لکیر - باب دوم
--------
نفس عیاری پہ اترے تو سروں کی کھیتی کٹتے دیر نہیں لگتی۔ لہو کے سیلاب اسے سیراب کرتے ہیں اور فریب کی بادِ صرصر کھولتے خون کے لاوے پر پھونکیں مار مار کر اسے مزید دہکاتی رہتی ہے۔ قاتل ہو یا مقتول، دونوں انسان ہی ہوتے ہیں۔ ہاں! قابیل اور ہابیل تو ہر نسل کی تاریخ کی شہ سرخی ہوتے ہیں۔
--------
قبائلی سرکشوں کی ریشہ دوانیاں خشک گھاس میں تڑتڑ کرتی آگ کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ قتل کرنے کے جدید طریقوں کو آزمانے کا تجربہ انھیں اس دریافت پر ابھارتا رہتا کہ کس طریقے میں ان کا دشمن زیادہ تڑپے گا؟ ان کی سفاک آنکھوں کے دھارے آتشِ غضب سے یوں ابھرے ہوئے تھے جیسے کسی بسمل کے پھڑکتے منظر کو عکس بند کرکے آنکھ میں پہن لیا ہو۔ اس عام قتل و غارت، گھر جلانے اور گھاٹیوں سے دھکا دے کر گرانے جیسی تکلیف دہ سزاؤں کے پیچھے ایک گہرا جرم پنہاں تھا اور وہ ان قبائلیوں کے دشمن سکھوں کے زمینی خالصوں پر قبضے تھے۔ یہ جرم تھا یا سرکشوں کے لیے مشقِ ستم کا بہانہ، لیکن کچھ تھا ضرور، جسے چشمِ فلک دیکھ کر بھی گنگ لبوں سے شب و روز کے ورق پلٹی جا رہی تھی۔
قبائلی سرکشوں کی ریشہ دوانیاں خشک گھاس میں تڑتڑ کرتی آگ کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ قتل کرنے کے جدید طریقوں کو آزمانے کا تجربہ انھیں اس دریافت پر ابھارتا رہتا کہ کس طریقے میں ان کا دشمن زیادہ تڑپے گا؟ ان کی سفاک آنکھوں کے دھارے آتشِ غضب سے یوں ابھرے ہوئے تھے جیسے کسی بسمل کے پھڑکتے منظر کو عکس بند کرکے آنکھ میں پہن لیا ہو۔ اس عام قتل و غارت، گھر جلانے اور گھاٹیوں سے دھکا دے کر گرانے جیسی تکلیف دہ سزاؤں کے پیچھے ایک گہرا جرم پنہاں تھا اور وہ ان قبائلیوں کے دشمن سکھوں کے زمینی خالصوں پر قبضے تھے۔ یہ جرم تھا یا سرکشوں کے لیے مشقِ ستم کا بہانہ، لیکن کچھ تھا ضرور، جسے چشمِ فلک دیکھ کر بھی گنگ لبوں سے شب و روز کے ورق پلٹی جا رہی تھی۔
ان قبائلی سرکشوں میں مسلمانوں کے ملدیال قبیلے کے لوگ بکثرت جبکہ ہندوؤں کے شودر جو نئے نئے سکھ بنے تھے، اپنی عظمتِ تازہ کے زعم میں ہر جرم کو اپنا انتقام سمجھ کر کر گزرنے میں سکون محسوس کرتے تھے۔ پوری ریاست پونچھ سکھوں کی عمل داری میں تھی، جبکہ مسلمانوں کی حیثیت مساجد اور گھروں تک تھی۔ سماجی اور معاشرتی مسائل سے انھیں نہ سروکار تھا نہ انھیں یہ سروکار ہونا جائز تھا، البتہ قبائلی مسلمان اپنے گم گشتہ وقار کھو جانے اور زمینوں کے یوں بے ربط غصب پر غصے نے پاگل کر دیا تھا۔ آئے دن کوئی سکھ ان کے ہاتھوں درانتی سے ذبح کیا جاتا اور پھر اگر سربرآوردہ شخصیت ہو تو لاش دریائے ماہل کے ماہی گیروں کو ملتی اور اگر غریب مفلس ہو تو کسی کھیت کے پچھلے گوشے میں بے ترتیبی سے پھینکی ہوئی ملتی۔ قتل کی ذمہ داری قبول کرنا نہ کرنا نئے دور کی باتیں ہیں، اور ان کے لیے یہ سب غیر اہم تھا۔ کیوں کہ قتل جیسا ارتکاب پونچھ کی دھرتی پر یا رنجیت سنگھ کی فوج نے کیا تھا یا ملدیال قبائلیوں نے۔ اس کے علاوہ شاید بہت سوں نے قتل کا معنی بھی نہ سمجھا ہو۔
ایک قبائلی جس کا نام سردار زمرد تھا، اپنی ظاہری وجاہت میں کسی قبلِ مسیح کی قسم سے معلوم ہوتا تھا، البتہ خوبروئی اور رعب دونوں کا امتزاج اسے سرداری کے اہل بناتا تھا۔ قبائلیوں کے تمام تر فیصلے اور امور کا کرتا دھرتا وہی تھا۔ اگرچہ اس کے دادا سردار طالب قلندر، کشمیر کے صوفی خانوادے پیر بلبل شاہ قلندر کے سلسلۂ ارادت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے روحانی سلسلے کے ایک گوشہ نشین بزرگ تھے، البتہ ان کے بیٹے اور بعد ازاں پوتے نے اس گھر باشی کو مضرِ صحت سمجھتے ہوئے رنجیت سنگھ کے لشکریوں سے ساز باز کو اچھے مستقبل کی علامت جانا اور پھر ان کے دن پھرتے گئے۔
قبائلی اس کے خاندانی رعب کے قائل تھے، یہی وجہ تھی کہ اس کا فرمان، باوجود یہ کہ وہ سب سرکش تھے، ان سب کے لیے ایک قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ ۱۸۱۹ء کا سن، مارچ کی تڑکتی دھوپ، ہلکی ہوا کی سرگوشیوں میں چار افراد جن کی کمان سردار زمرد کے ہاتھ میں تھی، ایک پہاڑی چٹان کے اوپر بیٹھے راجا پورب سنگھ کی حویلی میں شنیدہ مسلمانوں سے چھینے گئے چاندی کے مٹکوں کے حصول کے بارے میں باتیں کر رہے تھے
”پورب سنگھ کو چاندی کے مٹکوں سے کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے یہ خبر جھوٹی ہو۔ سننے میں آیا ہے کہ رنجیت سنگھ کے لشکری جب پہلے پہل یہاں آئے تھے تو انھوں نے مسلمان گھروں سے خاص طور پر چاندی کے پیالے، بیل جوتنے والے ہل، تلواریں، اور گھوڑوں پر سب سے پہل نظر رکھی تھی۔ شاید یہاں ان مٹکوں کا وجود نہ ہو۔“ سردار زمرد کا دستِ راست سردار فیض الرحمان عرف فیضا متواتر بولتا گیا۔
”فیضے! پورب سنگھ کا ملازم جھوٹ بولے گا؟ تم جانتے ہو کہ سکھوں کا چہرہ دو پرتا ہوتا ہے۔ وہ دکھائی کچھ دیتے ہیں اور ہوتے کچھ ہیں۔“ زمرد نے بات بڑھائی۔
”یعنی کل رات آپ موہری سے واپسی جو غضب ناک تھے، اس کی وجہ یہ تھی؟“ تیسرے ساتھی نے سوال داغا۔
”جی!“ زمرد نے آواز کو گھسیٹتے ہوئے ”جی“ کو طویل کرکے جواب دیا۔
”آگے کیا کرنا ہے؟“ فیضے نے سرگوشی کی تو زمرد نے ہنستے ہوئے کہا:
”آگے وہی جو ضروری ہے۔“ خفيف مسکراہٹ چاروں کے چہروں پر پھیل گئی۔ گویا سب پہلے سے طے تھا مگر دھوپ میں وقت کو دھکیلنے کی غرض سے یہ مختصر مکالمہ ہوا۔ اس سے قبل کہ چاروں وہاں سے اٹھتے، فیضا بول پڑا۔
”سردار جی! وقت تو طے ہوا نہیں۔“
”تم جانتے نہیں ہو کہ ہم وقت ہمیشہ وقوعے سے اتنی دیر قبل طے کرتے ہیں جتنے وقت میں ایک پُولا کاٹا جا سکے۔“ سپاٹ لیکن دوٹوک اطمینان سے بھرپور فیضا اور زمرد ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ فتح سے قبل فتح کی لذت تھی جس کے اثرات ان کے چہرے کی رنگت سے محسوس کیے جا سکتے تھے۔
مارچ کے آخری دنوں میں چاند بھی اونگھنے لگا تھا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ملگجا آسمان سیاہ چادر کی طرح زمین پر اس طرح تَنا ہوا تھا کہ زمین کی دبیز تہہ کی تاریکیاں آسمان کی سیاہ پرتوں کے آگے بہت روشن معلوم ہوتی تھیں۔ سردار زمرد اپنے دو ساتھیوں سمیت مُٹھا جلائے عام راہ داری پر سے ہوتا ہوا ملکوں کی بستی کی طرف ہو لیا۔ موہری اور چھاخل کے علاقے مسلمان قوم کے اعوانوں کے گھروں پر مشتمل تھے۔ چھاخل ایک پوشیدہ لیکن بڑا گاؤں تھا جہاں اکثر آبادی سکھوں کے وجود سے خالی تھی، جبکہ دود دراز کہیں سکھوں کی قبریں تھیں جہاں صرف سال میں دو مرتبہ گھاس کٹائی میں ہی آنکھوں کے سامنے آتی تھیں، ورنہ سارا سال ان کی طرف کسی کو التفات نہ تھا۔ زمرد پرانوں قبروں کے پیچھے ایک چوڑی راہ داری پر ہو گیا جہاں سے چند قدم کے فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں لپٹی ایک خاموش ندی تھی۔ اس کا پانی سالہا سال ایک ہی جتنا رہتا تھا، کیوں کہ ۱۷۸۸ء کے ایک ہلکے زلزلے کے باعث بہت سے چشمے بند ہو گئے تھے جو اس ندی کی تشنہ رگوں کو آبِ خنک بخشتے تھے۔ یہ ندی بالکل خشک نہیں تھی البتہ جانوروں کے پینے کے لیے ایک ٹنڈھ بنائی گئی تھی جہاں پانی اکثر جمع ہوتا رہتا تھا۔ سردار زمرد اور اس کے ساتھیوں نے وہاں کچھ لکڑیاں جمع کیں اور انھیں آگ لگا کر وہاں بیٹھ گئے۔ قریباً بیس منٹ کے بعد انھوں نے ایک کھلے سلور کے برتن میں جلتے کوئلے رکھے اور خاموشی سے بے چراغ ہاتھوں سے پورب سنگھ کے دیوان خانے کی طرف چل پڑے۔ فیضے کی بغل میں اَدھ پُولا گھاس بھی تھی جسے وہ اس سیاہ گودڑی میں لپیٹے ہوئے تھا جو کچھ دیر قبل اس کے کاندھے پر تھی۔ پورب سنگھ کے گھر کچھ ہٹ کر تھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آبادی وہاں کثرت سے تھی اس لیے ان کا وہاں سے گزرنا اگر کسی کو معلوم بھی ہوتا تو اتنی وحشت یا حیرت نہ ہوتی۔
پورب سنگھ کے پچھوال گزرتے ہوئے انھوں نے اپنی سانسیں بھی سینے میں قید کر لی تھیں۔ زمرد سب سے آگے تھا، اس کے پیچھے فیضا، پھر ملک غنی اور آخر پہ فیضے کی بکریاں چرانے والا اس کا دور کا رشتہ دار جو کُل وقتی فیضے کی سنگت میں اس کا معاون و دستِ راست بن چکا تھا۔ یہ ترتیب وار قافلہ پچھوال سے گزرتا ہوا ایک کنارے پر آ کر رُک گیا۔ فیضے نے دیوار ٹٹولی اور اَدھ پُولا گھاس سے دو مٹھی گھاس نکال کر اس پر جلتے کوئلے رکھے اور اسے لپیٹ کر دیوار کے اوپر سے اندر پھینک دیا۔ فوراً بقیہ گھاس پر کوئلے پھینکے اور انھیں سمیٹ کر شعلہ بھڑکنے سے قبل اندر پھینک دیا اور واپسی کے راستے ندی کی بجائے، موہری کی طرف ہو گئے جہاں سے ان کی قیام گاہ تک فاصلہ آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ تھا۔ جتنی دیر میں وہ وہاں سے روپوش ہوئے، پورب سنگھ کا گھر شعلوں کی لپیٹ میں قریباً آدھا جل چکا تھا۔ عام طور پر سکھوں کی حویلیاں بستروں اور ایرانی لباس کے ذخیروں پر مشتمل ہوتے تھے۔ یقینی طور پر یہ دونوں قیمتی چیزیں سب سے پہلے نذرِ آتش ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں چیخ و پکار، اور بھاگم بھاگ میں لگ گیا۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اور حویلی کا سامان اپنے صاحب خانہ سمیت آگ کی موجوں میں بہہ کر اپنے وجود کی نفی کر گیا تھا۔
صبح ہونے تک یہ خبر پورے پونچھ میں پھیل چکی مگر سراغ ملنا ممکن نہ تھا۔ اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیوں کہ پورب سنگھ جیسے خالص مذہبی سکھ سے اگر کسی کی دشمنی ہو سکتی ہے تو وہ کوئی مذہبی مسلمان ہی ہوگا۔ عام طور پر یہی بولی تھی کہ یہ مولوی سرتاج شاہ یا اس سے متاثر کسی شدت پسند کا کام ہو سکتا ہے، لیکن سمجھ دار اور معاملہ فہموں کے دماغ میں قبائلیوں کے علاوہ کسی کا دھیان آنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ گھر جلا دینے جیسا بڑا ارتکاب ایک عام انسان نہیں کر سکتا، چاہے وہ کتنا ہی جوشیلا مذہبی مسلمان ہی کیوں نہ ہو، زیادہ سے زیادہ وہ کسی کو پیچھے سے دھکا کر بَنّے سے گرا سکتا ہے، لیکن گھر جلا دینا؟ اس کے پیچھے ملدیالوں کا ہاتھ ہی نہیں، پورا ملدیال سرکش گروہ ہے۔ اور یہ بات یقینی طور پر مان لی جا چکی تھی۔ البتہ سوال یہ تھا کہ اب جلے ہوئے گھر کی راکھ کو سامنے رکھ نوحہ کرنے سے کیا ہوگا؟ ذمہ داران تک کیسے پہنچا جائے؟ اور اگر ذمہ دار واضح بھی ہیں تو کیا ایسا کیا جائے جو منطقی اور نتیجہ خیز ہو۔
پورب سنگھ اکلوتا سکھ نہیں تھا جو چھاخل میں مسلمانوں کے درمیان سانس لے رہا بلکہ راجا ہرگوپال کی تھا، لیکن وہ شریف النفس انسان سینے میں اپنے قبیلے کے نقصان پر سوائے گھٹن کے اور کر بھی کیا سکتا تھا، اس کے ذہن میں اتنا ضرور آیا کہ مولوی سرتاج شاہ کے نام ایک جھوٹی کہانی بنا کر مشہور کر دی جائے اور سچ یا جھوٹ جلد کوئی منطقی فیصلہ ہو جو اس قصے کی آتشِ گرم کو سرد کرے۔
اس نے اپنے ساتھیوں تک یہ خبر دی کہ مولوی سرتاج شاہ رنجیت سنگھ جی جیسے نجات دہندہ کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ پورب سنگھ کے گھر کو جلانے میں یقیناً یہی ہے۔ ورنہ کوئی ایسا قرینہ نہیں ملتا جو اس کے ذمہ داران تک ہمیں پہنچائے۔
مولوی سرتاج شاہ برادی کا امام مسجد تھا۔ مذہبی علوم سے اس کی وابستگی واجبی نہیں تھی بلکہ وہ باقاعدہ ایران سے اپنے اجداد کے علمی ورثے کی امانت سینے میں رکھ کر رنجیت سنگھ کے قبضۂ کشمیر سے قبل ہی آیا تھا اور آتے ہی اپنی علمیت اور نسبی سیادت کے باعث پونچھ بھر میں مرجعِ خاص و عام بن گیا تھا۔
اپریل کے آغاز کے دن تھے۔ خالصے کی بڑی عید گاہ میں مجمع لگا۔ وہاں مولوی سرتاج شاہ کو کسی مجرم کی طرح نہیں لایا جا سکتا تھا، کیوں کہ آخر اس کا ایک مذہبی سیاق تھا جو مسلمانوں کو جوش دلانے کو کافی تھا۔ اس سے صرف اتنا پوچھا گیا کہ اس واقعے سے اس کا یا کسی دوسرے معلوم فرد کا تعلق تو نہیں؟ جواباً کئی سکھوں کی جانب سے بھی اس کی حمایت ظاہر ہوئی۔ سید سرتاج شاہ اس حمایت کو سازش گمان کرنے لگا۔ اس نے مسلمانوں کے گروہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا:
”بھائیو! میں قرآن قسم لینے کے لیے تیار ہوں۔ میرا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں جہاد کو ضرور اسلام کا رکن کہتا ہوں لیکن تب جب دفاع مقصود ہو۔ میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ چاہیں تو مجھ سے قرآن قسم لیں۔ نہ ماضی میں ایسے کسی واقعے سے میرا تعلق نہ اس پورب سنگھ والے سانحے سے۔ ظلم کافر پر بھی ہو تو وہ ظلم ہے اور انصاف سے منھ موڑنے والا مسلمان بھی ہو تو اس سے ہماری جنگ ہے۔ ہمیں ہمارے شیخ سید رضا حسینی فرمایا کرتے تھے کہ سچ اگر نوکِ نیزہ پہ بھی بولنا پڑے تو بولو، اور جھوٹ اگر باغِ بہشت میں بھی کہنا پڑے تو زبان روک لو۔“ جوش و خروش سے لبریز اس کی یہ وجد آفریں گفتگو اور پھر شیخ سید رضا حسینی کا نام آ جانے سے لوگوں کو اس کی معصومیت اور حق گوئی کا بخوبی ادراک ہو گیا۔ وہ اپنے شیخ کا نام صرف خاص مواقع پر کیا کرتا تھا۔ سال بھر کے خطبوں میں سے چند ہی میں شیخ کا ذکر آتا تھا اور اس وقت مولوی سید سرتاج شاہ کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔ مجمعِ عام کو اس کی باتوں پر یقین تو آ گیا لیکن کاتبِ تقدیر آگے کیا لکھ رہی تھی، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔
مجموع میں سردار زمرد ہی نہیں، قبائلیوں کے دیگر کئی افراد موجود تھے جن کے لیے گاؤں کی پنچایت میں حاضر ہونا نماز میں حاضر ہونے جیسا فرض تھا۔ وہ خاموشی مگر گہری نظروں سے ماحول کا جائزہ بھی لے رہا تھا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہا تھا۔ اس کی نظر بار بار مولوی سرتاج شاہ کی طرف اٹھ رہی تھی حالانکہ اب تقریر ختم ہو چکی تھی اور سکھ سرداروں کی اکثریت چارپائیوں اور پتھر کی سِلوں پر ابھی تک جَم کر بیٹھی تھی۔ شام کے وقت افق نے زردی پھیلائی اور سرد چہروں کی اوٹ میں غم و غصے کے پوشیدہ الاؤ کو مزید ہوا دیتے ہوئے تمام سکھ اٹھ کر اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے۔