نتائج تلاش

  1. اسامہ جمشید

    جو احساس ہى دل سے اٹھتا رہا

    ایك غزل ... مؤرخه 10 ستمبر 2015 كی ترمیم كے بعد .... وہ شوخ اتنا ہنس كر نكھارے گئے یہ جمشيدؔ واللہ مارے گئے كرامات صندل جبینوں كی ہے فقیر اٹھ كے ندّی كنارے گئے بہائے تھے آنسو وہاں پر بہت چلو اس بہانے سنوارے گئے مرى بات دشت وجنوں تك گئى تو اٹھ كر وہ سارے كے سارے گئے وه آتا رہا اس كے سپنے رهے قمر...
  2. اسامہ جمشید

    اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا

    تابعدار ،، استاد گرامی ،، ، یہ نثری نظم قرار پائی
  3. اسامہ جمشید

    اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا

    بروز اتوار 7 ستمبر 2014 كو لكھي گئي ايك نظم كچھ مرمت كے بعد .... (اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا) هم دور كسي اك وادي ميں اور خالي گھر ناشادي ميں احساس كو هارے بيٹھے تھے اور ضبط كو قصدا بھول گئے اس رات بڑي بے چيني تھي پھر بهكا در دكا آنسو تھا اور مهكي زخم كي مٹي تھي هم وجد كي حاصل ساعت ميں ا...
  4. اسامہ جمشید

    یہ سنگ واں كے تو رو رہے ہیں

    عربى قصیدہ : محمد العرفی ،،، منظوم ترجمہ : اسامہ جمشیدؔ ارے سمندر نہ رو نہ ہمكو رلا .... خدایا نگل ہی جا تو یہ اپنے آنسو كے تیرے آنسو ستا رہے ہیں ارے سمندر ... تو كب یہ سمجھے كے موج اپنا وطن بنی ہے پناہ دے جو ہمیں زمیں پر وہ ملك دھرتی پہ اب نہیں ہے ارے سمندر نہ رو وہاں كے تو باسیوں پر جہاں...
  5. اسامہ جمشید

    خود كو مارا ہے كے مارا ہے كے پھر مار لیا

    تازہ غزل . . . اب كے بے چین وفاؤں سے ملی مجھ كو نجات میں نے كل رات محبت كا گلہ گھونٹ دیا میرے نالوں پہ دہائی نہ دلاسے دینا میں نے بجھتے ہوئے اشكوں كو بہت یاد كیا طوفِ كعبہ كو بھی دل روند كے جاتے ہیں یہ لوگ جس نے چاہا تھا بھلا اس كا بھلا ہو ہی گیا اك روایت ہے كے لڑتے ہی رہے ہیں یہ فقیر...
  6. اسامہ جمشید

    ہر سویرا خوش نصیبی ڈھو رہا تھا

    تازہ غزل ........... ہر سویرا خوش نصیبی ڈھو رہا تھا زندگی تیرا ستایا سو رہا تھا لوگ چن كر نیكیوں كو جا رہے تھے عمر بھر كی میں كمائی كھو رہا تھا درد والے خواب میں بھی ہنس رہے تھے میں كسی كی یاد میں كیوں رو رہا تھا بلبلوں كا شبنموں كا اور گلوں كا پھر تماشا باغ میں اب ہو رہا تھا پتھروں سے وہ...
  7. اسامہ جمشید

    ایك غزل

    آپ كی محبت استاد گرامی اصل میں یہ لفظ (بُن) ہے میں پیش لگانا بھول گیا تھا ، سپاس گزار ہوں ۔۔۔
  8. اسامہ جمشید

    ایك غزل

    شاكر اللہ قاسمی كی یاد میں ......ایك تازہ غزل ....... بڑے گلے تھے ہم نوا جو رو كے سب سنا دئیے یہ حسرتوں كے حرف تھے جو شعر بن كے گا دئیے ضرورتوں كے جھوٹ میں ہی بے بسی كا راز تھا عیاں عیاں سے مسئلے تھے ہم نے كیوں چھپا دئیے جو دشت تھا تو ہم تھے واں تو تیغ تھی تو تیر تھے جو شہر تھا تو ناز جاں علم...
  9. اسامہ جمشید

    گم گشتہ کشتیوں کو درکار ہے کنارا (نظم)

    بھئي واه، كيا كهنے، بهت سي داد ، بهت خوب،، بهت خوب پڑھ كر مزه آ گيا ، كاش مني بيگم كي آواز ميں اسے سنا جائے ۔۔۔۔۔
  10. اسامہ جمشید

    ............پنچھی ...........

    تازہ نظم ------------- أسامة جمشید ............پنچھی ........... شاموں كا اور صبحوں كا صدیوں كا اور میلوں كا درد كے پہلے رشتوں كا آس كے رم چھم حصوں كا بارش كے سب قطروں كا شبنم كا اور بھولوں كا قوس وقزح كے رونگوں كا پنچھی تیری آنكھوں میں پیار بھرا ہے جھیلوں كا سچی رت متوالوں سی كویل...
  11. اسامہ جمشید

    ہزار الفت كى چاه كى پر

    جزاك الله استاد گرامى
  12. اسامہ جمشید

    ہزار الفت كى چاه كى پر

    ہزار الفت كى چاه كى پر بڑا تعصب خمیرميں تھا بڑے چھپائے تھے عيب ہم نے وه ره گيا جو ضمير ميں تھا جگہ جگہ پر لہو پڑا ہے یہ سرخ كينہ مشير ميں تھا كسو كو يادوں سے مل گيا ہے ذرا سا نقطہ لكير ميں تھا خزاں ہےہم سے، بہارہم ہیں بہت سا غصہ اسير ميں تھا نگاه نم اور لبوں پہ بلبل وه دل، وه جگرا تو...
  13. اسامہ جمشید

    الفاظ بھى زنده هيں جذبات بھى زنده هيں

    بروز جمعرات مؤرخه 5 فرورى 2015 كو مظفر آباد، آزاد كشمير ميں لكھى گئى غزل الفاظ بھى زنده هيں جذبات بھى زنده هيں احساس محبت كے دن رات بھى زنده هيں كل رات چراغاں تھى جگنو سى سجى وادى آغوش ميں پربت كى ظلمات بھى زنده هيں دريا كے پهاڑوں ميں تسبيح پرندوں كى هر شخص ميں جيون هے سادات بھى زنده هيں...
  14. اسامہ جمشید

    تازہ ترین

    بهت خوب استاد محترم
  15. اسامہ جمشید

    كرے مغفرت حق مرے كفر كى

    تازه كلام.... نه گل هم جو تجھ سى نزاكت كريں نه بو هيں كے تجمھ ميں سرايت كريں فقيروں كو اتني بھي لالچ نه دو كے گھبرا كے خود سے شكايت كريں تماشا عجب هو اگر حسن كو وه اپنى زباں سے حكايت كريں كريں آخرش هيں جو نفرت كى هم محبت ميں بھى هم نهايت كريں تجھے ديكھ كر هم نمازيں پڑھيں اكيلے پڑھيں اور...
  16. اسامہ جمشید

    اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا

    بروز اتوار 7 سپٹمبر 2014 كو لكھي گئي ايك نظم (اس رات نے مڑ كر ديكھا تھا) ہم دور كسي اك وادي ميں لا وارث سے كچے گھر ميں تنها رات كو سوچ رهے تھے ہم جيسے خود كو بھول گئے اس رات بڑي بے چيني تھي كچھ مٹي كي بو نے ستايا اور آگ لگا دي قطروں نے اس گرتے گرتے پاني كے ہم دل كے پھوڑے پھوڑ گئے اس رات ميں...
Top