دائم جی

محفلین
میرا ناول ”لکیر“ جو کشمیر میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت اور اس کے بعد سے ٢٠٠٠ء تک دو صدیوں کے ثقافتی اور معاشرتی عنوانات کا احاطہ کرتا ہے۔ ذیل میں اسے باب وار درج کرتا ہوں۔غلام مصطفیٰ دائمؔ
 

دائم جی

محفلین
لکیر - باب اول
--------
سفر میں منزل کی بے یقینی راہی کو زندہ رکھتی ہے ورنہ ہر قدم موت کی چابک ہوتا ہے۔ جیتے ہی نہیں، مرے بھی سفر میں ہیں۔ اس میں پڑاؤ نہیں ہے۔ ایک تھوڑا سا وقفہ ہے بس! یعنی برزخ!
--------​

سکوتِ شب کی سماعتوں میں چٹختی ہوئی آوازوں کا ایک شور ٹکرایا۔ فضا میں ارتعاش کی موجیں لہرائیں اور چند ثانیے بعد موتی رام کی عالیشان کوٹھی کے کثیف باغ کے کنارے تین گھڑ سوار سُن بدن کے ساتھ ہلکی رفتار میں چلتے ہوئے آ رُکے۔ گھوڑوں کی ٹاپیں زخمی ہی نہیں، سفر خوردہ بھی تھیں۔ آٹھ راتوں اور سات دنوں کا یہ طویل سفر دو کے لیے قیامت سے کم نہ تھا، البتہ تیسرے کے لیے باوجود تکان کے، ایک ہلکی جھرجھری سے بڑھ کر نہیں تھا۔ وہ موتی رام کا چچیرا بھائی نہال چند تھا۔ اس سے قبل بھی وہ ان راستوں کی آشنائی سے ہم کنار ہو چکا تھا جن پہ اس کے ساتھی پہلی بار چلے تھے۔ نہال چند نے اشارہ کیا اور باغ کے نسبتاً ایک زیادہ گھنے درخت کے پاس تینوں رُکے۔ وہاں کوئی موجود نہیں تھا جو ان کی لگامیں تھام کر انھیں اتارتا۔ بارِ دوشِ کی طرح گھوڑوں کی پیٹھ سے اترتے ساتھ ہی نہال چند نے سرگوشی کی:
”یہاں مسلمانوں کی آنکھ تو آنکھ، سوچ بھی پر نہیں مار سکتی۔ بے خوف ہو کر اندر چلیں گے۔“
اس بات پر تینوں نے بوجھل اور خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ کو گھسیٹتے ہوئے بکھیرا مگر پھر ان کے چہرے پتھر کی طرح سخت اور سِل ہو گئے۔ نہال چند کی ہمرکابی میں آگے بڑھے۔ باغ زیادہ بڑا نہیں تھا، لیکن گھنا بہت تھا۔ گرمی کی راتوں میں مچھروں کی یورش کے باعث انھیں باغ سے گزرنے بلکہ نکلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
آگے ایک پختہ پتھروں کا راستہ تھا جو نیم روشن تھے، شاید راہ داری پر گچ سے لکیریں بنائی گئی تھیں جو رات کو مکڑی کے جالے کی طرح وحشت کی دیوار معلوم ہوتی تھیں۔ وہ وہاں سے ہوتے ہوئے موتی رام کی کوٹھی کے مرکزی دوارے تک پہنچے جہاں انھیں کسی کی حرکت محسوس ہوئی۔ یہ حرکت کسی انسان کی نہیں بلکہ شاید پورا دروازہ ہی حرکت میں تھا۔ غور کرنے پر دکھائی دیا ہوا کہ وہ ایک دیو قامت شخص تھا جو دروازے کے عین مقابل کھڑا، چار گز نیزے کے سہارے جوشیلی آنکھوں سے کھڑا بے خوفی کا مجسمہ معلوم ہوتا تھا۔
نہال چند نے کھنکھارتے ہوئے اس دیوار نما شخص سے اپنا تعارف کروائے بغیر ہی، جوشیلے لہجے میں ”ست سری اکال“ کہا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے سینے پر تھپک دی۔ اس کی متابعت میں باقی دونوں میں ایسا کرنا چاہا مگر نہال چند نے انھیں غصے اور قدرے رعونت سے پیچھے کر دیا۔
چند ثانیے بعد وہ تینوں مرکزی دروازے سے گزر کر موتی رام کی عالی شان کوٹھی کے اندر داخل ہو چکے تھے جو کسی سرکش لیکن ترقی یافتہ قوم کی باقیات معلوم ہوتی تھی۔
یہ محل نما گھر دو منزلہ تھا۔ نہال چند نے چراغوں کی روشنی میں چاروں طرف سرخوشی سے دیکھا۔ اس کے ساتھی حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس وسیع و عریض کوٹھی کے نشیب و فراز میں کھوئے جاتے تھے۔ زینے چڑھتے ہوئے تینوں اوپر چڑھے۔ زینوں کے دونوں جانب خشتی ستونوں پہ چراغوں کی دلکش روشن دار سرسراہٹ پروانوں سے بے نیاز اپنی لَے میں لہک رہی تھی۔ زینے عبور کرکے تینوں ایک بند دروازے پر پہنچے۔ نہال چند جانتا تھا کہ رات کے وقت موتی رام اندر موجود نہیں ہوگا، پھر بھی وہ چونکہ پورے تین سال بعد آیا تھا، شاید وہ محسوس کر رہا تھا کہ احتیاطاً دروازے پہ دستک دے دینی چاہیے۔ اس سے قبل کہ وہ ہاتھ بڑھاتا،زینوں پہ ان کے قدموں کی دستک ہی کفایت کر گئی تھی۔ دروازہ کھلتا گیا اور ایک بڑی مونچھوں والا بغیر پَگ کے شخص نمودار ہوا اور نہال چند کو دیکھتے ہی نہال ہوتے ہوئے اس سے آ ملا۔ وہ موتی رام کو ذاتی ملازم تھا جو رات کو اس کے کمرے کے باہر ہی فرش پر بیٹھا رہتا تھا۔ نہال چند کے ساتھیوں نے یہاں اس تاؤ بھری مونچھوں والے شخص سے ملنے کی غلطی کو دُہرانا مناسب نہ سمجھا اور بوجھل قدموں سے نہال چند کے ساتھ آگے بڑھے۔
دروازے کے سامنے ایک کھلا مربع صحن تھا، جس پر پختہ یمنی خشت کاری سے پھول بنائے گئے تھے۔ چار خوشنما مقطع ستونوں پہ چراغوں کی لَو سے حرکت کرتی ہوئی سیاہ منقشی بیلیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ شاخِ تاک یہیں سے ابھر پڑی ہے۔
صحن کے بالکل درمیان میں ایک طاقچہ تھا جہاں ایک لکڑی کا تختہ تھا۔ اس پر سفید چادر بچھی تھی جس پر دو تصویریں بنی تھیں۔ ایک تو سری کرشن جی کی تھی دوسری رادھکا جی کی۔ دونوں کو نہایت زیبائشی کام کے ذریعے منقش کیا گیا تھا۔
دوسری منزل کی چھت گنبد نما پہل دار تھی، جہاں سے ایک سنہری زنجیر کے ساتھ فانوس لٹکا ہوا تھا۔ فانوس میں چاندی کی رکابیوں کی پیوند کاری کی گئی تھی جن میں چراغ چل رہے تھے۔ ایک خوش آہنگ منظر نہال چند کے لیے بھی نیا تھا، شاید موتی رام نے اسی سال گھر کی اندرونی ساخت میں توجہ دی تھی۔ نہال چند کی اس حیرت پر وہ مونچھوں والا شخص مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ وہ بھی صورتِ حال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ اس نے انھیں ایک کھلے مگر مسقف دریچے کی جانب اشارہ کیا جہاں مہمانوں کے لیے بستر ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔ تینوں کی بجائے، دوسرے دونوں نے تیزی سے آنکھیں پھیریں اور نیند کی لذت کا خیال پورے وجود پر طاری کرکے خوش کن رفتار سے اس جانب چلے۔ اس قبل کہ نہال چند کچھ کہتا، ملازم نے انھیں ایک دوسرے کمرے میں جانے کو کہا جہاں شاید ان کی توقع کے مطابق کچھ بھی نہیں تھا،
نہال چند نے اس کی جانب تشکرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے تینوں کمرے میں داخل ہو گئے۔ کمرے میں چراغ نہیں تھا اور یوں بھی بے در کے کمرے میں چراغ کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیوں کہ مسقف دریچے کے بالکل نزدیک ہی وہ کمرہ تھا اور نصف روشنی اندر تک تقسیم ہوتی ہوئی پورے فرش اور دیواروں پر بچھ رہی تھی۔
وہاں ٹھنڈے فرش پر تینوں نے لیٹنے میں دیر نہ کی اور پھر اگلے ثانیے وہ کمرہ خاموش وجود سے اٹھتی سانسوں سے زیادہ کسی سرگوشی کا بھی متحمل نہ رہا۔ وہ مختصر رات جیسے تیسے اپنے سفر پہ روانہ تھی، مگر سفر ہمیشہ سفر ہوتا ہے، منزل نہیں بنتا۔ سفر اور برزخ کی ایک ہی تعریف ہے۔
لیلیِ شب کے چہرے پہ صبح کا غازہ اترتے ساتھ ہی نہال چند اپنے ساتھیوں سمیت جاگ چکا۔ حسبِ معمول چہرے پہ پانی کے چھینٹے پھینکے، پرت دار پگ کی لپٹیں تہہ کرکے سر پہ باندھیں اور باہر باغ میں پہنچے۔ مسحور کن ہوا کی عطر بیز لہریں ان کے مشامِ جاں کو تازہ تر کر رہی تھیں۔
”جسم میں سانس نہ بھی رہے تو انسان صبح کی ہوا سے زندگی کشید کر سکتا ہے۔ اوپر والے نے اس میں وہ شکتی رکھی ہے کہ اس کی ہلکی تھپک سے دل کی فرحت کے سبھی دروازے کھل جاتے ہیں۔“ نہال چند نے باغ کے ایک گھنے درخت کے جھومتے پتوں کی طرف ساتھیوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”صبح کی ہوا، یہ باغ، شاعرانہ خیالات…… معلوم ہوتا ہے کہ کل کی تھکن اتر چکی ہے۔“ ایک ساتھی جو نہال چند کے پاس ہی کھڑا تھا، مسکراتے ہوئے بولا۔
”جی ہاں! گرو گوبند جی نے بھی یہی بات کہی تھی کہ فطرت کا مطلب زندگی ہوتا ہے۔“ نہال چند نے وضاحت کے انداز میں بات بڑھائی۔ درخت کو ہلکے جھٹکے سے ہلایا اور آگے بڑھ گیا۔
لاہور کی خنک صبح جسم کے مسام میں اترتی ہوئی رُوئیں رُوئیں کو تازہ کر رہی تھی۔ یہ ان کا معمول تھا کہ گاؤں میں صبح سویرے جب مسلمانوں کا مؤذن اذان دیتا، یہ اس کے ساتھ ہی جاگ جاتے اور”شری آدی گرنتھ“ کی پہلی حمد ”جپ جی“ سے شروع ہو کر جتنا سہولت سے ممکن ہو سکا، پڑھتے اور بعد ازاں صبح کو بابرکت بنانے کے لیے ”ایک اُونکار“ کا وظیفہ بھی جپتے۔
باغ کی رنگینی پہ اب آسمان کی سفیدی اور سورج کی آمد کے آثار کی بدولت اچھی خاصی صباحت اتر آئی تھی۔ انھوں نے واپس حویلی کی طرف رُخ کیا اور رات قیام گاہی کمرے کے باہر مسقف دریچے میں بیٹھ گئے۔ ان کا حقیقی میزبان لالا موتی رام تھا مگر اس کے ملازم نے ان کے چہرے کی ہوائیاں دیکھتے ہوئے ضروری سمجھا کہ انھیں حقیقتِ حال سے آگاہ کرے۔
”لالا جی ایک ضروری مہم پر روانہ ہیں۔ جلد واپسی ممکن ہے، تاہم آپ کی خدمت خاطر کا مجھ نکمے سے جو ہو سکے، میں کروں گا۔ یہی گُرو جی کا حکم ہے۔“ ملازم نے نہایت لجائیت سے نہال چند کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر عرض کی۔
”میں لالا موتی رام جی کو تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کیسی من بھاتی طبیعت پائی ہے۔ مہمان نوازی ان کی عبادت ہے۔“ نہال چند فخریہ گردن اٹھا کر بولا۔ باقی تینوں ساتھیوں نے بھی اثبات میں گردن کو جنبش دی۔
گھر کے مسقف دریچے سے باہر نظر دوڑائی تو مغربی سمت باغ تھا، جبکہ شمالی طرف کھیت اور کچھ درخت ترتیب سے لگائے گئے تھے۔
گویا تہذیب کی زندگی ہم سے بڑی ہے۔“ نہال چند نے ایک بڑے چھتنار کو دیکھا اور اس کے ساتھ ہی قطار در قطار درختوں کی موزونی اور غالباً پرانی عمر پہ رشک کرتے ہوئے بوکھلا کر کہا۔ اس پر سبھی مسکراہٹ اور سنجیدگی کی ملی جلی کیفیت میں سر ہلانے لگے۔
لالا موتی رام ریاستِ پونچھ کے ایک بڑے قبیلے کا سردار اور ”شوالا دیوان بھگوان داس“ کا مہتمم تھا۔ اس کا والد رنجیت سنگھ کی فوج میں اعلیٰ افسر جو ہانی پت کے معرکے میں زخمی ہوا اور جان دی۔ اس کی وجہ سے خود رنجیت اور پھر اس کے دربار میں لالا موتی رام کی بنی رہی۔ عزت و شہرت تو گھر کی لونڈی تھی، مال و دولت بھی بے پناہ ورثے میں ملا۔ سرداری تو خاندانی پیشہ تھا اور اخلاق و فضائل کی مجسم تصویر تو وہ تھا ہی، منجملہ ان اوصاف کے، اس کا سکّہ پونچھ بھر میں بیٹھا ہوا جس کی وجہ سے سکھوں ہی نہیں، مسلمانوں اور ہندوؤں کی نظروں میں بھی اس کی وقعت و منزلت تھی۔ گاؤں میں قتل کا مقدمہ ہو، باہمی چپقلش کا قضیہ ہو یا تجارتی لین دین میں غیر قانونی امر واقع ہو تو لالا موتی رام کی سرداری میں پنچایت کا انعقاد ہوتا تھا جس میں سرپنچ یہی تھا۔ البتہ مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں کو بھی مشاورت میں شامل رکھا جاتا تھا۔ بین المذاہب معاشرے کی ایک حسین مثال تھی۔ بابا خدا سنگھ اس کے والد تھے جنھیں اپنے جرأت اور نمک حلالی کے عوض لاہور کے نسبتاً کھلے اور وسیع علاقے میں ایک حویلی تحفے میں ملی تھی جہاں اب اس کا بیٹا لالا موتی رام رہ رہا تھا۔
نہال چند دو دن مزید وہاں رہا۔ تیسرے دن شام کے وقت موتی رام کی آمد کی خبریں حویلی میں اس کے قاصد کے ذریعے پہنچیں۔ داروغے نے انھیں مہمانوں کی آمد کی خبر پہلے سے بھیج دی تھی۔ موتی رام نے بھائی کی اچھی خاطر تواضع کا حکم دیا اور خود بھی واپسی کی راہ لی۔ وہ جان چکا تھا کہ یقیناً گاؤں میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس کے لیے اسے تین دن کا طویل سفر کرکے وہاں اس قضیے کو حل کرنا ہے۔ اس کی زندگی انھی معاملات میں فیصلے کرتی گزری تھی۔ تیسرے دن کا سورج سرخی میں چھپ چکا تھا۔ نصف چاند کی روشنی بدرِ کامل کی کمی تو محسوس کروا رہی تھی مگر اندھیرے سے لڑنے والوں کے لیے اس کرن کی مانند تھی جو سرد رُت میں سورج کی آمد کا پیغام لاتی ہے۔ رات اپنے پہلے پڑاؤ پر تھی کہ حویلی میں موتی رام بمع چند محافظوں اور شمع بردار راہیوں کے آ وارد ہوا۔ یہ آمد اگرچہ غیر متوقع نہیں تھی مگر اس آن بان کا مقصد شاید بھائی کی بھائی سے عرصہ تین سال بعد کی ملاقات تھی۔ رات کا دوسرا پڑاؤ دونوں بھائیوں کی میل ملاقات میں گزرا۔ مہمان نوازیوں کا ایک نامختتم سلسلہ پھر سے شروع ہوا۔ دسترخوان پر نانِ سنکک، خاگینہ، پن بہتّا، کچوری، قبولی، دیسی گھی، گلگلا اور شربتِ شِیر اس ترتیب سے سجایا گیا کہ سیر طبع بھی بھوک کے احساس سے تڑپنے لگیں۔ موتی رام نے نہال چند کو ایرانی چارقب تحفے میں دیا۔ ابتدائی اور رسمی حال احوال کے بعد مدعاے اصلی پر آنا ضروری سمجھا۔ محافظوں نے موتی رام کا اشارہ پاتے ہی نہال چند کے ساتھیوں کو دوسرے کمرے تک پہنچایا اور ان دونوں کو تنہا چھوڑ کر دروازے کے باہر ہو لیے۔
”جی نہال! تمھاری اس طویل عرصے کی غیر حاضری کی تمھیں کیا سزا دوں؟“ موتی رام تقریباً قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
”میرے گُرو ہیں آپ! جو سزا مناسبِ حال ہو، جاری فرمائیں۔ البتہ میری سزا کا معاملہ بعد میں اٹھا رکھیے، مجھ سے قبل بھی ایک سزا کا فیصلہ آپ کا منتظر ہے۔“ نہال چند نے آواز کو بلندی سے پستی کی طرف دھکیلتے ہوئے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
”خیر ہے نہال؟ قبائلیوں نے پھر کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے؟ انھیں شاید میرے قہر و غضب کا اندازہ نہیں ہے۔“ موتی رام کی آواز کرخت ہو گئی۔
نہال چند نے راجا پورب سنگھ کی حویلی کے جلنے کا واقعہ اول تا آخر سنایا۔
دوسرے دن موتی رام نے اپنے اصطبل سے بہترین گھوڑے تیار کروائے۔ قریباً دن چڑھے ہی وہ کشمیر کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ اس مختصر قافلے میں دو محافظ، ایک طبیب اور دو تلوار بازوں سمیت یہ دونوں بھائی اور تین دوسرے اشخاص تھے۔ پہلا دن ہلکی رفتار میں چلتے ہوئے گزرا۔
شام کو ایک سرائے کی تلاش میں محافظوں کو دوڑایا گیا۔ تین میل کے فاصلے پر ایک سرائے کا سراغ معلوم ہوا۔ یہ دس رکنی قافلہ سرائے میں شب گزاری کے لیے وہاں کا نگران حکیم صابر حسین گویا سرائے اور مطلب دونوں کا انتظام چلاتا تھا اور دین و مذہب کی تخصیص کے برخلاف فی سبیل اللہ مسافروں کو قیام و طعام کی سہولیات بھی فراہم کرتا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی سرائے میں بیسیوں مرتبہ لٹیروں کے قافلوں نے لوٹ کھایا اور مطب کا نقصان کیا، پھر بھی وہ نیک نیتی سے اپنے امور کی انجام دہی میں مگن تھا۔ دس افراد کے قیام کا مسئلہ تو یکلخت حل ہوا، البتہ کھانے کے سلسلے میں حکیم صاحب کو تکلف نہ کرنا پڑا، کیوں کہ بھنے ہوئے میدے سے بنی لاہوری باقر خانی اور ضروری پھل وغیرہ ان لوگوں نے ساتھ رکھ لیے تھے۔ رسمی تعارف اور اجازت کے بعد موتی رام نے اس سے پوچھا:
”آپ ایک سرائے کے منتظم بھی ہیں اور مطب کے مہتمم بھی۔ آپ اکیلے یہ سب کرتے ہیں؟“ موتی رام کی گفتگو میں دلچسپی تو تھی سہی، ایسا مناسبِ حال سوال کرنے پر حکیم کی توجہ مکمل طور پر اپنی جانب کر لی۔
”سردار جی! اللہ میاں نے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ مجھے دیتا ہے اور ان کی مخلوق میں تقسیم کر دیتا ہوں۔ میرا بیٹا بھی ہے، وہ جامعہ میں پڑھتا ہے۔اس کے استاد مولوی جی نے اسے کہا تھا کہ یہ پرانی سرائے جو سلطان ہمایوں نے بنوائی تھی، یہ غیر آباد ہو چکی ہے، اسے دوبارہ آباد کرنا ضروری ہے۔ اور اس سلسلے میں مولوی جی مہینے بھر کی مکئی بھیج دیتے ہیں اور پھر سرائے کی پچھلی طرف کھیتی میری محنت اور مولا کے کرم سے سبزیاں پیدا کرتی ہے۔ اور اس سبزی کو ابال کر مجھ سے جتنا ہو سکتا ہے، میں خدمت کے لیے حاضر ہوں۔“ حکیم صابر حسین نے مختصراً پوری تاریخ دہرا دی۔
”ہم صرف ایک رات کا قیام کریں گے۔ صبح سویرے ہمیں نکلنا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کی حفاظت ہو سکے گی؟ یا میں محافظوں سے ہی کہہ دوں؟“ موتی رام کے استفسار میں نرمی اور کرختی کی ملی جلی کیفیت تھی۔
”آپ محافظوں سے کہیں تو بہتر ہے، کیوں کہ میرے پاس کوئی الگ سے اصطبل یا محافظ نہیں ہے۔“ حکیم صابر نے جھوٹی ہمدردی کی بجائے سچے توکل کی طرف اشارہ کر دیا۔
رات سرد تھی مگر پرانے بوریے کی موٹی اور گرم دریوں کی وجہ سے مہمانوں نے سکون بھری نیند کی وادی سے گزر کر ساحلِ صبح سے ہم کناری کی۔ ابھی اڑھائی سے تین دن کا سفر باقی تھا۔ جانوروں کو زیادہ تھکانا بھی غیر عقلی بات تھی، اس لیے دن کے آغاز میں گھوڑوں کو خوب سرپٹ دوڑایا گیا جبکہ نصف النہار کے بعد انھیں معمولی رفتار پہ چلاتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ اس روز بھی وہی حُسنِ ترتیب باقی تھی جو پچھلے دن تھی۔ سب سے آگے موتی رام اور اس کے بائیں جانب نہال چند، ان سے پیچھے ان کا طبیب، پھر محافظ اور آخر پہ نہال چند کے گاؤں سے آئے ساتھی تھے۔ دوسرے دن کی مغرب انھیں ایک دیہاتی بازار کے داخل ہوتے ہی طلوع ہوئی۔ موتی رام نے سامان باندھ کر گھروں کو جانے کی تیاریوں میں مصروف بائعوں سے پوچھا:
”یہاں قریب کوئی سرائے ہے؟ جہاں ہم رات بسر کر سکیں۔ دو دن سے مسافر ہیں۔ کھانے پینے کے لیے سامان ہمارے ساتھ ہیں، البتہ صرف شب گزاری کے لیے ایک عدد مختصر اور گرم رہائش گاہ کی ضرورت ہے۔“ موتی رام کی آواز میں لجائیت نہیں خود داری کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ بھلا ایسے کون شانِ بے نیازی سے کسی سے قیام گاہ کا سوال کرتا ہے؟ نیتجہ یہی نکلا کہ انھیں وہاں رہائش نہ مل سکی اور مجبوراً وہ نیم روشن اندھیرے میں چلتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں داخل ہو گئے۔
جنگل تھا کہ شیطان کی آنت، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مختلف جانوروں کا خوف تو رہتا ہی ہے، لیکن رات کو یہ ڈر اس وجہ سے بھی زیادہ تھا کہ اول تو ان کی رفتار آہستہ، دوسرا یہ کہ یہ اس رات لیلیِ فلک کی چاندنی بھی گہنائی ہوئی تھی۔ موتی رام کو ایک غار کا دھانا دکھائی دیا جو کچھ ہی فاصلے پر تھا مگر بہت چھوٹا معلوم پڑتا تھا۔ قریب پہنچ کر سب نے محسوس کیا کہ یہاں دس نہیں پچاس بندوں کے رہنے جتنی بھی موجود ہے۔ ”واہے گرُو“ کے الفاظ سب نے بیک زبان بولے اور جلد گھوڑوں سے اتر کر اندر کی جانب ہو لیے۔ ایک مشعل جلائی گئی تاکہ کوئی جانور آ جائے تو اسے ڈرایا بھی جا سکے اور روشنی کا انتظام بھی ہو۔
رات جوں توں کرکے کٹی۔ اس رات موتی رام اور نہال چند دونوں نے باقیوں کو سونے اور خود جاگنے کی صلاح دی۔ ابتدائی پس و پیش کے بعد سب نے اسے بہتر خیال تصور کیا اور سکون آور غار کے اندرونی آغوش میں سو گئے۔ صبح کے آثار ابھی نمودار ہی ہوئے تھے کہ نہال چند نے سب کو جگانا مناسب سمجھا۔ کیوں کہ جتنا جلد ممکن ہو سکتا تھا، انھیں اس جنگل سے باہر نکلنا تھا۔ یہ سفر مشکلات سے بھرپور بھی تھا اور کسی خطرناک جانور سے آمنا سامنا ہونے کا اندیشہ بھی متواتر رہتا تھا۔ خود نہال چند جب لاہور کے لیے گھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلا تھا تو اسے راہ میں بیس بائیس گیدڑوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ تو بھلا ہوا کہ ان کے گھوڑوں نے دو لتّی کے ذریعے ایک گیڈر کو سخت چوٹ دی جس سے باقیوں کو بھی فرار ہونے میں عافیت محسوس ہوئی۔ وہ سبھی جانتے تھے کہ اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا نہایت معمولی بات ہے۔ ہر مسافر کو ان خطرات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
صبح کی صباحت اب سورج کی زرد شعلہ آور کرنوں میں بدل چکی تھی اور ان کا قافلہ ابھی تک جنگل میں سے گزر رہا تھا۔ بلند بالا سریں کے درختوں کا یہ دبیز جنگل کبھی ختم نہ ہوتا اگر وہ اپنا رخ افقی سمت کی بجائے عمودی طرف نہ موڑتے۔
عمودی سمت چند کلومیٹر کے بعد اب وہ ایک چٹیل میدان نما پہاڑ کی چوٹی پر سے گزر رہے تھے اور دھوپ کی تپتی چادر اوڑھے کچھ دیر ہلکی رفتار سے چلنے کے بعد سِلوں سے بھری بیٹھکیں دیکھ کر رُکے اور وہاں کچھ دیر سستانا مناسب جانا۔
یہ کوہالہ کی پہاڑی تھی۔ صدیوں قبل یہاں ہندو کوہالہ دیوی کی پوجا کرتے تھے اور دریائے جہلم میں اشنان ہوتا تھا۔ لیکن ۱۸۱۴ء میں ملکہ سنگھ کے قبضۂ کوہالہ کے بعد یہاں سکھوں کی آبادیاں بکثرت بڑھ گئی تھیں اور ہندو تاجروں کی منڈیاں اہم ترین تجارتی مراکز تھے۔
انھیں جنگلی علاقہ عبور کرنے کے بعد ایک آبادی کے علاقے سے گزرنا ہوا۔ دریائے جہلم کے ساحلی گاؤں میں بڑے بڑے بازار کی موجودگی اس کی تازہ دریافت تھی۔ یہ قافلہ حیرت اور کشش کی امتزاج کیفیت میں پورے بازار کا چکر لگایا۔ کچھ تازہ پھل خریدے اور پانی سے مشکیں بھر کرکے گھوڑوں کو سرپٹ دوڑا دیا۔
لاہور کے سکھ اکثریت علاقوں میں موتی رام کا ذکر اگرچہ سکھا شاہی خاندان کے فوجی سربراہوں کے خاندان میں ہونے کی وجہ سے عزت سے کیا جاتا تھا لیکن یہاں اسے نہ کسی نے پہچانا نہ نام سن کر کسی حیرت اور خوش گواری کا اظہار کیا۔
”اس اکال مورت کی کی وسیع دنیا میں موتی رام کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔“ موتی رام سے خود پر طنزیہ ہنستے ہوئے خود کلامی میں کہا۔
تیسرے دن کی شام انھیں پونچھ کے ایک چھوٹے قصبے وادیِ دیگواڑ میں ہوئی جہاں انھیں نالہ بیتاڑ کی ٹھنڈک کا اثر پورے ماحول میں محسوس ہوا۔ ایک سکھ گھرانے میں بطورِ مہمان اترے جنھوں نے رنجیت سنگھ کے لشکری خاندان کی رعایت سے ان کی بھرپور خدمت بجا لائی۔ مکئی کی روٹی، پونچھ کی خاص سوغات چاول کا حلوہ اور دیسی گھی وغیرہ سے مہمانوں کی خاطر تواضع کی گئی۔ شب پرسکون گزری اور اس پورے سفر کے چوتھے دن سورج ڈھلنے سے چند ثانیے قبل یہ قافلہ نہال چند کی کوٹھی پر پہنچ چکا۔ وہ سینچر کی نسبتاً ٹھنڈی شام تھی۔ مسافروں کی تکان اور دکھتے بدن نے نیند کو آواز لگانے میں زیادہ تاخیر نہ کی۔ رات اپنی تمام تر سکون آفرینیوں کے ساتھ ان پر یوں چھا گئی جیسے معصوم بچے کو دیر تک رونے کے بعد ماں کی گرم آغوش مل گئی ہو۔​
 

دائم جی

محفلین
لکیر - باب دوم
--------
نفس عیاری پہ اترے تو سروں کی کھیتی کٹتے دیر نہیں لگتی۔ لہو کے سیلاب اسے سیراب کرتے ہیں اور فریب کی بادِ صرصر کھولتے خون کے لاوے پر پھونکیں مار مار کر اسے مزید دہکاتی رہتی ہے۔ قاتل ہو یا مقتول، دونوں انسان ہی ہوتے ہیں۔ ہاں! قابیل اور ہابیل تو ہر نسل کی تاریخ کی شہ سرخی ہوتے ہیں۔
--------​

قبائلی سرکشوں کی ریشہ دوانیاں خشک گھاس میں تڑتڑ کرتی آگ کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ قتل کرنے کے جدید طریقوں کو آزمانے کا تجربہ انھیں اس دریافت پر ابھارتا رہتا کہ کس طریقے میں ان کا دشمن زیادہ تڑپے گا؟ ان کی سفاک آنکھوں کے دھارے آتشِ غضب سے یوں ابھرے ہوئے تھے جیسے کسی بسمل کے پھڑکتے منظر کو عکس بند کرکے آنکھ میں پہن لیا ہو۔ اس عام قتل و غارت، گھر جلانے اور گھاٹیوں سے دھکا دے کر گرانے جیسی تکلیف دہ سزاؤں کے پیچھے ایک گہرا جرم پنہاں تھا اور وہ ان قبائلیوں کے دشمن سکھوں کے زمینی خالصوں پر قبضے تھے۔ یہ جرم تھا یا سرکشوں کے لیے مشقِ ستم کا بہانہ، لیکن کچھ تھا ضرور، جسے چشمِ فلک دیکھ کر بھی گنگ لبوں سے شب و روز کے ورق پلٹی جا رہی تھی۔
قبائلی سرکشوں کی ریشہ دوانیاں خشک گھاس میں تڑتڑ کرتی آگ کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ قتل کرنے کے جدید طریقوں کو آزمانے کا تجربہ انھیں اس دریافت پر ابھارتا رہتا کہ کس طریقے میں ان کا دشمن زیادہ تڑپے گا؟ ان کی سفاک آنکھوں کے دھارے آتشِ غضب سے یوں ابھرے ہوئے تھے جیسے کسی بسمل کے پھڑکتے منظر کو عکس بند کرکے آنکھ میں پہن لیا ہو۔ اس عام قتل و غارت، گھر جلانے اور گھاٹیوں سے دھکا دے کر گرانے جیسی تکلیف دہ سزاؤں کے پیچھے ایک گہرا جرم پنہاں تھا اور وہ ان قبائلیوں کے دشمن سکھوں کے زمینی خالصوں پر قبضے تھے۔ یہ جرم تھا یا سرکشوں کے لیے مشقِ ستم کا بہانہ، لیکن کچھ تھا ضرور، جسے چشمِ فلک دیکھ کر بھی گنگ لبوں سے شب و روز کے ورق پلٹی جا رہی تھی۔
ان قبائلی سرکشوں میں مسلمانوں کے ملدیال قبیلے کے لوگ بکثرت جبکہ ہندوؤں کے شودر جو نئے نئے سکھ بنے تھے، اپنی عظمتِ تازہ کے زعم میں ہر جرم کو اپنا انتقام سمجھ کر کر گزرنے میں سکون محسوس کرتے تھے۔ پوری ریاست پونچھ سکھوں کی عمل داری میں تھی، جبکہ مسلمانوں کی حیثیت مساجد اور گھروں تک تھی۔ سماجی اور معاشرتی مسائل سے انھیں نہ سروکار تھا نہ انھیں یہ سروکار ہونا جائز تھا، البتہ قبائلی مسلمان اپنے گم گشتہ وقار کھو جانے اور زمینوں کے یوں بے ربط غصب پر غصے نے پاگل کر دیا تھا۔ آئے دن کوئی سکھ ان کے ہاتھوں درانتی سے ذبح کیا جاتا اور پھر اگر سربرآوردہ شخصیت ہو تو لاش دریائے ماہل کے ماہی گیروں کو ملتی اور اگر غریب مفلس ہو تو کسی کھیت کے پچھلے گوشے میں بے ترتیبی سے پھینکی ہوئی ملتی۔ قتل کی ذمہ داری قبول کرنا نہ کرنا نئے دور کی باتیں ہیں، اور ان کے لیے یہ سب غیر اہم تھا۔ کیوں کہ قتل جیسا ارتکاب پونچھ کی دھرتی پر یا رنجیت سنگھ کی فوج نے کیا تھا یا ملدیال قبائلیوں نے۔ اس کے علاوہ شاید بہت سوں نے قتل کا معنی بھی نہ سمجھا ہو۔
ایک قبائلی جس کا نام سردار زمرد تھا، اپنی ظاہری وجاہت میں کسی قبلِ مسیح کی قسم سے معلوم ہوتا تھا، البتہ خوبروئی اور رعب دونوں کا امتزاج اسے سرداری کے اہل بناتا تھا۔ قبائلیوں کے تمام تر فیصلے اور امور کا کرتا دھرتا وہی تھا۔ اگرچہ اس کے دادا سردار طالب قلندر، کشمیر کے صوفی خانوادے پیر بلبل شاہ قلندر کے سلسلۂ ارادت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے روحانی سلسلے کے ایک گوشہ نشین بزرگ تھے، البتہ ان کے بیٹے اور بعد ازاں پوتے نے اس گھر باشی کو مضرِ صحت سمجھتے ہوئے رنجیت سنگھ کے لشکریوں سے ساز باز کو اچھے مستقبل کی علامت جانا اور پھر ان کے دن پھرتے گئے۔
قبائلی اس کے خاندانی رعب کے قائل تھے، یہی وجہ تھی کہ اس کا فرمان، باوجود یہ کہ وہ سب سرکش تھے، ان سب کے لیے ایک قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ ۱۸۱۹ء کا سن، مارچ کی تڑکتی دھوپ، ہلکی ہوا کی سرگوشیوں میں چار افراد جن کی کمان سردار زمرد کے ہاتھ میں تھی، ایک پہاڑی چٹان کے اوپر بیٹھے راجا پورب سنگھ کی حویلی میں شنیدہ مسلمانوں سے چھینے گئے چاندی کے مٹکوں کے حصول کے بارے میں باتیں کر رہے تھے
”پورب سنگھ کو چاندی کے مٹکوں سے کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے یہ خبر جھوٹی ہو۔ سننے میں آیا ہے کہ رنجیت سنگھ کے لشکری جب پہلے پہل یہاں آئے تھے تو انھوں نے مسلمان گھروں سے خاص طور پر چاندی کے پیالے، بیل جوتنے والے ہل، تلواریں، اور گھوڑوں پر سب سے پہل نظر رکھی تھی۔ شاید یہاں ان مٹکوں کا وجود نہ ہو۔“ سردار زمرد کا دستِ راست سردار فیض الرحمان عرف فیضا متواتر بولتا گیا۔
”فیضے! پورب سنگھ کا ملازم جھوٹ بولے گا؟ تم جانتے ہو کہ سکھوں کا چہرہ دو پرتا ہوتا ہے۔ وہ دکھائی کچھ دیتے ہیں اور ہوتے کچھ ہیں۔“ زمرد نے بات بڑھائی۔
”یعنی کل رات آپ موہری سے واپسی جو غضب ناک تھے، اس کی وجہ یہ تھی؟“ تیسرے ساتھی نے سوال داغا۔
”جی!“ زمرد نے آواز کو گھسیٹتے ہوئے ”جی“ کو طویل کرکے جواب دیا۔
”آگے کیا کرنا ہے؟“ فیضے نے سرگوشی کی تو زمرد نے ہنستے ہوئے کہا:
”آگے وہی جو ضروری ہے۔“ خفيف مسکراہٹ چاروں کے چہروں پر پھیل گئی۔ گویا سب پہلے سے طے تھا مگر دھوپ میں وقت کو دھکیلنے کی غرض سے یہ مختصر مکالمہ ہوا۔ اس سے قبل کہ چاروں وہاں سے اٹھتے، فیضا بول پڑا۔
”سردار جی! وقت تو طے ہوا نہیں۔“
”تم جانتے نہیں ہو کہ ہم وقت ہمیشہ وقوعے سے اتنی دیر قبل طے کرتے ہیں جتنے وقت میں ایک پُولا کاٹا جا سکے۔“ سپاٹ لیکن دوٹوک اطمینان سے بھرپور فیضا اور زمرد ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ فتح سے قبل فتح کی لذت تھی جس کے اثرات ان کے چہرے کی رنگت سے محسوس کیے جا سکتے تھے۔
مارچ کے آخری دنوں میں چاند بھی اونگھنے لگا تھا۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ملگجا آسمان سیاہ چادر کی طرح زمین پر اس طرح تَنا ہوا تھا کہ زمین کی دبیز تہہ کی تاریکیاں آسمان کی سیاہ پرتوں کے آگے بہت روشن معلوم ہوتی تھیں۔ سردار زمرد اپنے دو ساتھیوں سمیت مُٹھا جلائے عام راہ داری پر سے ہوتا ہوا ملکوں کی بستی کی طرف ہو لیا۔ موہری اور چھاخل کے علاقے مسلمان قوم کے اعوانوں کے گھروں پر مشتمل تھے۔ چھاخل ایک پوشیدہ لیکن بڑا گاؤں تھا جہاں اکثر آبادی سکھوں کے وجود سے خالی تھی، جبکہ دود دراز کہیں سکھوں کی قبریں تھیں جہاں صرف سال میں دو مرتبہ گھاس کٹائی میں ہی آنکھوں کے سامنے آتی تھیں، ورنہ سارا سال ان کی طرف کسی کو التفات نہ تھا۔ زمرد پرانوں قبروں کے پیچھے ایک چوڑی راہ داری پر ہو گیا جہاں سے چند قدم کے فاصلے پر گھنی جھاڑیوں میں لپٹی ایک خاموش ندی تھی۔ اس کا پانی سالہا سال ایک ہی جتنا رہتا تھا، کیوں کہ ۱۷۸۸ء کے ایک ہلکے زلزلے کے باعث بہت سے چشمے بند ہو گئے تھے جو اس ندی کی تشنہ رگوں کو آبِ خنک بخشتے تھے۔ یہ ندی بالکل خشک نہیں تھی البتہ جانوروں کے پینے کے لیے ایک ٹنڈھ بنائی گئی تھی جہاں پانی اکثر جمع ہوتا رہتا تھا۔ سردار زمرد اور اس کے ساتھیوں نے وہاں کچھ لکڑیاں جمع کیں اور انھیں آگ لگا کر وہاں بیٹھ گئے۔ قریباً بیس منٹ کے بعد انھوں نے ایک کھلے سلور کے برتن میں جلتے کوئلے رکھے اور خاموشی سے بے چراغ ہاتھوں سے پورب سنگھ کے دیوان خانے کی طرف چل پڑے۔ فیضے کی بغل میں اَدھ پُولا گھاس بھی تھی جسے وہ اس سیاہ گودڑی میں لپیٹے ہوئے تھا جو کچھ دیر قبل اس کے کاندھے پر تھی۔ پورب سنگھ کے گھر کچھ ہٹ کر تھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آبادی وہاں کثرت سے تھی اس لیے ان کا وہاں سے گزرنا اگر کسی کو معلوم بھی ہوتا تو اتنی وحشت یا حیرت نہ ہوتی۔
پورب سنگھ کے پچھوال گزرتے ہوئے انھوں نے اپنی سانسیں بھی سینے میں قید کر لی تھیں۔ زمرد سب سے آگے تھا، اس کے پیچھے فیضا، پھر ملک غنی اور آخر پہ فیضے کی بکریاں چرانے والا اس کا دور کا رشتہ دار جو کُل وقتی فیضے کی سنگت میں اس کا معاون و دستِ راست بن چکا تھا۔ یہ ترتیب وار قافلہ پچھوال سے گزرتا ہوا ایک کنارے پر آ کر رُک گیا۔ فیضے نے دیوار ٹٹولی اور اَدھ پُولا گھاس سے دو مٹھی گھاس نکال کر اس پر جلتے کوئلے رکھے اور اسے لپیٹ کر دیوار کے اوپر سے اندر پھینک دیا۔ فوراً بقیہ گھاس پر کوئلے پھینکے اور انھیں سمیٹ کر شعلہ بھڑکنے سے قبل اندر پھینک دیا اور واپسی کے راستے ندی کی بجائے، موہری کی طرف ہو گئے جہاں سے ان کی قیام گاہ تک فاصلہ آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ تھا۔ جتنی دیر میں وہ وہاں سے روپوش ہوئے، پورب سنگھ کا گھر شعلوں کی لپیٹ میں قریباً آدھا جل چکا تھا۔ عام طور پر سکھوں کی حویلیاں بستروں اور ایرانی لباس کے ذخیروں پر مشتمل ہوتے تھے۔ یقینی طور پر یہ دونوں قیمتی چیزیں سب سے پہلے نذرِ آتش ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں چیخ و پکار، اور بھاگم بھاگ میں لگ گیا۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اور حویلی کا سامان اپنے صاحب خانہ سمیت آگ کی موجوں میں بہہ کر اپنے وجود کی نفی کر گیا تھا۔
صبح ہونے تک یہ خبر پورے پونچھ میں پھیل چکی مگر سراغ ملنا ممکن نہ تھا۔ اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیوں کہ پورب سنگھ جیسے خالص مذہبی سکھ سے اگر کسی کی دشمنی ہو سکتی ہے تو وہ کوئی مذہبی مسلمان ہی ہوگا۔ عام طور پر یہی بولی تھی کہ یہ مولوی سرتاج شاہ یا اس سے متاثر کسی شدت پسند کا کام ہو سکتا ہے، لیکن سمجھ دار اور معاملہ فہموں کے دماغ میں قبائلیوں کے علاوہ کسی کا دھیان آنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ گھر جلا دینے جیسا بڑا ارتکاب ایک عام انسان نہیں کر سکتا، چاہے وہ کتنا ہی جوشیلا مذہبی مسلمان ہی کیوں نہ ہو، زیادہ سے زیادہ وہ کسی کو پیچھے سے دھکا کر بَنّے سے گرا سکتا ہے، لیکن گھر جلا دینا؟ اس کے پیچھے ملدیالوں کا ہاتھ ہی نہیں، پورا ملدیال سرکش گروہ ہے۔ اور یہ بات یقینی طور پر مان لی جا چکی تھی۔ البتہ سوال یہ تھا کہ اب جلے ہوئے گھر کی راکھ کو سامنے رکھ نوحہ کرنے سے کیا ہوگا؟ ذمہ داران تک کیسے پہنچا جائے؟ اور اگر ذمہ دار واضح بھی ہیں تو کیا ایسا کیا جائے جو منطقی اور نتیجہ خیز ہو۔
پورب سنگھ اکلوتا سکھ نہیں تھا جو چھاخل میں مسلمانوں کے درمیان سانس لے رہا بلکہ راجا ہرگوپال کی تھا، لیکن وہ شریف النفس انسان سینے میں اپنے قبیلے کے نقصان پر سوائے گھٹن کے اور کر بھی کیا سکتا تھا، اس کے ذہن میں اتنا ضرور آیا کہ مولوی سرتاج شاہ کے نام ایک جھوٹی کہانی بنا کر مشہور کر دی جائے اور سچ یا جھوٹ جلد کوئی منطقی فیصلہ ہو جو اس قصے کی آتشِ گرم کو سرد کرے۔
اس نے اپنے ساتھیوں تک یہ خبر دی کہ مولوی سرتاج شاہ رنجیت سنگھ جی جیسے نجات دہندہ کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ پورب سنگھ کے گھر کو جلانے میں یقیناً یہی ہے۔ ورنہ کوئی ایسا قرینہ نہیں ملتا جو اس کے ذمہ داران تک ہمیں پہنچائے۔
مولوی سرتاج شاہ برادی کا امام مسجد تھا۔ مذہبی علوم سے اس کی وابستگی واجبی نہیں تھی بلکہ وہ باقاعدہ ایران سے اپنے اجداد کے علمی ورثے کی امانت سینے میں رکھ کر رنجیت سنگھ کے قبضۂ کشمیر سے قبل ہی آیا تھا اور آتے ہی اپنی علمیت اور نسبی سیادت کے باعث پونچھ بھر میں مرجعِ خاص و عام بن گیا تھا۔
اپریل کے آغاز کے دن تھے۔ خالصے کی بڑی عید گاہ میں مجمع لگا۔ وہاں مولوی سرتاج شاہ کو کسی مجرم کی طرح نہیں لایا جا سکتا تھا، کیوں کہ آخر اس کا ایک مذہبی سیاق تھا جو مسلمانوں کو جوش دلانے کو کافی تھا۔ اس سے صرف اتنا پوچھا گیا کہ اس واقعے سے اس کا یا کسی دوسرے معلوم فرد کا تعلق تو نہیں؟ جواباً کئی سکھوں کی جانب سے بھی اس کی حمایت ظاہر ہوئی۔ سید سرتاج شاہ اس حمایت کو سازش گمان کرنے لگا۔ اس نے مسلمانوں کے گروہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا:
”بھائیو! میں قرآن قسم لینے کے لیے تیار ہوں۔ میرا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں جہاد کو ضرور اسلام کا رکن کہتا ہوں لیکن تب جب دفاع مقصود ہو۔ میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ چاہیں تو مجھ سے قرآن قسم لیں۔ نہ ماضی میں ایسے کسی واقعے سے میرا تعلق نہ اس پورب سنگھ والے سانحے سے۔ ظلم کافر پر بھی ہو تو وہ ظلم ہے اور انصاف سے منھ موڑنے والا مسلمان بھی ہو تو اس سے ہماری جنگ ہے۔ ہمیں ہمارے شیخ سید رضا حسینی فرمایا کرتے تھے کہ سچ اگر نوکِ نیزہ پہ بھی بولنا پڑے تو بولو، اور جھوٹ اگر باغِ بہشت میں بھی کہنا پڑے تو زبان روک لو۔“ جوش و خروش سے لبریز اس کی یہ وجد آفریں گفتگو اور پھر شیخ سید رضا حسینی کا نام آ جانے سے لوگوں کو اس کی معصومیت اور حق گوئی کا بخوبی ادراک ہو گیا۔ وہ اپنے شیخ کا نام صرف خاص مواقع پر کیا کرتا تھا۔ سال بھر کے خطبوں میں سے چند ہی میں شیخ کا ذکر آتا تھا اور اس وقت مولوی سید سرتاج شاہ کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔ مجمعِ عام کو اس کی باتوں پر یقین تو آ گیا لیکن کاتبِ تقدیر آگے کیا لکھ رہی تھی، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔
مجموع میں سردار زمرد ہی نہیں، قبائلیوں کے دیگر کئی افراد موجود تھے جن کے لیے گاؤں کی پنچایت میں حاضر ہونا نماز میں حاضر ہونے جیسا فرض تھا۔ وہ خاموشی مگر گہری نظروں سے ماحول کا جائزہ بھی لے رہا تھا اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کر رہا تھا۔ اس کی نظر بار بار مولوی سرتاج شاہ کی طرف اٹھ رہی تھی حالانکہ اب تقریر ختم ہو چکی تھی اور سکھ سرداروں کی اکثریت چارپائیوں اور پتھر کی سِلوں پر ابھی تک جَم کر بیٹھی تھی۔ شام کے وقت افق نے زردی پھیلائی اور سرد چہروں کی اوٹ میں غم و غصے کے پوشیدہ الاؤ کو مزید ہوا دیتے ہوئے تمام سکھ اٹھ کر اپنے اپنے راستوں پر ہو لیے۔​
 
Top