ساز ہ
ساز ہستی پہ ابھی جھوم کے گا لے مجھ کو
زندگی سے یہ کہو اور نہ ٹالے مجھ کو
میں نے تو صبح درخشاں کی دعا مانگی تھی
کیوں ملے زرد چراغوں کے اجالے مجھ کو
زندگی
احساسات کی بستی میں جب ہر جانب سناٹا تھا
میں آوازوں کے جنگل میں تب جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا
جن راہوں سے اپنے دل کا ہر قصہ منسوب رہا
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے ان راہوں کا قصہ کیا تھا
یاد
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
یہ شام ہے کہ کوئی فرش پائمال سا ہے
تیرے دیار میں کیا تیز دھوپ تھی لیکن
گھنے درخت بھی کچھ کم نہ تھے خیال سا ہے
رئیس فروغ
خیال
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو
کہیں نکلے کوئی اندازہ ہمارا بھی غلط
جانتے ہیں اسے جیسا کہیں ویسا ہی نہ ہو
ظفر اقبال
آنکھیں