حلق کو فتح ملی خنجر کو رسوائی ملی
ہم وہی ہیں جن کو مقتل سے پذیرائی ملی
اسطرح کچھ مسکرائے تشنگی کی زد پہ ہم
تشنگی اور آب کے مابین یکجائی ملی
ہم تو انگاروں پہ چلنے کے لیے تیار تھے
وہ تو کہیے کہ سفر میں آبلہ پائی ملی
ہم نے کی جب عمر اپنی ساری زندانوں کی نذر
حریت کو تب کہیں جا کر شناسائی ملی...