کیا استادی اور کیا استادوں کی استادی، جنابِ سعید! بہر کیف! توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
کسی قابل جانئے تو میرے بلاگ کا ایک چکر لگا لیجئے گا، شاید کچھ کام کی باتیں مل ہی جائیں۔
یہ ٹائپ کی غلطیاں نہیں ہیں محترم! ہمارے بہت سارے آزاد خیال "اہلِ قلم" زبان ہی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ ہجوں کا کیا ہے!
رہی بات شعر کی، تو صاحب! جمالیات اب قصہء پارینہ ہو چکی۔ معانی سمجھ میں آتے ہیں؟ بس ٹھیک ہے! یہی کچھ ہے۔ کلامِ منظوم کو شعر تسلیم کر لیا گیا۔
سو، میں نے تو کچھ بھی عرض کرنا...
میرا اندازہ ہے، حمیرا نے عادل کو اس لئے ٹوک دیا کہ ہنسی مذاق میں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی حدیثِ مبارکہ پر بھی ایسا ویسا تبصرہ کر گزرے۔
آپ کی آزادی کو کچھ نہیں ہوا، بس وہ ناک اور چھڑی کی حدود کی بات ہے تھوڑی سی۔
غزل
جنابِ احمد فاروق کی نذر
..........
دردِ اظہار میں کٹ جاتی ہے
روح گفتار میں کٹ جاتی ہے
کون کہتا ہے کہ رفتارِ حیات
حلقۂ دار میں کٹ جاتی ہے
کام کا کام نہ کر پائیے تو
کارِ بے کار میں کٹ جاتی ہے
اے خوشا، آبلہ پا! ہر تکلیف
راہِ پرخار میں کٹ جاتی ہے
بازئ دل ہے عجب جنگ آثار
جیت بھی ہار میں کٹ...