نتائج تلاش

  1. کاشفی

    فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
  2. کاشفی

    دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
  3. کاشفی

    فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ ان حسیں...
  4. کاشفی

    سُرُور بارہ بنکوی ::::: نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ ::::: Suroor Barahbankvi

    تعارفِ شاعر: اردو کے ممتاز شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار جناب سرور بارہ بنکوی کااصل نام سعید الرحمن تھا۔ وہ 30 جنوری 1919ء کو بارہ بنکی (یو پی۔بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے کراچی اور پھر ڈھاکا میں سکونت اختیار کی۔جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر اپنے فلمی سفر کا آغاز...
  5. کاشفی

    سُرُور بارہ بنکوی ::::: نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ ::::: Suroor Barahbankvi

    غزل نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ یہ عجیب کارواں ہے، جو رَواں ہے بے اِرادہ
  6. کاشفی

    سُرُور بارہ بنکوی ::::: نہ کسی کو فکرِ منزِل، نہ کہیں سُراغِ جادہ ::::: Suroor Barahbankvi

    بہت ہی عمدہ جناب! شکریہ شریکِ محفل کرنے کے لیئے۔۔
  7. کاشفی

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر - مخدوم محی الدین

    غزل آپ کی یاد آتی رہی رات بھر چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر
  8. کاشفی

    جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں تمام عمر یہ افسردگان محفل گل کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
  9. کاشفی

    آپ کے پسندیدہ اشعار!

    ایک محبت کافی ہے باقی عمر اضافی ہے (محبوب خزاں)
  10. کاشفی

    آپ کے پسندیدہ اشعار!

    بات یہ ہے کہ آدمی شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا (محبوب خزاں)
  11. کاشفی

    حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں زیر لب آہ بھی محال ہوئی درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا...
  12. کاشفی

    آپ کے پسندیدہ اشعار!

    ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے (محبوب خزاں)
  13. کاشفی

    کیا بتائیں آپ سے کیا ہستیٔ انسان ہے - گیان چند

    اچھا سوال ہے۔۔معلوم کرکے بتاتا ہوں آپ کو۔۔
  14. کاشفی

    دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی - شہریار

    غزل (شہریار) دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا یہ...
  15. کاشفی

    جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا - شہریار

    غزل (شہریار) جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
  16. کاشفی

    یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر وہ خط تجھے بھی...
  17. کاشفی

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
  18. کاشفی

    آپ کے پسندیدہ اشعار!

    ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے (کفیل آزر امروہوی)
  19. کاشفی

    آپ کے پسندیدہ اشعار!

    جو دیس کہ ہوتا ہے خوشی کا دشمن دیتا نہیں آب و نان و کافور و کفن جس دیس سے ملتا نہیں پیغامِ حیات اس دیس سے اُگتی ہی نہیں حُبِّ وطن (جوش ملیح آبادی)
Top