غزل
آنکھ کس کے واسطے دریا کریں
سینہ آخر کس لیے صحرا کریں
آپ سے اک مشورہ درکار ہے
ایک ہنگامہ کہیں برپا کریں؟
کچھ نہیں پاسِ تواضع کو اگر
آؤ تھوڑی دیر ہم جھگڑا کریں
حل طلب کچھ تو ہو اپنے سامنے
کیوں نہ کوئی مسئلہ پیدا کریں
جو ہوا تھا طور پر یا ان کے گھر
اس کا چرچا حضرتِ موسیٰ کریں
ان دنوں آتا...
غزل
مئے پنہاں کبھی پیمانے سے باہر بھی دمک
اے غمِ دل! کبھی آنکھوں میں بھی ایک آدھ جھلک
دل میں اک خوابِ حسیں، ذہن میں اندوہِ معاش
اور دروازے پہ ایّام کی پیہم دستک
زنگ آلود سلاسل کہ جو بج بھی نہ سکیں
پاؤں میں کہنہ زمیں، سر پہ یہ فرسودہ فلک
فن ہے وہ آہوئے وحشی کہ لیے پھرتا ہے
سرِ صحرائے...
لمبی غیر حاضری کے بعد ایک تازہ غزل
میرے دل میں بھی اک یاد سی رہ گئی
ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی
ایک بچہ جو دنیا کا باغی ہوا
ایک ماں جو اسے ڈانٹتی رہ گئی
گھر سے نکلے تو ہم پر کھلا بارہا
گھر کی دہلیز پر زندگی رہ گئی
زندگی بھر محبت ہی کرتے رہے
اور اس میں بھی شاید کمی رہ گئی
ایک بندِ قبا...
غزل
ساحل سے واپس ہو لیے سارے صدف رستہ نہ تھا
گم ہو گئے گرداب میں گوہر بکف رستہ نہ تھا
رکھی تھی اک سل راہ میں ہستی کا حاصل راہ میں
آنکھیں تھیں حائل راہ میں دل کی طرف رستہ نہ تھا
خاموش تھے اہلِ سخن چپ چاپ تھا پتوں کا بن
کیسی لگن کیسی چبن کیسا شرف رستہ نہ تھا
زخموں سے رِستا تھا لہو آساں نہ...
غزل
اس نے قدم قدم پر کیا کیا نہ خود سری کی
تصویر ہے جو دل کے شیشے میں اک پری کی
بس اک نگاہ ہم پر اس نے جو سرسری کی
دل کی اجاڑ کھیتی پھر سے ہری بھری کی
مشگل گھڑی نے اکثر بے آبرو کیے ہیں
دیتے ہیں جو صدائیں ہر وقت رہبری کی
لاکھوں درود اس پر لاکھوں سلام اس پر
جس جس نے بھی جہاں میں آدم کی...