ایک نسبتاََ پرانی غزل چند اشعار کے اضافوں کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
وہ اپنی ابروِ خمدار کو عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں
مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلےِ آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں
مماثل ہو نہ جائیں اک چھلکتے جام کے ، سو ہم
تمھاری...