You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
فائضہ خان
میں نے ساحلوں پر ڈوبتی کشتیوں کو اپنی بیساکھیوں کے سہاروں سے کنارے پار لگانے میں شب کو دن کے اجالے دیے تھے
یورپ کی یخ بستہ راتوں میں اپنوں کی خواہشات کے جگنو پکڑنے میں کئی قیمتی برسوں کو سلگایا۔
میرا چہرہ میرا جسم میری معصومیت میری شوخی جس کے حصے میں جتنی آئی اتنی سبھی نے نوچ ڈالی
اب جب بیٹریوں تاروں دواوں کے سہارے زندگی گھسیٹ رہی ہوں تو سبھی بہانے تراشتے جدا ہونے کو آئے ہیں
کوئی مجرم ٹھہراتا ہے تو کوئی ملزم
کسی کے ساتھ میری بیوفائی منسوب کر دی گئی تو کسی نے مجھے بےحس کہہ دیا
میں کبھی ان لوگوں کی قسمت کا روشن ستارہ تھی
میرے زوال پر سبھی نے راستے بدلے
میں نے بھی خود کو زندگی کو مصنوعی دھڑکنوں سے اب آزاد کردیا ہے
قبول کرلیا ہے موت کا وقت ابھی مقرر ہے
میں وہاں آسمان پر اک مدھم سا ستارہ بن کر اپنوں کو زمین پر روشن دیکھوں گی
جلدی دیکھوں گی