نتائج تلاش

  1. اسامہ جمشید

    کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں

    کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں مجھے بے چین رکھتی ہیں تری دلدار سی آنکھیں سمجھ میں وہ تو آتا ہے سمجھ پر میں نہیں پاتا بہت آسان چہرے پر بہت دشوار سی آنکھیں مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم وہی سنگین سا لہجہ وہی ہُشیار سی آنکھیں اندھیرا بڑھ چلا ہے کیوں دکھائی کچھ نہیں...
  2. اسامہ جمشید

    عادتاً وحشتوں میں جیتا ہوں ۔ فاتح الدین بشیر

    میں غریب الوطن، غریب مزاج کیا عجب غربتوں میں جیتا ہوں واه جي واه، بهت اعلي داد قبول كريں فاتح صاحب كبھي كچھ پڑھا تھا وزن صحيح ياد نهيں در وديوار پر حسرت كي نظر كرتے هيں خوش رهو اهل وطن هم تو سفر كرتے هيں بيٹھ جاتا هوں جهاں چھاؤں گھني هوتي هے هائے كيا چيز يه غريب الوطني هوتي هے
  3. اسامہ جمشید

    ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے

    قبول كيا قبله خليل صاحب
  4. اسامہ جمشید

    آپ کے جو قریب ہو جائے

    جي يه وهي ڈاكٹر ابرار عمر هيں جو ريڈيو پر كام كرتے هيں اور شاعر بھي هيں اور استاد اعجاز عبيد كي برقي لايبريري ميں انكا شعري مجموعه بھهي هے اور خوش قسمتي سے مجھ عاجز كي تقريبا هر هفته ان سے ملاقات بھي هوتي رهتي هے
  5. اسامہ جمشید

    ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے

    سبحان اللہ ہمارے حال سے وہ بے خبر ہے کیا کہیے تمام شہر شناسا مگر ہے کیا کہیے داد قبول کریں خلیل صاحب
  6. اسامہ جمشید

    بازارِ شام پر نہ ہوئی حشر تک سحَر ۔ فاتح الدین بشیر

    كلمات مشكل هيں، غزل اچھي هے ، فاتح صاحب داد قبول كريں۔
  7. اسامہ جمشید

    غزل : دیکھنے والو مری سمت کبھی تو دیکھو

    دیکھنے والو مری سمت کبھی تو دیکھو زخم سہہ کر بھی مری خندہ لبی تو دیکھو پنجابي ميں كهتے هيں صواد آ گيا۔ واه جي واه
  8. اسامہ جمشید

    ایک غزل اصلاح، تنقید اور رہنُماءی کی غرض سے ،'' محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا ''

    پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا محترم محمد يعقوب آسي صاحب آپ كے ذوق سے ملتي جلتي غزل پيش خدمت هے: انکے انداز کرم ان پہ وہ آنا دل کا ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا عمر گزری ہے پر درد نہ جانا دل کا دل لگی دل کی لگی...
  9. اسامہ جمشید

    ایک غزل اصلاح، تنقید اور رہنُماءی کی غرض سے ،'' محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا ''

    محترم محمد ا ظہر نذیر صاحب کی اجازت سے : یقین مانومجھے تم نے بھی ٹھکرانا ہے آخر میں مگر پھر بھی وفا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
  10. اسامہ جمشید

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں رو رولا کہ اٹھتے ہیں آج اپنے ہاتھوں سے مے پلا کہ اٹھتے ہیں لوگ اپنے رازوں...

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں رو رولا کہ اٹھتے ہیں آج اپنے ہاتھوں سے مے پلا کہ اٹھتے ہیں لوگ اپنے رازوں کو کیوں بتاکہ اٹھتے ہیں اہل زر کی عادت ہے لُٹ لٹاکہ اٹھتے ہیں اٹھ کہ دیکھ لو تم بھی ہم اٹھا کہ اٹھتے ہیں خوں بہا کہ بیٹھے تھے خوں بہا کہ اٹھتے ہیں راجپوت جنگوں میں سر کٹا کہ اٹھتے ہیں (أسامة جمشيد)
  11. اسامہ جمشید

    ایک حماقت کا ازالہ-ترمیم شدہ غزل

    دوستی پالتے ہو تم اس دور میں لوگوں سے بچے پالے نہیں جاتے اب سبحان اللہ۔
  12. اسامہ جمشید

    غزل: دو قدم ساتھ چل کے لوٹ گئے : از : محمد حفیظ الرحمٰن

    وہ جو خوگر تھے گرم موسم کے ٹھنڈی چھاؤں میں جل کے لوٹ گئے بہت خوب۔
  13. اسامہ جمشید

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں

    جزاک اللہ برادر
  14. اسامہ جمشید

    منزل

    منزلیں چھوڑ کر ہم چلے ہیں کہیں تم بھی آؤ کہ دیکھیں کسی کا سفر
  15. اسامہ جمشید

    منزل

    استاد گرامی ابھی کرتا ہوں ۔
  16. اسامہ جمشید

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں

    ’کہ اٹھتے ہیں‘ کہ ایک حرفی باندھا ہے
  17. اسامہ جمشید

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں

    غم سنا کہ اٹھتے ہیں رو رولا کہ اٹھتے ہیں آج اپنے ہاتھوں سے مے پلا کہ اٹھتے ہیں لوگ اپنے رازوں کو کیوں بتاکہ اٹھتے ہیں اہل زر کی عادت ہے لُٹ لٹاکہ اٹھتے ہیں اٹھ کہ دیکھ لو تم بھی ہم جگا کہ اٹھتے ہیں خوں بہا کہ بیٹھے تھے خوں بہا کہ اٹھتے ہیں راجپوت جنگوں میں سر کٹا کہ اٹھتے ہیں موت...
Top