معروف شاعر عزم بہزاد ہم میں نہیں رہے۔

محمداحمد

لائبریرین
کراچی کے معروف و مقبول ہر دلعزیز شاعر عزم بہزاد گزشتہ رات خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

انا للہِ وانا الیہ راجعون

نمازِ جنازہ آج بعد نمازِ جمعہ اجمیر نگری، نارتھ کراچی میں ادا کی جائے گی۔

دعا ہے اللہ رب العزت محترم عزم بہزاد پر اپنا خاص کرم فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ (آمین)

تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ عزم صاحب کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔
 

جیلانی

محفلین
دعا ہے اللہ رب العزت محترم عزم بہزاد پر اپنا خاص کرم فرمائے اور اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ (آمین)
 

جیلانی

محفلین
عزم بہزاد مرحوم کا کلام
کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے
کدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی
کدھر گئے وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے
کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دیا جلانے کی کوشش میں ‌خود جل جانے والے
یہ اک خلوت کا رونا ہے جو باتیں کرتی تھی
یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دل پگھلانے والے
کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہو جاتے
اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانے والے
ہمیں کہاں ان ہنگاموں میں تم کھینچے پھرتے ہو
ہم ہیں اپنی تنہائی میں رنگ جمانے والے
اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں
آہوں سے ناواقف ہیں یہ شور مچانے والے
عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھیرانے والے
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

انتہائی افسوس ہوا یہ خبر جان کر۔ مرحوم (ّکلیجہ منہ کو آتا ہے انہیں مرحوم لکھتے ہوئے) انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انتہائی بردبار اور حلیم، چھوٹوں پر انتہائی مہربان۔

اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں چلا بھی گیا تو مرے راستوں پر مری یاد میں
کوئی آنسو، کوئی روشنی، کوئی خوشبو چھڑک جائے گا

عزم بہزاد
 

الف عین

لائبریرین
مرحوم سے کتاب چہرے سے جان پہچان تھی، لیکن رومن میں تحریروں اور تصویروں میں کلام بھیجنے کی وجہ سے میں ان کو زیادہ نہیں پڑھ سکا تھا، البتہ اردو ورلڈ میں کچھ کلام ملا تو ایک ای بک کی ڈول ڈال دی تھی جس کا ل؛کھ چکا ہوں۔ مجوزہ نام تھا "میرا صحرا جل گیا"۔
خلیل الرحمن اعظمی نے ابن انشاء کی موت پر لکھا تھا کہ 51 سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے، یہی بات شمیم حنفی نے پھر خلیل صاحب کے انتقال پر لکھی، اور مجھے بے اختیار یہ بات یاد آ گئی، کہ حساب لگایا تو ان کی عمر محض 52 سال تھی۔
اللہ تعالیٰ ،رحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو دولتِ صبر۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

انتہائی افسوس ہوا یہ خبر جان کر۔ مرحوم (ّکلیجہ منہ کو آتا ہے انہیں مرحوم لکھتے ہوئے) انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ انتہائی بردبار اور حلیم، چھوٹوں پر انتہائی مہربان۔

اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کریں۔

وارث بھائی! کل سے انتہائی کرب میں ہوں کہ جب عبید بھائی کی زبانی یہ خبر ملی۔ پھر لیاقت علی عاصم بھائی اور مغل بھائی سے بھی یہی اطلاع ملی۔ میں اگرچہ اُن کی آخری رسومات میں شریک رہا لیکن دل کو پھر بھی یقین نہیں آتا۔

عزم بھائی اس قدر محبت اور شفقت برتنے والے تھے کہ ایسے لوگ شاذ ہی ملتے ہیں۔ میری اُن سے ملاقاتیں بہت زیادہ نہیں رہیں لیکن پھر بھی میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا، اُن کے پاس بیٹھ کر دل کو جو قرار و سکون ملتا تھا اس کی مثال نہیں ۔ کل ایک ایسا حسن و محبت کا پیکر ہم سے بچھڑ گیا کہ اُس کی تلافی شاید کبھی نہ ہو سکے۔

اللہ اُن پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے اور اپنا خاص کرم فرمائے (آمین)
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت بہزاؔدلکھنویؒ کے پوتے عزؔ،م بہزاد کی غزل​
عکسِ حضرت بہزاد لکھنویؒ اور نقشِ عزؔم بہزادمرحوم​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریہ دادا بزرگوار کے تراوشِ فکرکا نمونہ اور رشحاتِ قلم کا ثمرہ
 
آخری تدوین:
یہ غزل حضرت ِ بہزاؔد لکھنوی علیہ الرحمہ کی فکرِ خاص کا ثمرہ ہے ۔اُن کے پوتے عزؔم بہزاد مرحوم کا ذکر چل رہا تھا سوچا اُن کے داداکی بلندیٔ فکر کا نمونہ بھی پیش کردوں۔ یہ غزل بیگم اختر نے گائی ہے ،سننے والی چیز ہے۔​
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
میری ذاتی رائے میں پرانے تعزیتی دھاگوں کو برسوں کے بعد تازہ کر دینا مناسب نہیں ہے۔ عزم بہزاد صاحب کا انتقال 2011 میں ہوا تھا۔ اب اس بات کو کئی برس گزر چکے ہیں۔

جب تعزیتی دھاگہ برسوں کے بعد تازہ ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ شاید انتقال ابھی ہوا ہے اور کچھ لوگ کنفیوز ہو جاتے ہیں۔

اگر کسی کو مرحوم کے لئے دعا کرنی ہے تو وہ اپنے طور پر کر سکتا ہے۔

یا جیسے اس کیس میں اُن کی غزل کے دھاگے میں ہی اُن کے لئے دعا کی جا سکتی ہے۔
 
Top