آئینہ سامنے ہو، ہاتھ میں پتھر نہ رہے
اب مرے شہر میں پہلے سے وہ منظر نہ رہے
نفرت و بغض کا پھیلا ہے اندھیرا ہر سو
بجھ گئے دیپ محبت کے، منور نہ رہے
ہم نے بھی سیکھ لیا وقت سے لڑنا آخر
ہم سراسیمہ بھی محتاجِ مقدر نہ رہے
بڑھ چکا عرض بہت دائرۂ وحشت کا
چاہ کر بھی کوئی اس حلقے سے باہر نہ رہے
بک چکے...