غزل
تم کو مری افتاد کا اندازہ نہیں ہے
تنہائی صلہ ہے مرا خمیازہ نہیں ہے
تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہرگز کہ مرے گرد
دیوار ہی دیوار ہے دروازہ نہیں ہے
مدّھم ہے نوا میری کسی اور سبب سے
یہ بات نہیں ہے کہ غمِ تازہ نہیں ہے
ہیں شرق سے تا غرب پریشان مرے ذرّات
جُز موجِ صبا اب کوئی شیرازہ نہیں ہے
جو...
غزل
کھلنے کی فصل بیت گئی ،جَھڑ کے سو رہو
دورِ خزاں شعار ہے ، بس پَڑ کے سو رہو
کیسا عجیب عشق ہے ، از صبح تا بہ شام
ہنستے رہو ، پہ رات پڑے لَڑ کے سو رہو
اک شکل قَرن قَرن سے خُفتہ ہے خون میں
ہستی ہے کم بساط ، اُسے گَھڑ کے سو رہو
بالیں پہ منتظر ہے کوئی لمحۂ وصال
یہ کیا کہ ایک بات پہ ہی اَڑ...
شاعر
ہم فخرِ فلک لوگ جو پرودۂ گِل ہیں
ہر صبح خرد خوار ہیں، ہر شام خجل ہیں
کہنے کو تو نبّاض ہیں یا دہر کا دل ہیں
در اصل یونہی کارِ زمانہ میں مخل ہیں
ہر آن بدلتے ہیں غلافِ حرمِ حرف
اور اپنا مقدر ہے طوافِ حرمِ حرف
اختر عثمان
غزل
بار بار ایک ہی برچھی سے چھلو ، اور ملو
منع کرتے تھے نا ! لو ، اور ملو ، اور ملو
دہنِ غنچہ پہ گرتی ہے نظر کی شبنم
خندہ و گریہ لیے سادہ دلو ، اور ملو
وقت جو سب کا رفو کار ہے ، زچ ہے تم سے
اب کہیں اور چھلو ، اور سلو ، اور ملو
کیا وہ بیلیں کوئی کم تھیں سرِ دیوارِ ضمیر
زخم در زخم ہنسو ،...
غزل
کبھی ہم بھی کسی کی بزم سے بسمل نکلتے تھے
سراپا چشم جاتے تھے سراپا دل نکلتے تھے
مثالِ چاہِ نخشب تھی کبھی سینے کی گہرائی
کہ ہر ہر بات پر لب سے مہِ کامل نکلتے تھے
ہزاروں لغزشوں پر بھی نہ تھا گُم گشتگی کا ڈر
سبھی رستے بسوئے کوچۂ قاتل نکلتے تھے
کہاں کا بادباں ، پتوار کیسے ، ناخدا کس کا...
غزل
جی اُلجھتا ہے مری سمت جو یوں دیکھتی ہو
جانے تم کون ہو ، اور غور سے کیوں دیکھتی ہو
اک تلاطم سے ذرا پہلے کی کیفیت ہے
یہ جو تم کچھ مرے چہرے پہ سکوں دیکھتی ہو
کچھ بھی ہو دشتِ محبت نہیں طے ہونے کا
کیا مجھے دیکھتی ہو ، میرا جنوں دیکھتی ہو
تاب دل میں نہیں سنگیں نظری کی صاحب !
دیکھتی کب ہو...
غزل
جب یاد کے سائے میں سستائے فراموشی
تصویر بھی دیکھوں تو یاد آئے فراموشی
آنکھوں کو شکایت تھی یادوں کے عذابوں سے
اب دیکھئے جو کچھ بھی دکھلائے فراموشی
دو دن کو ہے یہ سارا ہنگامہ من و تُو کا
ہرنقش بہا دے گا دریائے فراموشی
اس دل کے بھی ہو شاید باقی کسی گوشے میں
اک یاد جسے کہیے ، ہمتائے...
غزل
مجھ سے محروم رہا میرا زمانہ خورشید
مجھ کو دیکھا ،نہ کسی نے مجھے جانا خورشید
آنکھ میں تھی کہیں تازہ کہیں فرسودہ نگاہ
زیرِ افلاک نیا کچھ نہ پرانا خورشید
ڈھونڈنا ہے تو مجھے ڈھونڈ سخن میں میرے
تابِ خورشید حقیقت ہے فسانہ خورشید
ڈوبتی شام یہ کہتی ہے ہلاتے ہوئے ہاتھ
صبح دم دیر نہ کرنا ،...
غزل
تراش محو ہوئی ،خدوخال سے بھی گئے
کچھ آئنے کہ تری دیکھ بھال سے بھی گئے
گہے گہے نگہِ نیلگوں تھی مرہم گیر
وہ بجھ گئی تو فقیر اندمال سے بھی گئے
یہ کارِ گفتنِ احوال کوئی سہل ہے کیا
وہ چپ لگی ہے کہ تابِ سوال سے بھی گئے
کہاں نشاط کی وہ ساعتیں، وہ درد کی لو
کہاں یہ حال کہ تیرے ملال سے بھی گئے...