غزل
غلام ربّانی تاباںؔ
ہر سِتم لُطف ہے، دِل خُوگرِ آزار کہاں
سچ کہا تُم نے، مُجھے غم سے سَروکار کہاں
دشت و صحرا کے کُچھ آداب ہُوا کرتے ہیں
کیوں بَھٹکتے ہو، یہاں سایۂ دِیوار کہاں
بادۂ شوق سے لبریز ہے ساغر میرا
کیسے اذکار ، مُجھے فُرصتِ افکار کہاں
کیوں تِرے دَور میں محرُومِ سزا ہُوں، کہ...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
ہو کیوں نہ تِرے کام میں حیران تماشا
یا رب ! تِری قُدرت میں ہےہر آن تماشا
لے عرش سےتا فرش نئے رنگ، نئے ڈھنگ
ہر شکل عجائب ہے، ہر اِک شان تماشا
افلاک پہ تاروں کی جَھلکتی ہے طلِسمات
اور رُوئے زمیں پر گُل و ریحان تماشا
جِنّات، پَری، دیو، ملک، حوُر بھی نادر
اِنسان عجوبہ ہیں...
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو
پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو
اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو
ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو
مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...
غزل
کلِیم عاجِزؔ
بڑی طَلب تھی بڑا اِنتظار، دیکھو تو
بہار لائی ہے کیسی بہار، دیکھو تو
یہ کیا ہُوا، کہ سلامت نہیں کوئی دامن
چَمن میں پُھول کِھلے ہیں کہ خار، دیکھو تو
لہُو دِلوں کا چراغوں میں کل بھی جلتا تھا
اور آج بھی، ہے وہی کاروبار دیکھو تو
یہاں، ہر اِک رَسَن و دار ہی دِکھاتا ہے
عجیب شہر،...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں
حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں
مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے!
تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں
مُبارک باد ایّامِ اسِیری!
غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں
تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے
حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں
ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
غزل
راسخؔ دہلوی
سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا
بڑا گُناہ، دِلِ ناصبُور ہم سے ہُوا
جو کُچھ نہ ہونا تھا، ربِّ غفُور! ہم سے ہُوا
کیے گُناہ بہت کم، قُصُور ہم سے ہُوا
فِراقِ یار میں ہاں ہاں ضرُور ہم سے ہُوا
ضرُور صبر، دلِ ناصبُور! ہم سے ہُوا
جَفا کے شِکوے پہ اُن کی وہ نیچی نیچی نَظر
وہ...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو...
غزلِ
مُصحفیؔ
گِل کا پُتلا قضا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں، پر امرِ خُدا کے ہاتھ میں ہُوں
وہ ہی واقف ہے میری کِل کِل سے
سچ عجب آشنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں تو گھٹری پَوَن کی مِثلِ حباب
لیکن، آب و ہَوا کے ہاتھ میں ہُوں
کوزہ ہُوں آبِ صاف کا، لیکن!
ڈر ہے اِتنا، فنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں مَیں رنگِ حنا...
غزل
کیا کہیے آرزُوئے دِلِ مبُتِلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو، کہ وہ رنگیں اَدا ہے کیا
کافی ہیں میرے بعد پَشیمانیاں تِری
مَیں کُشتۂ وَفا ہُوں مِرا خُوں بَہا ہے کیا
وقتِ کَرَم نہ پُوچھے گا لُطفِ عمیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا، پارسا ہے کیا
دیکھو جِسے، ہے راہِ فَنا کی طرف رَواں
تیری محل سرا کا...
غزل
حسرتؔ موہانی
مجھ کو خبر نہیں کہ مِرا مرتبہ ہے کیا
یہ تیرے اِلتفات نے آخر کِیا ہے کیا
مِلتی کہاں گُداز طبیعت کی لذَّتیں
رنجِ فراقِ یار بھی راحت فزا ہے کیا
حاضرہے جانِ زار، جو چاہو مجھے ہلاک !
معلوُم بھی تو ہو، کہ تمہاری رضا ہے کیا
ہُوں دردِ لادَوائے محّبت کا مُبتلا
مجھ کو خبر نہیں کہ...
غزل
سرگرمِ ناز آپ کی شانِ وَفا ہے کیا
باقی ستم کا اور ابھی حوصلہ ہے کیا
آنکھیں تِری جو ہوشرُبائی میں ہیں فرو
اِن میں یہ سِحرکارئیِ رنگِ حنا ہے کیا
گر جوشِ آرزُو کی ہیں کیفیتیں یہی
مَیں بُھول جاؤں گا کہ مِرا مُدّعا ہے کیا
آتے ہیں وہ خیال میں کیوں میرے بار بار
عِشقِ خُدا نُما کی یہی اِبتدا ہے...
غزل
مولانا حسرتؔ موہانی
ہم بندگانِ درد پہ مشقِ جَفا ہے کیا
دِل جوئیِ وُفا کا یہی مُقتضا ہے کیا
محرُومیوں نے گھیر لِیا ہے خیال کو
اے عشقِ یار! تیری یہی اِنتہا ہے کیا
شوقِ لقائے یار کہاں ، میں حَزیں کہاں
اے جانِ بےقرار ! تجھے یہ ہُوا ہے کیا
ہو جائے گی کبھی نہ کبھی جان نذرِ یار
بیمارِ عِشق ہم...
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
تُو کہتا ہے مَیں آؤں گا دو چار گھڑی میں
مرجائے گا ظالِم! تِرا بیمار گھڑی میں
جس کام کو برسات میں لگتے ہیں مہینے!
وہ، کرتے ہیں یہ دِیدۂ خونبار گھڑی میں
مَیں تُجھ کو نہ کہتا تھا نظیرؔ اُس سے نہ مِلنا
اب دیکھیو حال اپنا ذرا، چار گھڑی میں
نظیرؔ اکبرآبادی
غزل
شان الحق حقیؔ
اے دِل! تِرے خیال کی دنیا کہاں سے لائیں
اِن وحشتوں کے واسطے صحرا کہاں سے لائیں
حسرت تو ہے یہی کہ ہو دُنیا سے دِل کو مَیل
ہو جس سے دِل کو مَیل وہ دُنیا کہاں سے لائیں
رَوشن تھے جو کبھی وہ نظارے کِدھر گئے
برپا تھا جو کبھی وہ تماشا کہاں سے لائیں
کیا اُس نگاہِ حوصلہ افزا کو دیں...
غزل
خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے
سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے
حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار
ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے
ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال
پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے
بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل
ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے...
ذیل میں دو مصرعوں میں
حرف ٹائپ ہونے سے رہ گئے ہیں کی نشاندہی کر رہا ہُوں
درست کر لیجیے :)
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل ۔۔کرتا ہوں
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل مَیں کرتا ہوں
آتی ہے یہاں مری باری اک مرتبہ عہد بہ عہد فراقؔ
آتی ہے یہاں میری باری اک مرتبہ عہد بہ عہد فراقؔ