نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    نظر آئے جو آئینہ، عزاداری میں رہتے ہیں

    نہایت سہل ہو جانے کی دشواری میں رہتے ہیں سبحان اللہ بہت خوب
  2. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی نظم : سالگرہ - خورشید رضوی

    سالگرہ جیسے اک سانپ ہے ڈستا ہے مجھے سال بہ سال جب پلٹ کر وہی موسم وہی دن آتا ہے پھولنے لگتا ہے مجھ میں وہی مسموم خمیر اُس کا بوسہ مری پوروں میں مہک اٹھتا ہے اور وہ اپنی ہی خوشبو کی کشش سے بے چین میں کہیں بھی ہوں مرے پاس چلا آتا ہے در و دیوار اُسے راستہ دے دیتے ہیں اور میں اُس کی طرف ہاتھ...
  3. فرحان محمد خان

    پتہ کرو: عمران خان نیازی نے پھر اپنی ناقص علمی کا مظاہرہ کردیا؟

    بھیا آپ اپنے الفاظ میرے منہ میں کیوں ڈال رہے ہیں میں نے یہ ہرگز نہیں کہا
  4. فرحان محمد خان

    پتہ کرو: عمران خان نیازی نے پھر اپنی ناقص علمی کا مظاہرہ کردیا؟

    قرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کا لہجے خدا کو ہی زیبا ہے
  5. فرحان محمد خان

    پتہ کرو: عمران خان نیازی نے پھر اپنی ناقص علمی کا مظاہرہ کردیا؟

    عیسی کا گواہ موسی پہلی بات یہ کوئی عالم نہیں انجنیر ہے دوسری بات حضور جو شخص خود اصحابِ رسول پر طعن و تشنیع کرتا ہو اس کی بات اس معاملہ میں دلیل ہو سکتی ہے نقلِ کفر، کفر نہ باشد
  6. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : جویانِ تازہ کاریِ گفتار کچھ کہو - عزیز حامد مدنی

    غزل جویانِ تازہ کاریِ گفتار کچھ کہو تم بھی ہوئے ہو کاشفِ اَسرار کچھ کہو شیشہ کہیں سے لاؤ شرابِ فرنگ کا باقی جو تھی حکایتِ دل دار کچھ کہو جانے بھی دو تغیرِ عالم کی داستاں کس حال میں ہے نرگسِ بیمار کچھ کہو بادل اٹھے ہیں چشمکِ برق و شرار ہے منہ دیکھتے ہو صورتِ دیوار کچھ کہو مطرب کو تازہ...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی - اختر عثمان

    غزل حسن کی لہر کراں تا بہ کراں ہوتی تھی ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی مجتمع کیسے ہوا کرتے تھے نور اور وفور اور جب ساتھ کی مسجد میں اذاں ہوتی تھی لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو روز مرّہ ہوا کرتا تھا زباں ہوتی تھی آج شہرت ہے ترے پاس تو اِترا نہیں دوست اک زمانے میں یہ کسبی مرے ہاں...
  8. فرحان محمد خان

    مجذوب غزل : عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے - خواجہ عزیز الحسن مجذوب

    غزل عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے مرا خاموش ہو جانا دلیلِ مرگ ہے گویا مثالِ نَے مرا جینا فغاں تک تھا فغاں تک ہے نہ دھوکہ دے مجھے ہمدم وہ آیا ہے نہ آئے گا پیامِ وعدۂ وصلت زباں تک تھا زہاں تک ہے کٹی روتے ہی اب تک عمر آگے دیکھئے...
  9. فرحان محمد خان

    کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا ۔ عرش ملیسانی

    کبھی تیرا در، کبھی دربدر، کبھی عرش پر، کبھی فرش پر غمِ عاشقی ترا شکریہ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا یہ شعر اس غزل کا نہیں مجھے لگتا ہے یہ عرش ملسیانی کا شعرہی نہیں
  10. فرحان محمد خان

    غزل : کنایہ کار کوئی چشم ِ نیلگوں ہے کہ یوں ۤ۔ اختر عثمان

    غزل کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں ہمیں شعور کہاں تھا، حیات یوں ہے، کہ یوں جو گِرد باد تھے اب ہیں وہ خاک اُفتاده ہوائے دشت صدا زن ہے، یوں سکوں ہے، کہ یوں خِرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں لہو میں یوں تو لہکتی نہیں ہے کیا کیا لہر مگر جو ایک...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : تنویرؔ مفلسی میں بھی کتنا عظیم ہے - تنویر سپراؔ

    غزل تنویرؔ مفلسی میں بھی کتنا عظیم ہے جس کی گرہ میں دولتِ ذوقِ سلیم ہے وہ آپ کا ہے جس کی طبیعت میں ہے تضاد میرا خدا تو صرف غفُور الرّحیم ہے بے جان پتلیوں سے تو خائف نہیں ہوں میں در اصل ان کی پشت پہ میرا غنیم ہے وہ شخص صرف اس لئے مجھ کو ہے محترم اس میں ہزار عیب سہی ، پر فہیم ہے تیری...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : بجھتے ہوئے ضمیر کو شعلہ انائیں دے - تنویر سپرا

    غزل بجھتے ہوئے ضمیر کو شعلہ انائیں دے اس جاں بلب مریض کو تازہ ہوائیں دے ان وسوسوں کے اندھے کنوئیں کی جگہ مجھے اے ذہنِ شر پسند یقیں کی ضیائیں دے پتھر نہیں تو خود کو گرا سطحِ آب پر ان گنگ منظروں کو سمندر صدائیں دے جن کی شکم میں صرف اُجالے ہی پل سکیں یا رب نئے بشر کو وہ مہتاب مائیں دے جس...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں - اختر عثمان

    غزل شروع کرتے ہوئے یہ خیال تھا ہی نہیں وہ کارِ عشق تھا اس کا مآل تھا ہی نہیں ہزار زخم ستاروں سے جگمگاتے تھے جگر جگر تھا بدن ، اندمال تھا ہی نہیں وہ حسن لے گیا اس منطقے کی سمت مجھے جہاں سرے سے گمانِ زوال تھا ہی نہیں بس ایک لفظ کی لَو راستہ سُجھاتی تھی کہیں چراغِ سفر کا وبال تھا ہی نہیں...
  14. فرحان محمد خان

    تعارف تعارف پر ایک نگاہ

    خوش آمدید محترم
  15. فرحان محمد خان

    غزل : مثالِ کوفۂ نامہربان کھینچتا ہے - م۔م۔مغل

    غزل مثالِ کوفۂ نامہربان کھینچتا ہے بدن بھی روح پہ جیسے کمان کھینچتا ہے نواحِ جاں میں کوئی ہُوک رقص کرتی پھرے عجیب نغمۂ بے ساز تان کھینچتا ہے سوادِ عمر ترا لمس رائگاں تو نہیں تو کیوں زمیں پہ مجھے آسمان کھینچتا ہے کسے دماغ کے جنگل نے سر اُٹھانا ہے ابھی تو سبزۂ وحشت اُٹھان کھینچتا ہے...
  16. فرحان محمد خان

    ہماری صلاح: ڈاکٹر خورشید رضوی سے معذرت کے ساتھ

    عروض پر اردو کی مستعمل اور مانوس بحور ہی شامل ہیں اور یہ بحر اُردو میں مستعمل نہیں شاید اس لیے وہاں سے آپ کو اس کی درست تقطیع نہیں مل سکے گئی
  17. فرحان محمد خان

    ہماری صلاح: ڈاکٹر خورشید رضوی سے معذرت کے ساتھ

    مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فع
Top