( فاعلن مفاعیلن )
رہبروں کی شکلوں میں،
رہزنوں کی کثرت تھی،
بد گماں کِیا مجھ کو،
رہبَری سے اپنوں کی۔
رہزنی کا تو خدشہ،
ہر وقَت ہی منڈلایا،
چھانتا بھی گر (میں) سانپ
آستیں سے کِتنوں کی۔
مَر کے بھی نہ مِٹ پائے،
حق پہ جاں بحَق جو تھے،
قاتلوں کو ہیبت تھی،
وحشتوں سے سپنوں کی۔
چل پڑا تھا...