You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly. You should upgrade or use an alternative browser.
یاسر لطیف
فقیر کا نام تو بڑوں نے یاسر لطیف قریشی رکھا لیکن سوچتا ہوں کہ نام میں کیا رکھا ہے اصل تو کام ہے، جسے ہم نے ہمیشہ کل پہ ڈالنا خود پر فرض کرلیا ہے اور وہ بھی اس مفروضے پر کہ وہ ”کل“ ضرور آئے گی حالانکہ ”کل“ کے بارے میں ایک ہی بات یقینی ہے کہ ”کل“ کبھی نہیں آتی، اسی لئے آج تک ”کل“ کسی نے نہیں دیکھی بلکہ ”کل“ تو بہت دور کی بات ہے خبر تو ”پل“ کی بھی یقینی نہیں ہوتی۔
اولیاء کے شہر ملتان سے ایک جبری و قدری تعلق اس طور سے ہے کہ یہیں احقر کی جائے ولادت ہے (کاش کہ شہر ملتان کے اولیاء سے بھی کچھ نسبت قائم ہوجائے) اور یہی حال قریشی صدیقی نسبت کا ہے کہ بزرگوں کے بقول صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے ہمارا نسبی تعلق ہے (کاش کہ صدیقین و صادقین سے روحانی تعلق بھی قائم ہوسکے)
جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو اس میں بھی کچھ قابل فخر نہیں ہے مثلاً: بی اے فیل ہوں، درس نظامی کا بھگوڑا ہوں، حفظ اساتذہ کی محنت اور والدین کی دعاؤں کی بدولت جیسے تیسے مکمل کرلیا مگر عمل کی رتی بھی پلے نہیں کہ ان لوگوں امیدوں پر کسی طور پورا اترسکوں جنہوں نے بڑے شوق سے حفظ کروایا کہ حافظ صاحب روز قیامت خاندان کے دس افراد بخشوائیں گے (بشرطیکہ پہلے خود بخشے جائیں) بہرحال دوسروں کو بخشوانے کا تو کچھ نہیں کہہ سکتا اپنی کچھ امید بندھی ہے کہ چودہ پندرہ سال کی بورڈ اور ماؤس کی مزدوری کرتے کرتے نہ جانے کون سی بھولی بسری نیکی یا کسی نیک کی دعا مدد کو آئی کہ اللہ رب العزت نے ایک روز اچانک اپنے کلام مجید کی تدریس کے لئے قبول فرمالیا اور یوں بیٹھے بٹھائے آن لائن تدریس کلامِ پاک کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس میں امید کی کرن یہ ہے کہ شاید کوئی روحِ سعید ناچیز کے پڑھائے کسی حرف پر عمل کرلے اور فقیر حقیر کی نجات کا سبب بن جائے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ اب تک جو بھی کچھ اچھا ہوا اس کریم کے کرم کی بدولت ہوا اور آئندہ بھی اس سے کرم ہی کی امید ہے اس لئے کہ بزرگوں سے سنا ہے، کریم وہ ہوتا ہے جو چور کو چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لے اور پھر بغیر سزا دیئے چھوڑدے۔
بقول شاعر ؏
کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا
ہم کیا ہیں جوکوئی کام ہم سے ہوگا
جو کچھ ہوا ، ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ ہوگا، تیرے کرم سے ہوگا