ناول ”The Idiot“ میں انسانی فطرت، اعتقادی مخمصے، سماجی حرکیات اور معصومیت کے امتزاجی تناظرات
تبصرہ: غلام مصطفیٰ دائمؔ
فیودور دوستوئیفسکی (Fyodor Dostoyevsky) کے ناول ”The Idiot“ کا مطالعہ [Translated by: EVA MARTIN] ساحلِ اختتام سے ہم کنار ہوا۔ یہ ناول سمجھنے میں جتنا ژولیدہ اور پیچ دار ہے، Moods of Perception کے واسطے اُتنا ہی حیرت انگیز اور صَولت آمیز ہے۔ اس نے عقل و منطق کے کئی مسلّمہ اصولوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اور دل میں ایک ایسی ہیبت ناکی پیدا کر دی ہے جس نے فیودور دستوئیفسکی کی بڑائی اور جلال کے سبھی Known اور Unknown گوشے مکمل طور پر مجھ پر کھول دیے ہیں۔ بلاشبہ ایسے ناول صدیوں کے تجربے کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ انیسویں صدی کی ادبی بساط کا ایک شاہکار ارمغان ہے۔
مصنف فیودور دستوئیفسکی (Fyodor Dostoyevsky) نے ناول میں متعلقہ عہد کے رُوسی اشرافیہ معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے اعلیٰ طبقے کے اخلاقی طور پر دیوالیہ پن، منافقت، مادی ثروت کی ارتکاز پسندیت اور سماجی حیثیت کی بے ہنگم زندگی کی نقاب کشائی کی ہے اور اپنے کرداروں کے ذریعے لالچ اور مزعومہ خواہش سے لے کر بدعنوانی اور اخلاقی تہی دامنی تک اخلاقی زوال کی مختلف شکلیں سامنے لائی ہیں۔
مرکزی کردار پرنس میشکن (Prince Lev Nikolayevich Myshkin) ایک معصوم اور ہمدرد شخص ہے جس کے پاس بچوں جیسی سادگی اور دنیا میں نیکی اور اخلاقی اعتدال کے شعور اور تبلیغ کی حقیقی خواہش ہے۔ تاہم، اس کی معصومیت اور سماجی بیداری کی جدید غیر فعّالی اسے دوسروں کے ہاتھوں ہیرا پھیری، نفرت اور استحصال کا شکار بناتی ہے۔
ناول ”The Idiot“ میں ”Idiot“ یہی پرنس میشکن ہے جسے احمق کہنا معروف اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ ناول میں حماقت کا تصور اس لفظ کے لغوی معنی سے آگے بڑھ کر انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے اور اس خیال کی جانچ پڑتال کرتا ہے کہ حقیقی حکمت اور اچھائی کو اکثر غلط فہمی یا بے وقوفی کے طور پر سمجھا جاتا ہے ایک ایسے معاشرے میں جو خود غرضی، مادیت پرستی اور سطحی معاشرتی اصولوں پر کاربندی کا داعی ہوتا ہے۔ پرنس میشکن کا کردار ایک قسم کی روحانی پاکیزگی اور حقیقی ہمدردی کا مجسمہ ہے جو ناول میں دکھائے گئے معاشرے کے اخلاقی زوال اور منافقت سے بالکل متصادم ہے۔ یہ اس وقت کے روسی معاشرے کے اخلاقی زوال، منفرد متضاد اقدار اور معاشرتی توقعات کے درمیان پھیلے وسیع تنازعات کو نمایاں کرتا ہے۔
میں نے ایک گہرا مشاہدہ دورانِ مطالعہ یہ کیا ہے کہ پورے ناول میں فیودور دستوئیفسکی اپنے کرداروں کو اخلاقی مخمصوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اور ان کے اعمال کے نتائج کی کھوج کرتا ہے۔ تمام کردار عزت، سالمیت، اپنی خواہشات اور اخلاقی ذمہ داریوں کے درمیان تصادم کے سوالات کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں۔ مصنف نے اپنے کرداروں کی نفسیات کی گہرائی تک رسائی حاصل کی۔ ان کے اندرونی خیالات، محرکات اور جدوجہد کی کرید کی اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا مفصل جائزہ لیا، جس میں احساس اور جذبات، جرم اور سزا، اور انسانی شناخت کی نزاکت کے درمیان تعامل شامل ہے۔
یہاں ناول سے ایک اقتباس درج ہے جو حماقت کے گہرے لیکن مختصر اشارے کے طور پر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
“A fool with a heart and no brains is just as unhappy as a fool with brains and no heart. I am one and you are the other, and therefore both of us suffer, both of us are unhappy.” [p# 84]
چونکہ دستوئیفسکی کے دور میں روسی معاشرے کے سماجی اور ثقافتی اصولوں میں جو کھوکھلا اور لادینی پَن پیدا ہو چکا تھا، اس لیے ناول کو اسی تناظُر میں پیش کیا گیا ہے اور مذہبی آنچ دے کر فطرت کے مسلمہ اصولوں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا کر دی ہے۔ مرکزی کردار پرنس میشکن (Prince Lev Nikolayevich Myshkin) کو سچے مسیحی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ پرنس میشکن اپنے اخلاقی تضاد کے شکار معاشرے کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے ایک امید قائم کرتا ہے کہ:
“Beauty Will Save the World” [p# 393]
یہ ملحوظ رکھنا اہم ہے کہ یہ جملہ ہمیں مثبت تبدیلی کی ترغیب دینے اور زیادہ ہم آہنگی اور ہمدرد معاشرے کی تشکیل کے لیے خوب صورتی کی صلاحیت کو پہچاننے اور منانے کی ترغیب دیتا ہے۔ نیز خوبصورتی کی محض سادہ یا سطحی تفہیم کی تجویز نہیں کرتا، بلکہ وہ خوب صورتی کو ایک مسیحا/مسیحا صفَت کی آمد سے تعبیر کرتا ہے جو اخلاقی دیوالیہ پن کی بیخ کنی کرکے معاشرے میں حُسب و خوبی/اعتدال کا اصول جاری کرے گا۔ خوب صورتی (Beauty) کا معنی لاس اینجلس (Los Angeles) سے Laura Kristan Wilhelm نے ان الفاظ میں کیا ہے:
“Most scholars think that Myshkin (representing Dostoevsky) equates beauty with Christ and Christian ideals.”
اس تبصرے کی چند سطروں کے بعد Laura Kristan Wilhelm نے مزید لکھا کہ:
“Dostoevsky here is directly referring beauty as “Jesus”. Since he was very passionate towards Christianity & its teachings. He was always in search to induce the teachings of Christianity in his literary novels. He is saying that in the end it will be jesus who will save the world but how & to which manner that is unknown.”
مصنف نے اپنے مرکزی کردار کی معصومیت اور دلی سادگی کو اس غرض سے کلیدی حیثیت سے پیش کیا ہے، کیوں کہ وہ اس کردار سے بقول Ellery Hanley بطورِ تمثیل یہ بتانا چاہتا ہے کہ:
“If Jesus returned to earth how would he be treated. Would he be listened to and his pure sense of love and innocence be appreciated, or be mocked as an idiot?”
[مندرجہ بالا Ellery Hanley اور Laura Kristan Wilhelm کے تبصرے Quora سے اخذ کیے گئے ہیں]
مجموعی طور پر ناول ”The Idiot“ ایک پیچیدہ اور فکر انگیز ناول ہے جو انسانی حماقت کی طبقاتی تشریح کی مختلف نوعیتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ معاشرتی اخلاقی اقدار کی کھوج کرتا ہے، اور پڑھنے والے کو حکمت اور نیکی کے روایتی تصورات پر سوال اٹھانے اور غور کرنے کا چیلنج دیتا ہے۔
اس ناول میں معاشرتی کرپشن، معصومیت، تنہائی، انسانی فطرت (اچھی اور بری)، زندگی اور موت، امن اور تکلیف، اعتقاد اور الحاد وغیرہ جیسے وسیع موضوعات کی آمیزش عمومی و خصوصی ہر دو طرح کے تناسُبات کے ساتھ موجود ہے۔