زین
لائبریرین
بلوچستان میں صحافیوں کی ٹریجڈی دہرے خطرات کا سامنا ہے
اسلام آباد (رپورٹ…حامد میر)اگرچہ دنیا بھر میں صحافت کو ایک خطرناک پیشہ سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ پیشہ پاکستان، جہاں یہ پروفیشن جان لیوا بن چکا ہے، جیسے ملکوں کیلئے مزید خطرناک بنتا جا رہا ہے۔ 29/ ستمبر کو بلوچستان کے شورش زدہ شہر خضدار میں ٹی وی کے ایک صحافی عبدالحق بلوچ کی ہلاکت نے ان کے ساتھی صحافیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام نہ دیں اور خضدار پریس کلب پر تالا لگا دیں۔ صحافت کیلئے خضدار ایک تباہ کن علاقہ بن چکا ہے۔ 2008ءء میں خضدار پریس کلب پر علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے بموں سے حملہ کیا تھا جس میں تین صحافی زخمی ہوگئے تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران اسی شہرکے پانچ دیگر صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس میں شہر کے پریس کلب کے صدر محمد خان ساسولی شامل ہیں جو 14/ دسمبر 2010ءء کو مارے گئے۔ آزاد میڈیا سے تعلق رکھنے والے تازہ ترین شکار عبدالحق بلوچ خضدار پریس کلب کے سیکریٹری جنرل تھے۔ اپنے ساتھیوں کیلئے وہ متاثر کن شخصیت تھے اور ان کے قتل نے ان کی کمیونٹی کے ارکان پر زبردست اثرات مرتب کیے ہیں۔ مقامی صحافیوں میں افراتفری کے عالم کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ مقامی صحافیوں کی اکثریت نے اپنے دوست کی 30/ ستمبر کی شام کو تدفین کے بعد اپنے اہل خانہ سمیت شہر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں 80/ صحافی مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 35/ کو ٹارگٹ کلرز نے مارا، 12/ خود کش دھماکوں میں مارے گئے جبکہ 8/ کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔ 2002ءء سے 2012ءء کے درمیان مارے جانے والے 80/ صحافیوں میں سے 16/ کی ہلاکت 2011ءء میں ہوئی جبکہ 6/ صحافی 2012ءء میں ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 4/ کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شام اور صومالیہ کے بعد پاکستان صحافیوں کیلئے انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقے صحافیوں کیلئے مشکل ترین ہیں۔ دراصل یہ علاقے 2001ءء میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے بعد خطرناک بن گئے۔ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو طالبان یا پھر سیکورٹی فورسز سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ لیکن، بلوچستان میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ بلوچستان میں صحافیوں کو نہ صرف طالبان نواز جماعت لشکر جھنگوی اور سیکورٹی فورسز سے دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور ریاست کے حامی علیحدگی کے مخالف شدت پسند گروپس سے بھی ملتی ہیں۔ نتیجتاً، بلوچستان کی اکثریت نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ روپوشی اختیار کرلیں یا پھر صوبے سے نقل مکانی کرکے چلے جائیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کی وجہ سے کوئٹہ میں ایک صحافتی ادارے کے نمائندے ایوب ترین کو گزشتہ سال ان کے ادارے نے کہا کہ وہ اسلام آباد شفٹ ہوجائیں۔ ایک اور ادارے سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے ایک اور صحافی نصیر کاکڑ نے سیکورٹی فورسز کی جانب سے دھمکیاں دینے پر بلوچستان چھوڑ دیا۔ چمن میں سرحدی علاقے سے رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافی نور زمان اچکزئی کو بھی متعدد مرتبہ دھمکیاں دی گئیں۔ دراصل پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں غیر ریاستی عنصر قرار دیدیا تھا اور وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ سرحدی علاقے سے پاکستانی اور افغان فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے انہیں دہشت گرد سرگرمیوں میں پھنسانے کی بھی کوشش کی گئی۔ اور اسی دوران طالبان عناصر بھی انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے۔ درحقیقت، صحافیوں کیلئے بلوچستان میں مسائل اکتوبر 2011ءء سے اس وقت سے بڑھنا شروع ہوگئے تھے جب بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم گروپس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کردی۔ جس کے بعد ان کالعدم گروپس نے اپنی خبریں چھپوانے کیلئے صحافیوں کو دھمکانا شروع کردیا جس پر عدالت نے پابندی عائد کی تھی۔ چونکہ، حکومت یا سیکورٹی فورسز کی جانب سے صحافیوں کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا لہٰذا کئی مقامی اخبارات کے پاس عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہ بچا تاکہ وہ اپنے کارکن صحافیوں کی جانیں بچا سکیں۔ جہاں تک عبدالحق بلوچ کا تعلق ہے، انہیں سب سے پہلے 26/ نومبر 2011ءء میں ریاست نواز شدت پسند گروپ بلوچ مسلح دفاع آرمی (بی ایم ڈی اے یا پھر دی آرمڈ بلوچ ڈیفنس) سے ایس ایم ایس کے ذریعے دھمکیاں ملیں۔ اس کے بعد بی ایم ڈی اے کے ترجمان میر جنگ بلوچ نے صحافیوں کی ہٹ لسٹ جاری کی جن میں عبدالحق بلوچ کا نام بھی شامل تھا جو ایک ٹی وی چینل کیلئے کام کرتے تھے۔ ہٹ لسٹ میں شامل دیگر صحافیوں میں عبداللہ شاہوانی، منیر نور اور عبداللہ کھدرانی شامل تھے۔ میر جنگ بلوچ اس بات پر ناراض تھے کہ کئی بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کی کوریج کی جا رہی تھی۔ لیکن خضدار کی صحافتی کمیونٹی نے بی ایم ڈی اے کی جانب سے جاری کی جانے والی ہٹ لسٹ کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بی ایم ڈی اے کی سرپرستی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک حکومت نواز سینیٹر کر رہے ہیں۔ اس کے بعد بی ایم ڈی اے نے دھمکی دی کہ اگر مقامی اخبارات نے ہٹ لسٹ شائع نہ کی تو نوشکی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں پر حملے کیے جائیں گے۔ اس معاملے پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بی ایم ڈی اے کی دھمکیوں کی مذمت کی ۔ نتیجتاً خضدار پریس کلب کے عہدیداروں نے 27/ نومبر 2011ءء کو اجلاس طلب کیا جس میں بی ایم ڈی اے کی بڑھتی دھمکیوں اور بالخصوص مقامی حکام کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے سے انکار کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے طریقوں پر بحث کی گئی۔ پریس کلب کے عہدیداروں نے ملک کے بڑے شہروں کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں بیٹھے اپنے دیگر ساتھیوں کو فون کرکے ان سے مدد طلب کی۔ لیکن، مقامی حکام ان صحافیوں کے مسائل پر کوئی اقدام کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر پریس کلب کے عہدیداروں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ احتجاج کے طور پر تمام صحافتی سرگرمیاں معطل کردی جائیں۔ اس پر بی ایم ڈی اے مزید مشتعل ہوگئی اور انہوں نے ایک اور ہٹ لسٹ جاری کردی جس میں خضدار پریس کلب کے صدر ندیم گورگناری، خورشید بلوچ، منیر زہری کے نام شامل تھے۔ ان صحافیوں پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ لوگ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کیلئے جاسوسی کر رہے ہیں۔ چونکہ کئی صحافتی اداروں نے ان دھمکیوں کی مذمت کی، بی ایم ڈی چند روز بعد اپنی ہٹ لسٹ سے دستبردار ہوگئی۔ اس کے بعد عبدالحق بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی صحافتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہٹ لسٹ سے دستبرداری محض ایک چال تھی۔ عبدالحق بلوچ کے اہل خانہ نے ان قاتلوں کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے جن کا تعلق ریاستی ایجنسیوں کی حمایت کے ساتھ اپنے ڈیتھ اسکواڈ سے ہے۔ لیکن عبدالحق کے ساتھیوں میں سے کچھ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سیکورٹی فورسز کے چند عناصر عبدالحق سے ناراض تھے کیونکہ وہ گم شدہ بلوچوں کے اہل خانہ سے رابطے میں تھے اور سپریم کورٹ کے کوئٹہ بینچ تک پہنچنے میں ان کی رہنمائی بھی کی تھی۔ سپریم کورٹ بلوچستان کے 100/ سے زائد لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے۔ ان میں سے 19/ کا تعلق خضدار سے ہے۔ ایسے حالات میں، بلوچستان کے صحافیوں کو خضدار سے کوئٹہ تک اور گوادر سے تربت تک روزانہ دھمکیوں کا سامنا ہے۔ یہ لوگ اکثر علیحدگی پسند اور ریاست نواز گروپس کی لڑائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ہی عبدالحق بلوچ جان سے گئے۔ دوسری طرف، حکومت نے بھی انہیں ایسے عناصر سے تحفظ کیلئے سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکامی ظاہر کی ہے، میڈیا میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ عبدالحق بلوچ قتل سیکورٹی فورسز اور ان کے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے صحافیوں کیلئے سخت پیغام ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کی جائے۔ جیسا کہ پاکستان 2013ءء کی پہلی سہ ماہی میں عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے، بلوچستان کی صحافی برادری خود کو انتہائی زد پذیر محسوس کر رہی ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ آزاد میڈیا کے بغیر شفاف اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں۔ عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستانی میڈیا مضبوط ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں 2002ءء سے لے کر 2012ءء تک ٹی وی چینلوں کی تعداد ایک سے بڑھ کر ایک سو تک جا پہنچی ہے جبکہ ریڈیو اسٹیشنوں کی تعداد بھی ایک سے بڑھ کر ڈیڑھ سو تک پہنچ چکی ہیں۔ لیکن، نیویارک کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے میڈیا کیلئے 2012ءء میں پاکستان کو سب سے خطرناک ملک قرار دیا ہے جبکہ فرانس کی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے آزادی صحافت کی فہرست میں 179/ میں سے 151/ نمبر پر رکھا ہے۔ فریڈم ہاؤس نے پاکستان کو 197/ میں سے 144/ نمبر دیئے ہیں۔ ان پریشان کن اعداد و شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب حکومت پاکستان کیلئے یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دہشت گردوں نے انہیں سزا دی جنہوں نے ان کے ظلم کو بے نقاب کیا، اسی موقع پر ریاستی ایجنسیوں نے بھی ایماندار صحافیوں کو صرف اغوا کیا اور مار ڈالا تاکہ ان کی ناکامیوں پر پردہ برقرار رہے۔ بلوچستان جیسے شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو دہرے خطراکت کا سامنا ہے اور کئی لوگ اسی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ انسانیت کے قواعد کے تحت ان کیلئے یہ ناممکن تھا کہ وہ بیک وقت دو فریقوں کی ڈکٹیشن لیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں 80/ صحافی جان سے جا چکے ہیں لیکن ایک شخص پر بھی اس کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ صرف ایک صحافی کے قاتلوں کو پکڑا بھی گیا اور انہیں سزا بھی سنائی گئی، وہ تھے امریکی صحافی ڈینئل پرل۔ ایسی صورتحال میں، پارلیمنٹ سے اپیل کی جانا چاہئے کہ وہ خصوصی قوانین بنائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صحافی کمیونٹی بلاخوف و خطر اپنے فرائض انجام دیتی رہے۔ مئی 2012ءء میں دوحہ کانفرنس میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی جانب سے تجویز کی گئی سفارشات کو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے نئی قانون سے قبل ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس اجلاس میں آئی ایف جے نے ریاستی قوانین کو مضبوط بنانے کی تجویز دی تھی۔ عالمی سطح پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی سفارشات حکومتوں پر یہ دباؤ ڈالنے کیلئے ایک اہم حصہ بن چکی ہیں کہ انہیں صحافیوں کو تحفظ دینا چاہئے۔ انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ صحافیوں کیخلاف پرتشدد بننے والے عناصر کو روکا اور انہیں سزائیں دی جائیں جبکہ اقوام متحدہ سے اپیل کی جائے کہ حقوق انسانی کے ہائی کمشنر کے دفتر میں صحافیوں کیساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات کی مانیٹرنگ کیلئے خصوصی یونٹ قائم کیا جائے۔ آئی ایف جے کی سفارشات میں یہ بھی کہاگیا تھا کہ ایسے صحافیوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جانا چاہئے جبکہ اس سلسلے میں مختلف ملکوں کی امداد کو میڈیا پروٹیکشن کے سلسلے میں ملنے والی امداد سے جوڑ دیا جائے۔ اگر ان سفارشات پر عمل نہ کیا گیا اور ترجیحی بنیادوں پر قابل عمل نہ بنایا گیا اور پاکستان میں صحافیوں کو تحفظ نہ ملا تو ممکن ہے کہ صحافی اپنے خضدار کے ساتھیوں کی طرح فرائض انجام دینا چھوڑ دیں اور ایسی صورت میں آزاد میڈیا کے بغیر پاکستان میں جمہوریت کا فروغ پانا مشکل ہوجائے گا۔
http://e.jang.com.pk/10-02-2012/karachi/pic.asp?picname=836.gif
پیر کو عبدالحق بلوچ کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے پر کوئٹہ کے 26 سے زائد صحافیوں پر مقدمات درج کئے گئے۔ایف آئی آر میں حج پر جانےوالے کوئٹہ پریس کلب کے صدر سلیم شاہد کا نام بھی درج کیا گیا۔
جس پر آج ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے
http://jang.com.pk/jang/oct2012-daily/02-10-2012/u122444.htm