محمد وارث
لائبریرین
انتخاب فارسی غزلیاتِ امیر خسرو مع اردو تراجم
ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان جیسی نابغہِ روزگار، کثیر الجہتی، ہمہ گیر اور متنوع شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
میں یہاں فارسی غزلیاتِ خسرو کا انتخاب، اردو نثری ترجمے اور اردو منظوم ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ منظوم ترجمہ جناب مسعود قریشی صاحب نے کیا ہے جو کہ کتاب خسرو شیریں بیاں مطبوعہ لوک ورثہ اشاعت گھر سے لیا گیا ہے۔
سب سے پہلے امیر خسرو کی ایک مشہور و معروف نعتیہ غزل پیشِ خدمت ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کے پانچوں دواوین میں نہیں ملتی لیکن یہ بات سب تذکرہ نگاروں میں متفق ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کی ہی ہے۔ اسے نصرت فتح علی قوال نے گایا بھی ہے۔
شعرِ خسرو
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا
.
ابو الحسن یمین الدین امیر خسرو کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان جیسی نابغہِ روزگار، کثیر الجہتی، ہمہ گیر اور متنوع شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
میں یہاں فارسی غزلیاتِ خسرو کا انتخاب، اردو نثری ترجمے اور اردو منظوم ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ منظوم ترجمہ جناب مسعود قریشی صاحب نے کیا ہے جو کہ کتاب خسرو شیریں بیاں مطبوعہ لوک ورثہ اشاعت گھر سے لیا گیا ہے۔
سب سے پہلے امیر خسرو کی ایک مشہور و معروف نعتیہ غزل پیشِ خدمت ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کے پانچوں دواوین میں نہیں ملتی لیکن یہ بات سب تذکرہ نگاروں میں متفق ہے کہ یہ غزل امیر خسرو کی ہی ہے۔ اسے نصرت فتح علی قوال نے گایا بھی ہے۔
شعرِ خسرو
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
اردو ترجمہ
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی جگہ تھی جہاں کل رات میں تھا، ہر طرف وہاں رقصِ بسمل ہو رہا تھا کہ جہاں میں کل رات کو تھا۔
منطوم ترجمہ مسعود قریشی
نہیں معلوم تھی کیسی وہ منزل، شب جہاں میں تھا
ہر اک جانب بپا تھا رقصِ بسمل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
پری پیکر نگارے، سرو قدے، لالہ رخسارے
سراپا آفتِ دل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
پری کے جسم جیسا ایک محبوب تھا، اس کا قد سرو کی طرح تھا اور رخسار لالے کی طرح، وہ سراپا آفتِ دل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
پری پیکر صنم تھا سرو قد، رخسار لالہ گُوں
سراپا وہ صنم تھا آفتِ دل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
رقیباں گوش بر آواز، او در ناز، من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
رقیب آواز پر کان دھرے ہوئے تھے، وہ ناز میں تھا اور میں خوف زدہ تھا۔ وہاں بات کرنا کس قدر مشکل تھا کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
عدو تھے گوش بر آواز، وہ نازاں تھا، میں ترساں
سخن کرنا وہاں تھا سخت مشکل، شب جہاں میں تھا
شعرِ خسرو
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم
ترجمہ
اے خسرو، لا مکاں میں خدا خود میرِ مجلس تھا اور حضرت محمد اس محفل کی شمع تھے، کل رات کہ جہاں میں تھا۔
قریشی
خدا تھا میرِ مجلس لا مکاں کی بزم میں خسرو
محمد تھے وہاں پر شمعِ محفل، شب جہاں میں تھا
.