سوشل میڈیا پر بچوں کی نگرانی اورمثبت استعمال کیسے ممکن بنائیں ؟

میڈیا انسانوں کی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے مگر ملکی اقدار کا امین ہوتا ہے۔ میڈیا ملک کے تہذیبی وثقافتی ورثہ کا محافظ، اخلاقی قدروں اور مذہبی رواداری کے فروغ کا پابندہوتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معاشرتی طور پر ذمہ دار میڈیا ہی ملکی ترقی اور نئی نسل کی تربیت میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ جدید دور میں میڈیا کو کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون اسی تناظر میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت وقت کے ان فیصلوں اور پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا ہے جو ملک وقوم کے مفاد میں نہ ہوں۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا نے جہاں ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں اس سے بہت سی معاشرتی اور مذہبی اقدار کو ٹھیس بھی پہنچی ہے۔ آج جہاں ایک طرف ہمیں سوشل میڈیا کے توسط سے نت نئی دوستیاں کرنے ،احساسات ، اپنے تجربات شیئر کرنے اور دوسروں کی زندگیوں سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے وہیں نا پختہ اور بیمار ذہن لوگ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کے جذبات اور ان کے عقائد کے ساتھ کھیلنے سے بھی نہیں کتراتے۔
سوشل میڈیا پر ہزاروں فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹس ایسے ہیں جن کے ذریعے مختلف تنظیمیں ، گروہ اور افرادلابنگ کرتے ہیں اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اکاؤنٹس جو لوگوں کے مذہبی و ملی جذبات مجروع کرتے ہیں، تشدد و بے راہ روی کا پرچار کرتے ہیں اورفحاشی و عریانی کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ اکاؤنٹس معاشرتی بگاڑ کی بنیاد ہیں ۔ میڈیا (سوشل ، پرنٹ و الیکٹرونک) کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ملکی سلامتی، عزت و وقار کا سرعام مذاق اڑائےیا مقدس ہستیوں اور مذہبی عقائد کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرے۔ بلاشبہ اختلاف رائے معاشرے کا حسن ہے مگر اختلاف رائے کی آڑ میں کسی طبقے کی تذلیل قابل مذمت ہے۔
ماضی قریب میں جسٹس شوکت حسن صدیقی نےتوہین رسالت ﷺ کے مرتکب گروپ ایڈمن اور پیجز کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے جب حکومت کو کہا تو ہر شخص نے ان کے اس اقدام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا کیونکہ عوام میں پہلے ہی اس سلسلے میں بے چینی پائی جا رہی تھی۔ حکومتی اقدامات کے علاوہ ہر شخص انفرادی طور پر سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنائے تو اس سے نہ صرف ہماری اپنی ذات کو فائدہ ہو گا بلکہ معاشرتی طور ہم دوسروں کی رہنمائی کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ بچوں میں ہم یہ صلاحیت (سکل) پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا بہتر اور مفید استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں۔
آج کے دور میں ہم بچوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی نہیں لگا سکتے اور نہ ہی انہیں پابند کر سکتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کا استعمال نہ کریں کیونکہ آجکل انٹرنیٹ معلومات اور ریسرچ کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اسکا استعمال آج کے انسان کے لئے لازم و ملزوم ہو گیا ہے۔ گوگل، یوٹیوب، وکی پیڈیا، فیس بک، واٹس ایپ رابطہ، ریسرچ اور علم کا سورس تصور ہوتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا کہ ان ویب سائٹس کو بند کر دیا جائے حکمت، تدبر اور فراست سے عاری فیصلہ ہو گا۔
حکومت کو چاہئے وہ اب ویب سائٹس کے آفیشلز سے یہ مطالبہ کریں کہ ان سائٹس کے سرور پاکستان میں بنائے جائیں تا کہ توہین آمیز مواد کی نشاندہی اور اسے ہٹانے میں آسانی رہے۔ معاشرتی طور پر بھی ہمیں چند اصول وضح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس جدید ٹیکنالوجی سے موثر انداز میں فائدہ اٹھا سکیں۔ ہمیں گھروں میں اپنے بچوں کو ایسی تربیت کرنی ہو گی کہ وہ انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچیں اور اس کے مثبت پہلو سے خوب ثمرات سمیٹیں۔
پاکستان میں “جنریشن گیپ” کی وجہ سے سوشل میڈیا کے بارے میں والدین اور بچوں کے درمیان بہت فاصلہ پایا جاتا ہے۔ جیسے والدین اس نسل سے ہیں جہاں “چادر اور چار دیواری” کا تصور بہت مضبوتی کے ساتھ قائم تھا مگر سوشل میڈیا (فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، گوگل پلس، واٹس ایپ وغیرہ) نے اس تصور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ والدین بچوں سے ان کے معاملات پر بات نہیں کرتے، وہ ان کے مسائل ان کی روزانہ کی دلچسپیوں اور دوستیوں سے متعلق نہیں جانتے۔

وہ بس اتنا جانتے ہیں ہمارا بیٹا یا بیٹی انگلش میڈیم سکول میں پڑھ رہے ہیں، جس کی ہم ہزاروں روپے فیس دے رہے ہیں ، ان کی ہر مادی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، انہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے اور وہ بہت محنت کر رہے ہیں ہر وقت کمرے میں پڑتے رہتے ہیں ۔ اب جس بیٹے یا بیٹی کے پاس اینڈرائیڈ ، لیپ ٹاپ اور وائی فائی ہو وہ کمرہ بند کر کے ہر وقت پڑتا رہے یہ ایسے ہی ہےجیسے”دودھ کی رکھوالی بلی ہو”۔
ہم مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں توسوشل میڈیا سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
صحبت نیک و بد :
جب ہم عام زندگی میں دوستیاں بناتے ہیں تو بہت خیال رکھتے ہیں کہ یہ شخص کیسا ہے، اس کا اخلاق، بول چال اور اٹھنا بیٹھنا کیسا ہے، تعلق واسطہ اور معاملات کا کیسا ہے؟ مگر سوشل میڈیا پر دوستیاں بناتے ہوئے ہم یہ خیال نہیں رکھتے۔
صوفی بزرگ میاں محمد بخش ؒ کا کلام ہے؛
؎ مالی دا کم پانی دینا، بَھر بّھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا، لاوے یا نہ لاوے

نیکاں دے سنگ نیکی کرئیے نَسلاں نہیں بُھلاندے
بُریاں دے سنگ نیکی کرئیے اُلٹا ضُعف پُہنچاندے

مُورکھ نُوں کِیہ پند نصیحت، پَتھر نُوں کیہ پالا
دُودھاں اندر کاگ نُوہائیے، اَنت کالے دا کالا
بُرے بندے دِی صُحبت ایویں جویں دکان لوہاراں

چُھنگھ چُھنگھ کے لکھ کپڑے بَہیے چِنگاں پین ہزاراں

جِنہاں درد عشق دا ناہیں، کد پھل پان دیداروں؟
جے رب روگ عشق دا لاوے لوڑ نئیں کوئی داروں

نیک ، اچھے اور سلجھے ہوئے لوگوں کی محفل سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔سوشل میڈیا پر ہمیشہ ان لوگوں سے دوستی کریں جو اچھی پوسٹیں کرتے ہوں (معلومات ، تعلیم و تربیت ، حالات حاضرہ ، تجربات پر مبنی اور اخلاقیات و مذہب کی روح کے مطابق)۔ داناء کہتے ہیں نیک فطرت اور پاک طینت لوگوں کو مے خانے میں بھی اچھے لوگ مل جاتے ہیں اور اسی طرح بری عادات و بد خصلت آدمی مسجد میں بھی اپنے مطلب کا دوست تلاش کر لیتا ہے۔ انسان کو نیک فطرت پر بنایا گیا ہے وہ ہمیشہ اچھائی کو ترجیح دیتا ہے مگر شیطان برائی کو جاذب نظر اور خوش کن انداز میں پیش کرتا ہے، اس لئے بھٹکنے کا اہتمال زیادہ ہوتا ہے۔
میری آج کے والدین سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا خود بھی استعمال کریں، اچھے دوست تلاش کریں، اچھے گروپس اور پیجز تلاش کریں بیسیوں لوگ ہیں جو مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں۔ چند ایک پیجز اور گروپس کے بارے میں بتانا چاہوں گا مثلا طفلی، شعور، انفارمستان، ہماری بیٹھک وغیرہ ۔ آپ ان لوگوں ، ان پیجز اور گروپس کے ساتھ خود بھی بہت کچھ سیکھیں گے اور بچوں کو بھی بہت سی دلچسپ معلومات ملیں گی۔
افراد، پیجز اور گروپس جو لغو گوئی، فحاشی و عریانی، طبقاتی، گروہی و لسانی تفریق، مذہبی تفریق یا تفرقہ بازی میں ملوث ہوں ۔ تشدد پسندانہ رجحانات کی تبلیغ کرتے ہوں یا ملکی و ملی اقدار کا، شرعی مسائل اور ادیان (خصوصا دین اسلام کا) کا مذاق اڑاتے ہوں انہیں فورا خدا حافظ کہہ دیں کیونکہ ان سے آپ کو کوئی نفع نہیں ہونا بلکہ اس سے آپ انتشار کا شکار ہوں گے اور نہ ہی انہیں سمجھانے کی غلطی کیجئے گا کیونکہ انہیں سمجھاتے سمجھاتے آپ اپنا ایمان متزلزل کر بیٹھیں گے۔ جب آپ کو سوشل میڈیا کا ستعمال آئے گا تو پھر آپ اپنے بچوں کے اکاؤنٹس پر بھی نظر رکھ سکیں گے ان کی پوسٹس، ٹویٹس اور ایکٹیوٹیز کے بارے میں جان سکیں گے۔

بچوں کے دوست بنیں:
آپ کے سامنے ایک بنچ پر دو آدمی قریب قریب بیٹھے ہیں مگر وہ آدھا گھنٹہ ایک جگہ بیٹھے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تو آپ کے لئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یقینا وہ ” باپ بیٹا ” ہیں۔ یہ آج ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم گھر کے سوا ہر جگہ ملنساری، خوش طبعی اور ہمدرد ی سے پیش آتے ہیں لیکن جوں ہی گھر میں قدم رکھتے ہیں ساری اخلاقیات، تہذیب اور بزلہ سنجی ہوا ہو جاتی ہے۔ اس رویہ کو ہمیں خیر باد کہنا ہو گا کیونکہ ہمارے اس رویہ سے ہمارے بچوں میں اعتماد کی کمی، احساس محرومی اور بزدلی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر ایسے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں جو ان کے دکھ، ان کے جذبات اور ان کے خیالات کو سمجھ سکیں اور انہیں دوستیوں سے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہیں مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اس لئے بچوں سے دوستی رکھیں انہیں اعتماد دیں، ان سے سوشل میڈیا کے حوالے سے سیکھیں ان کے دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں اور اچھے دوستوں کی پوسٹس پر کمنٹس کریں۔ مختلف آئیدیاز پر ڈسکس کریں نئے رجحانات پر بات کریں تا کہ وہ ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کر سکیں اور آپ سے کترائیں نہ آپ سے ڈرے ڈرے سہمے سہمے نہ رہیں بلکہ آپ ان پر اور وپ آپ پر اعتماد کر سکیں۔

پاسورڈ اور پرائیویسی:

پرائیویسی کی اصطلاح ہمارے ہاں نہیں تھی، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور گھر میں موجود افراد سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی۔ گھر کے افراد اپنے مسائل، اپنی خوشیاں اور اپنے جذبات دوسروں سے شیئر کرتے تھے جسے ہم اپنی زبان میں “دُخی سُخی” کہتے ہیں۔ اس شیئرنگ سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا تھا، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا تھا اور باہمی محبت جنم لیتی تھی۔ دور جدید آیا سوشل میڈیا نے رابطوں کو آسان کیا مگر گھر کے افراد سے تعلق کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اب ہم سوشل میڈیا پر اپنی سالگرہ منا رہے ہوتے ہیں جبکہ پاس بیٹھے بہن بھائیوں کو خبر نہیں ہوتی۔ ہم واٹس ایپ پر محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہوتے ہیں اور والدین خوش ہو رہے ہوتے ہیں ہمارے بچے کتنے ذہین ہیں۔
پرائیویسی نام پرہم نے اپنے دراز ، الماری، بیگ کو لاک لگایا ہوتا ہے۔ اینڈرائیڈ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرپر سیکیورٹی لاک یا پاسورڈ لگایا ہوتا ہے،حتیٰ کہ موبائل ایپلی کیشنز پر الگ الگ پاسورڈ لگائے ہوتے ہیں۔ ایک عام سا اصول گھر میں اپنا لیں “جو چیز چھپ کر کی جائے وہ غلط ہے” لہٰذا والدین سمیت گھر کے کسی فرد کو اپنے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور اینڈرائیڈ پر پاسورڈ لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ تمام ڈیوائسز سر عام (اوپن) استعمال ہوں گی۔ اس اقدام سے باہمی اعتماد بڑھے گا اور ہر فرد محتاط رہے گا۔

وقت مقر رکریں :

کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہے۔ اس لئے بچوں کے ساتھ مل کر ایک روٹین بنائیں کہ ہم نے اس وقت سے اس وقت تک سوشل میڈیا (فیس بک، واٹس ایپ، گوگل پلس، ٹویٹر وغیرہ) استعمال کرنا ہے۔ اس کام کے لئے ایک گھنٹہ بہت ہے۔ اس میں آپ اپنے میسجزدیکھ سکتے ہیں، پوسٹس شیئر کر سکتے ہیں اور دوسری ایکٹیوٹیز کر سکتے ہیں۔ پڑھنے کا وقت مقرر کریں ، فیملی کے ساتھ بیٹھنے گپ شپ کرنے کا بھی وقت متعین کریں تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچے گھر کے افراد سے بھی مانوس ہوں۔ بہت سے خاندان ایسے دیکھے ہیں جو اپنے بچوں کو کسی اچھے سکول سے تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں اور بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں بچے ہر وقت پڑھتے ہی رہیں یہاں تک کہ بچوں اور گھر میں موجود بزرگوں میں تعلیم دیوار چین بن گئی ہے۔ والدین خاندان کی تقریبات پر بچوں کو نہیں لے کر جاتے جس کی وجہ سے بچے سوشلی الگ سے ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا انہیں اس معاشرتی تنہائی سے بچاتا ہے مگر اس پر آپ کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اچھی نیند صحت کے لئے لازم ہے گھر میں یہ عادت اپنائیں کہ رات کو جلدی سونا ہے اور صبح جلدی اٹھنا ہے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے سونے اور اٹھنے کے اوقات میں بہت فرق آ گیا ہے جس سے صبح خیزی جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ بچوں کو اسلام کے بارے میں بتائیں۔ دین کی معاشرتی اور اخلاقی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ اچھائی برائی ، حلال حرام اور نیک و بد کا تصور ان کے ذہنوں میں پختہ ہو۔
ایک اچھا فرد ہی محب وطن شہری بن سکتا ہے۔ اس لئے آج کے تقاضوں کے مطابق خود بھی تیار ہوں اور اپنے بچوں کو بھی تیار کریں ۔ اپنے اور ان کے درمیان فاصلے کو کم سے کم کریں، ان کے مسائل پر ان کی سطح پر جا کر سمجھیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ؛

؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
لکھاری
 
Top