ضیاء حیدری
محفلین
لب تیرے گلابوں کی نُزاکت میں سنور جائیں
پر ہجر میں یہ زخم کی صورت میں اُبھر جائیں
آنکھیں تری جادو ہیں کہ روشن ہیں ستارے
پر دیکھ کے ان کو ہی کئی خواب بکھر جائیں
زلفوں کی گھٹا چھاؤں گھنی رات کی مانند
پر ہجر میں یہ درد کی آندھی میں بِکھر جائیں
باتیں تری شیریں ہیں کہ شہداب کی صورت
پر ہجر میں یہ زہر کے سانچے میں اُتر جائیں
تو چاند سا روشن ہے، ضیا تیری مثالیں
پر دوری میں آنکھوں سے کئی اشک گزر جائیں
پر ہجر میں یہ زخم کی صورت میں اُبھر جائیں
آنکھیں تری جادو ہیں کہ روشن ہیں ستارے
پر دیکھ کے ان کو ہی کئی خواب بکھر جائیں
زلفوں کی گھٹا چھاؤں گھنی رات کی مانند
پر ہجر میں یہ درد کی آندھی میں بِکھر جائیں
باتیں تری شیریں ہیں کہ شہداب کی صورت
پر ہجر میں یہ زہر کے سانچے میں اُتر جائیں
تو چاند سا روشن ہے، ضیا تیری مثالیں
پر دوری میں آنکھوں سے کئی اشک گزر جائیں