محمد تابش صدیقی
منتظم
کتاب میلہ منعقدہ اسلام آباد، میں لگا ایک چارٹ، جس میں پاکستانی زبانیں اور ان کے حروفِ تہجی بتائے گئے ہیں.
آخری تدوین:
پس ثابت ہوا کہ اردو کہیں نہیں بولی جاتیکتاب میلہ منعقدہ اسلام آباد، میں لگا ایک چارٹ، جس میں پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں اور ان کے حروفِ تہجی بتائے گئے ہیں.
پس ثابت ہوا کہ اردو کہیں نہیں بولی جاتی
بہت زیادہ رش کے باعث اس کی درست تصویر لینے میں بھی کافی وقت لگا، بار بار چاند نواب والی کیفیت ہو جاتی تھی.کاش میری عینک کچھ اچھی ہوتی!
تختی بھی الگ تھلگ پڑی ہے.پس ثابت ہوا کہ اردو کہیں نہیں بولی جاتی
تختی دہلی اور گرد و نواح کے علاقے فتح ہونے کے بعد کام آئے گی۔ ہنوز دہلی دور استتختی بھی الگ تھلگ پڑی ہے.
پس ثابت ہوا کہ اردو کہیں نہیں بولی جاتی
جو خاص ہیں وہ شریکِ گروہِ عام نہیںتختی بھی الگ تھلگ پڑی ہے.
حد ہو گئی کانفیڈنس کی۔چھاچھی زبان کی جگہ ہندکو لکھنا چاہیے تھا۔ میں چھاچھی کو ہندکو کا ایک لہجہ مانتا ہوں۔
بالکل۔ جیسے چینی ماندارین کا ہی ایک لہجہ ہےچھاچھی زبان کی جگہ ہندکو لکھنا چاہیے تھا۔ میں چھاچھی کو ہندکو کا ایک لہجہ مانتا ہوں۔
چھاچھی زبان کی جگہ ہندکو لکھنا چاہیے تھا۔ میں چھاچھی کو ہندکو کا ایک لہجہ مانتا ہوں۔
حد ہو گئی کانفیڈنس کی۔
ایک ہم ہیں کہ اپنے سگے گھر میں مہمانوں کے جانے کے بعد بھی پیپسی مانگتے ہوئے لرز رہے ہوتے ہیں۔ ایک عباس بھائی کہ ہانگ کانگ میں بیٹھ کے پاکستان کے لسانی قضیے اتنے دھڑلے سے فیصل کر رہے ہیں۔ آپ آئیں تو سہی پاکستان۔ پہلے صرف قدم بوسی کا ارادہ تھا، اب آپ کو الیکشن بھی لڑوائیں گے!
یہ کافی مضحکہ خیز بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو زبان بطور قومی زبان چنی گئی وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں بولی ہی نہیں جاتی تھی۔ دہلی اور بہار کی علاقائی زبان اردو برصغیر کے مشرق و مغرب میں نافظ کرنا ایسا ہی تھا جیسا انگریز سامراج نے اپنی قومی زبان یہاں مسلط کی تھی۔ پتا نہیں بانیان پاکستان کو اردو کے نفاذ کا علامہ کن علما نے دیا تھا۔ ملک کے بٹوارہ کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب قائد نے بنگال میں اردو کے نفاذ کی بات کی تھی۔ مطلب بنگال انگریز کی غلامی سے آزاد ہو کر مغربی پاکستان کا غلام بن گیا تھا۔ جس پر ملک کا بٹورا ہونا ہی تھابرسبیلِ تذکرہ، زبان کا مسئلہ دنیا کے حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اہم ترین کردار قومی زبان کو اردو قرار دینے نے ادا کیا تھا۔
میں کسی کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دے رہا تھا کہ تمام تر ترقی، تعلیم، شعوروآگہی وغیرہ کے باوجود آج کینیڈین حکومت کیوبک میں انگریزی زبان رائج کر کے دیکھے۔ اور پھر دیکھئے کیا تماشہ ہوتا ہے۔
ٹھیک ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایک مسئلہ زبان کا بھی تھا لیکن کیا زبان ہی کا مسئلہ تھا، اور کیا زبان ہی اس علیحدگی میں سب سے بڑا مسئلہ تھا، جی نہیں۔یہ کافی مضحکہ خیز بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو زبان بطور قومی زبان چنی گئی وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں بولی ہی نہیں جاتی تھی۔ دہلی اور بہار کی علاقائی زبان اردو برصغیر کے مشرق و مغرب میں نافظ کرنا ایسا ہی تھا جیسا انگریز سامراج نے اپنی قومی زبان یہاں مسلط کی تھی۔ پتا نہیں بانیان پاکستان کو اردو کے نفاذ کا علامہ کن علما نے دیا تھا۔ ملک کے بٹوارہ کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جب قائد نے بنگال میں اردو کے نفاذ کی بات کی تھی۔ مطلب بنگال انگریز کی غلامی سے آزاد ہو کر مغربی پاکستان کا غلام بن گیا تھا۔ جس پر ملک کا بٹورا ہونا ہی تھا
اور بھی مسائل یقیناً تھے لیکن زبان وہ مسئلہ تھا جس سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تنازعات کا آغاز ہواٹھیک ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایک مسئلہ زبان کا بھی تھا لیکن کیا زبان ہی کا مسئلہ تھا، اور کیا زبان ہی اس علیحدگی میں سب سے بڑا مسئلہ تھا، جی نہیں۔
ایک قوم ہونے کیلئے یک زبان ہونا ضروری نہیں ہے۔ بھارت میں ایک سے زائد سرکاری زبانیں ہیں۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں سرکاری سطح پر اپنے اپنے صوبوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔چلیں مان لیا کہ تقسیم کہ بعد پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان وہ قرار پائی جو آپ کے بقول کہیں بھی بولی نہیں جاتی تھی، تو ذرا آپ ہی فرما دیجیے کہ ان علیحدہ علیحدہ خطوں میں علیحدہ علیحدہ زبانیں بولنے والوں کے لیے کونسی زبان قومی اور سرکاری قرار دی جاتی؟
آپ کی بات بجا ہے، لیکن اس خرابی میں زبان کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا آپ کو دکھائی دے رہا ہے، اور بہت سے گھمبیر مسائل تھے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں، اور بہت سے مسائل ہیں موجودہ پاکستان کی زبوں حالی میں۔ یہ مسئلہ تو تب بھی حل ہو سکتا تھا اگر اردو ہی کی صحیح دیکھ ریکھ کر لی جاتی، افسوس ہمارے حکمرانوں نے تو وہ بھی نہیں کیا۔اور بھی مسائل یقیناً تھے لیکن زبان وہ مسئلہ تھا جس سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تنازعات کا آغاز ہوا
ایک قوم ہونے کیلئے یک زبان ہونا ضروری نہیں ہے۔ بھارت میں ایک سے زائد سرکاری زبانیں ہیں۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں سرکاری سطح پر اپنے اپنے صوبوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔
اگر قیام پاکستان کے بعد تمام صوبوں کو بااختیار کر دیتے اور سرکاری سطح پر انگریزی ہی چلنے دیتے تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ اردو جیسی علاقائی زبان کو دیگر علاقائی زبانوں پر فوقیت کیوں دی گئی اور پھر سرکاری زبان تو آج بھی انگریزی ہے۔ اسے ہی قومی زبان بنا لیتے تو انگریزی میڈم اسکول کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔آپ کی بات بجا ہے، لیکن اس خرابی میں زبان کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا آپ کو دکھائی دے رہا ہے، اور بہت سے گھمبیر مسائل تھے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں، اور بہت سے مسائل ہیں موجودہ پاکستان کی زبوں حالی میں۔ یہ مسئلہ تو تب بھی حل ہو سکتا تھا اگر اردو ہی کی صحیح دیکھ ریکھ کر لی جاتی، افسوس ہمارے حکمرانوں نے تو وہ بھی نہیں کیا۔
وہ اس لیے کہ اردو رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ تقسیم سے پہلے سارے ہندوستان میں لوگ، اردو کچھ نہ کچھ تو سمجھتے ہی تھے، اب بھی سمجھتے ہیں۔ انگریزی کون سمجھتا تھا؟میری سمجھ سے باہر ہے کہ اردو جیسی علاقائی زبان کو دیگر علاقائی زبانوں پر فوقیت کیوں دی گئی اور پھر سرکاری زبان تو آج بھی انگریزی ہے۔ اسے ہی قومی زبان بنا لیتے تو انگریزی میڈم اسکول کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔
کیا بنگال کے لوگوں کی اکثریت اردو سمجھتی تھی؟ اور بلوچستان؟ سندھ، سرحد اور پنجاب میں تو اردو سمجھنے کا مسئلہ نہیں ہوا کبھی۔وہ اس لیے کہ اردو رابطے کی زبان تھی اور ہے۔ تقسیم سے پہلے سارے ہندوستان میں لوگ، اردو کچھ نہ کچھ تو سمجھتے ہی تھے، اب بھی سمجھتے ہیں۔ انگریزی کون سمجھتا تھا؟