نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    اختر شیرانی نظم : مامتا - اختر شیرانی

    مامتا وہ جذبہ جو نسائی جذبوں کی مُنتہا ہے دُنیا میں نام اس کا اک ماں کی مامتا ہے آغوشِ ناز گنجِ اقبال سے بھرا ہے یا خوابِ رُوح مستِ تعبیر ہو رہا ہے رہ رہ کے مامتا کا اظہار کر رہی ہے بے تاب ہو رہی ہے اور پیار کر رہی ہے جذبات مادری کا اعجاز کہئے اس کو روحانیت سے لبریز اک ساز کہئے اس کو...
  2. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی غزل : ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ - خورشید رضوی

    غزل ہمیں رکھتی ہے یوں قیدِ مقام آزردہ کہ جیسے تیغ کو رکھّے نیام آزردہ ہے جانے کس لئے ماہِ تمام آزردہ کھڑا ہے دیر سے بالائے بام آزردہ گریباں چاک کر لیتی ہیں کلیاں سُن کر ہوائے صبح لاتی ہے پیام آزردہ بتا اے زندگی یہ کون سی منزل ہے ہے خواب آنکھوں سے اور لب سے کلام آزردہ یہ خاکِ سُست رَو اس...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : منّت سے کوہِ طور اگر سر بھی ہو تو کیا - اختر عثمان

    غزل منّت سے کوہِ طور اگر سر بھی ہو تو کیا ایسے مرادِ وصل بر آور بھی ہو تو کیا صُورت نمائیوں سے اُٹھا کب کا دستِ شوق اب سنگِ صوت یاب میں پیکر بھی ہو تو کیا اک دشتِ بے دلی ہے لہو میں نمو پزیر اوّل تو گھر نہیں ہے اگر گھر بھی ہو تو کیا تم ہو تو کیا کہ ذوقِ نظارہ ہوا تمام اپنی بَلا سے آئنہ...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : ساغر کی طرح دست بہ دست اتنا چلا میں - اختر عثمان

    غزل ساغر کی طرح دست بہ دست اتنا چلا میں اب دورِ تہی ظرف ہے اور اِس کا خلا میں تنہائی مرے سائے سے کترائی سرِ دشت خود آگ جلی مجھ سے عجب ڈھب سے جلا میں بڑھتا تھا کوئی ہاتھ جوں ہی سُوئے رگِ گُل رکھتا تھا بصد شوق وہاں ہنس کے گَلا میں اک جی تھا کہ خوںبار ہُوا طعنہ بہ طعنہ ہر بات بَلا ، اور...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی - تنویر سپرا

    غزل موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی ماں کا شباب کثرتِ اولاد کھا گئی دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی اک عمر جس کے واسطے دفتر کیے سیاہ اس مرکزی خیال کو روداد کھا گئی تیری تو شان بڑھ گئی مجھ کو نواز کر لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی کاریگروں نے بابوؤں کو زیر کر...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : پھر اقتدار کے لیے مصروفِ جنگ ہیں - تنویر سپرا

    غزل پھر اقتدار کے لیے مصروفِ جنگ ہیں وہ لوگ جن کے ہاتھ میں وعدوں کے سنگ ہیں خالق سے اپنی حُسن میں تخلیق بڑھ گئی سورج میں ایک روشنی میں سات رنگ ہیں نعروں پہ قدغنیں ہیں تو چیخیں بُلند کر اب لوگ اس سکوتِ مسلسل سے تنگ ہیں واعظ کے اہتمامِ مُناجات پر نہ جا یہ تو تمام بندے بھنّسانے کے ڈھنگ ہیں...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں - تنویر سپرا

    غزل دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں شَب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں میری گُمنامی کا مُوجِب اُن لوگوں کی شہرت ہے اپنے تَن، مَن، دَھن سے جن کی میں مشہوری کرتا ہوں تم اپنے اِن زہر بَھرے پیالوں پر جتنے نازاں ہو میں رَسمِ سُقراط پہ اِتنی ہی مغروری کرتا ہوں کل تک ممکن ہے میں بھی...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : اُس نگر کا نام بھی سپراؔ شرافت پُور تھا - تنویر سپرا

    غزل اُس نگر کا نام بھی سپراؔ شرافت پُور تھا جس کے ہر انسان میں اک بھیڑیا مُستور تھا فاتحوں سے قبل وہ مالِ غنیمت پر گرا جنگ کے میدان سے جو شخص کوسوں دور تھا وقت سے پہلے ہوس کی آریاں اس پر چلیں ایک پودا جو ابھی نوخیز تھا ، بِن بُور تھا اپنی تاریخِ نسب پر اس لیے نازاں ہوں میں عظمتِ محنت...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : منصورؔ کے مرید ہیں سرمدؔ کے یار ہیں - تنویر سپرا

    غزل منصورؔ کے مرید ہیں سرمدؔ کے یار ہیں ہم حسنِ قتل گاہ ہیں تزئینِ دار ہیں ہم سے رقم نہ ہوں گے قصیدے یزید کے ہم لوگ تو حُسین کے سیرت نگار ہیں مرنا قبول ، جھوٹ کی اطاعت نہیں قبول ہم صرف اور صرف صداقت شِعار ہیں فتویٰ گروں نے جن کو چڑھایا صلیب پر مسجودِ اہلِ درد اُنہی کے مزار ہیں ہم حزبِ اختلاف...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : اسی لیے ترے دعوؤں پہ مسکرا رہے ہیں - اظہر فراغ

    غزل اسی لیے ترے دعوؤں پہ مسکرا رہے ہیں ہم اپنا ہاتھ تری پُشت سے اُٹھا رہے ہیں بس اپنی خوش نظری کا بھرم رکھا ہوا ہے شکستہ آئینے ترتیب سے لگا رہے ہیں وہ خود کہاں ہے جو نغمہ سَرا ہے صدیوں سے یہ کون ہیں جو فقط اپنے لب ہِلا رہے ہیں ہوئے ہیں دیر سے ہموار زندگی کے لیے ضرور ہم کسی لشکر کا راستہ...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : محبتوں میں نئے طرز انتقام کی شام - اظہر فراغ

    غزل محبتوں میں نئے طرز انتقام کی شام کسی کے ساتھ گزاری کسی کے نام کی شام ازالہ ہو گیا تاخیر سے نکلنے کا گزر گئی ہے سفر میں مرے قیام کی شام نہ کوئی خواب دکھایا نہ کوئی عہد کیا بدن ادھار لیا بھی تو اس سے شام کی شام مسافروں کے لیے دشت کیا سرائے کیا ہمیں تو ایک سی لگتی ہے ہر مقام کی شام مٹائے...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : تم جو کہتے ہو وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو - اختر عثمان

    غزل تم جو کہتے ہو وہ کہنا نہیں آتا مجھ کو ہنرِ حرفِ برہنہ نہیں آتا مجھ کو اڑا پھرتا ہوں میں صحرا میں بگولا کی طرح قیس رہتا رہے، رہنا نہیں آتا مجھ کو میں ہوں پایاب کہ آہستہ روی خو ہے مری موجِ یک طَور میں بہنا نہیں آتا مجھ کو کیا جو لکھتا ہوں سب اوروں کی تمنائیں ہیں کیا جو کہتا ہوں وہ سہنا...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : خلش نہ ہو تو مہ و سال تک نہیں ملتی - اختر عثمان

    غزل خلش نہ ہو تو مہ و سال تک نہیں ملتی ہوائے قریہِ پامال تک، نہیں ملتی اڑو کہ آئینہِ نیلمیں بلاتا ہے وہ دھوپ کنجِ پر و بال تک نہیں ملتی نکل چلو کہ یہ دنیا جمال دوست نہیں یہاں تو دادِ خد و خال تک نہیں ملتی کہاں وہ دور کہ ہم سے ہزار ہا تھے یہاں کہاں یہ وقت کہ تمثال تک نہیں ملتی خوشا وہ لفظ...
  14. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی غزل : وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی - خورشید رضوی

    عاطف بھائی در اصل کتاب میں اسی طرح موجود ہے اس صورت میں کیا کیا جا سکتا ہے
  15. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی غزل : وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی - خورشید رضوی

    بھیا یہاں ہوا کھانے کی بات کی گئی ہے شراب نوشی کی نہیں اس لیے بادِ پیمائی ہی درست ہے
  16. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی غزل : وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی - خورشید رضوی

    غزل وہی بہار وہی شغلِ باد پیمائی وہی خیال وہی اُس کی بے سروپائی کُھلے ہوئے ہیں دریچے ہر ایک سمت مگر کسی طرف سے کچھ اپنی خبر نہیں آئی محبتیں بھی کیں ، اور نفرتیں بھی کیں نہ آدمی نے مگر آدمی کی تہہ پائی یہ اعتماد تو دیکھو بھرے سمندر میں حباب کھینچ کے بیٹھا حصارِ تنہائی تم اپنے آپ میں...
  17. فرحان محمد خان

    خورشید رضوی غزل : مآلِ صحبتِ شب سوچنے کو آیا ہوں - خورشید رضوی

    غزل مآلِ صحبتِ شب سوچنے کو آیا ہوں کہاں چلے گئے سب ، سوچنے کو آیا ہوں وہ جس کی سوچ میں صدیوں نے مُوند لیں آںکھیں وہ ایک بات میں اب سوچنے کو آیا ہوں ہجومِ شہر سے دُور ، ان اُداس کھیتوں میں اداسیوں کا سبب سوچنے کو آیا ہوں جو آج تک مری اپنی سمجھ میں آ نہ سکی وہ اپنے دل کی طلب سوچنے کو...
Top