر آپ کرم فرماؤں کی تنقید کے لئے بیحد ممنون رہوں گا۔ موضوعات کوئی خاص نہیں، بس وہی عشقِ مجازی۔۔۔ ۔ بہت شکریہ۔

دیکھیئے: http://www.urduweb.org/mehfil/threads/میری-تازہ-غزل-ایک-ادنی-سی-کوشش۔۔۔ .58301/

حضور یہ مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ازراہ کرم واضح فرما دیں تو شکر گذار رہونگا۔
 
میرے بھائی مزمل شیخ بسمل،

دونوں ایک جیسی بحور ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ متبادل بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آخری رکن میں افاعیل، فعلن (دو ہجائے بلند، جیسے، لکھ-نا، پڑھ-نا، اے-سے، وے-سے، ہوں گے، وغیرہ) کی جگہ فَعِلن (دو ہجائے خفیف + ایک ہجائے بلند والے الفاظ یا الفاظ کے جوڑے، جیسے 'ہے تو کیا'، 'نہ بھلا'، وغیرہ۔)

سچ تو یہ ہے کہ میں خود کلاسیکی اردو شاعری کا ایک نیا طالبِ علم ہوں اور حالیہ ہی شاعری میں طبع آزمائی شروع کی ہے۔ مزید معلومات کے لئے دیکھیئے: http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/00_index.html?urdu

امید ہے مددگار ثابت ہو گی۔ علم العروض پر محمد وارث صاحب کے مضامین بھی اچھے ہیں۔
 
میرے بھائی مزمل شیخ بسمل،

دونوں ایک جیسی بحور ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ متبادل بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آخری رکن میں افاعیل، فعلن (دو ہجائے بلند، جیسے، لکھ-نا، پڑھ-نا، اے-سے، وے-سے، ہوں گے، وغیرہ) کی جگہ فَعِلن (دو ہجائے خفیف + ایک ہجائے بلند والے الفاظ یا الفاظ کے جوڑے، جیسے 'ہے تو کیا'، 'نہ بھلا'، وغیرہ۔)

سچ تو یہ ہے کہ میں خود کلاسیکی اردو شاعری کا ایک نیا طالبِ علم ہوں اور حالیہ ہی شاعری میں طبع آزمائی شروع کی ہے۔ مزید معلومات کے لئے دیکھیئے: http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/meterbk/00_index.html?urdu

امید ہے مددگار ثابت ہو گی۔ علم العروض پر محمد وارث صاحب کے مضامین بھی اچھے ہیں۔

آپ نے بحر کا نام لکھ دیا تو ہم نے بھی علمی غرض سے پوچھ لیا ۔
بہر حال آپ کی آخر الذکر بحر یعنی فَعِلن یہ مسدس مخبون محذوف ہے۔ اور اول الذکر بحر یعنی فعلن (دو ہجائے بلند) مخبون محذوف مُسکِّن ہے۔ ”مقطوع“ کوئی رکن نہیں اس بحر میں۔ :)
 
ارے باپ رے۔۔۔۔ تو آپ مجھے آزما رہے تھے؛ میں نے غور ہی نہیں کیا کہ آپکے سگنیچر کے نیچے 'علمِ عروض سیکھیں' کا لنک موجود ہے ورنہ جواب دینے کی ہمت نہ کرتا! ارے بھائی میں نے تو شروع ہی میں عرض کر دیا تھا کہ میری اردو کمزور ہے :)
میں نے کب دعوی کیا استاد ہونے کا۔ میں نے بھی ایک کتاب کا حوالہ پیش کیا ہے۔ وہاں بحر کے نام میں مقطوع لکھا گیا ہے، اور آپ نے اسے مسکن کا نام دیا ہے۔۔۔ اب کون سہی، کون غلط، یہ میں کیا جانوں، نہی یہ معلوم کہ آپ یا اُس کتاب کے خالق میں سے کون بڑا استاد ہے۔ میرے لئے دونوں ہی قابلِ احترام ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ شعر کہنا فی الوقت میری روح کی ضرورت تھی، میں جو اول فول کہتا تھا، اب اُس کتاب کی مرہونِ منت، بحر میں لکھنے لگا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو آپ حضرات سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
شکریہ۔
 
ارے باپ رے۔۔۔ ۔ تو آپ مجھے آزما رہے تھے؛ میں نے غور ہی نہیں کیا کہ آپکے سگنیچر کے نیچے 'علمِ عروض سیکھیں' کا لنک موجود ہے ورنہ جواب دینے کی ہمت نہ کرتا! ارے بھائی میں نے تو شروع ہی میں عرض کر دیا تھا کہ میری اردو کمزور ہے :)
میں نے کب دعوی کیا استاد ہونے کا۔ میں نے بھی ایک کتاب کا حوالہ پیش کیا ہے۔ وہاں بحر کے نام میں مقطوع لکھا گیا ہے، اور آپ نے اسے مسکن کا نام دیا ہے۔۔۔ اب کون سہی، کون غلط، یہ میں کیا جانوں، نہی یہ معلوم کہ آپ یا اُس کتاب کے خالق میں سے کون بڑا استاد ہے۔ میرے لئے دونوں ہی قابلِ احترام ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ شعر کہنا فی الوقت میری روح کی ضرورت تھی، میں جو اول فول کہتا تھا، اب اُس کتاب کی مرہونِ منت، بحر میں لکھنے لگا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو آپ حضرات سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
شکریہ۔

بہر حال آپ نے اچھا لکھا ہے۔ عروض کے حوالے سے یہی کہونگا کہ اگر آپ عروض سیکھ ہی رہے ہیں اور بحر کی اصطلاحات بھی یاد کر رہے ہیں تو درست اصطلاحات کے ساتھ یاد کر لیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ :)
آزمانا نہیں مقصود تھا واللہ۔ اسی لئے آگاہ کر دیا ہے کہ ”مقطوع“ زحاف ”قطع“ سے مشتق ہے۔ اور یہ زحاف اس بحر میں سرے سے کہیں استعمال ہی نہیں ہو سکتا۔۔ :)
 
Top