غزل
گلوں کے نقش سرِ آب دیکھنے کے لیے
ملی تھیں آنکھیں مجھے خواب دیکھنے کے لیے
میں جانتا ہوں کہ محفل میں لوگ آتے ہیں
مرے تنے ہوئے اعصاب دیکھنے کی لیے
میں خود اتر گیا پانی میں آخری حد تک
لہکتی جھیل کا مہتاب دیکھنے کے لیے
میں ریستوران میں آیا کروں گا بعد از مرگ
یہ اپنا حلقۂ احباب دیکھنے کے لیے...