نتائج تلاش

  1. ابن رضا

    برائے اصلاح

    اس کی وضاحت تو سر الف عین ہی دے سکتے ہیں۔ انہی کا انتظار فرمائیے
  2. ابن رضا

    برائے اصلاح

    جان ابھی چھوٹی نہیں کہ ابھی مطلع دولخت ہے
  3. ابن رضا

    برائے اصلاح

    قربانی کیوں دیں. سے اور بنتے میں ے روی مانا جائے گا دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں اس لیے اسے مطلع ہی کہا جائے گا. مطلع کی یہ صورت قوافی کے لحاظ سے درست ہے اورباقی قوافی بھی درست شمار ہونگے
  4. ابن رضا

    بلبل مذکر هے یا مؤنث؟

    اسداللہ خان غالب
  5. ابن رضا

    زندگی کو وہ سانحہ سمجھے

    ایک تازہ غزل احباب کے ذوق کی نذر زندگی کو وہ سانحہ سمجھے عہدِ اُلفت کو اِک خطا سمجھے دردِ دل کی اُسے دوا سمجھے ہم جو سمجھے، تو کیا بُرا سمجھے رگِ جاں میں اُتر گئی ہو تم آرزوؤ! تمھیں خُدا سمجھے حسرتوں کا لہو تھا آنکھوں میں وہ جسے ایک عارضہ سمجھے حیف! اِک رابطے کی دُوری ہم زندگی بھر کا...
  6. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہیں ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں دم محبت کا یونہی بھرتے ہیں ابھی بھی ان اشعار میں فاعل غائب ہے
  7. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    بہت خوب!!! اس کی یادیں سمیٹ لیتی ہیں جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
  8. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    دو ہی نہیں قریباً سبھی اشعار ہی اجتماعی نوعیت کے ہیں
  9. ابن رضا

    بلا عنوان غزل

    تو لڑی کا عنوان بھی تبدیل کیا جاتا ہے
  10. ابن رضا

    بلا عنوان غزل

    اس کے لیے غزل کا پہلا مصرع استعمال کیا جاتا ہے
  11. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    بکھرتے، سنورتے وغیرہ میں قافیہ میں صرف روی کو جانچنے کے لیے عمومی طور پر روی سے اگلے حروف کو ردیف کا حصہ کہہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کے لیے علیحدہ اصطلاحات مروج ہیں جیسا کہ وصل، خروج وغیرہ. ردیف البتہ وہی ہوتا ہے جو قافیے کے مکمل لفظ کے بعد اگلا مکمل لفظ یا الفاظ ہوتے ہیں.
  12. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    کچھ دیر بعد حاضر ہوتاہوں
  13. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    میرے جوابات سے بھی پریشان نہ ہوئیے گا کہ یہ بھی سیکھنے کی غرض سے ہی ہیں
  14. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو تم بھروسے کا خون کرتےہو شاید ابلاغ کو بہتربنانے کے لیے کچھ ردوبدل کیجیے جیسے کہ دوستوں کو فریب دے کر تم کیوں بھروسے کا خون کرتے ہو اور ہیں کے ساتھ دوستوں کو فریب دے کر ہم کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں
  15. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں دم محبت کا یونہی بھرتے ہو اس میں بھی ہیں ردیف زیادہ بہتر ہے۔ البتہ فاعل ندارد اور کچھ اور ابیات میں بھی فاعل ندارد ہے
  16. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو تم بھروسے کا خون کرتےہو مطلع کے علاوہ باقی ابیات میں اگر شعر کے دونوں مصرعوں میں ردیف کی تکرارہو تو اسے عیب مانا جاتا ہے جسے شاید عیبِ تقابل ردیفین کہا جاتا ہے
  17. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    اولین دو اشعار کا مضمون ہو کی بجائے ہیں کے ردیف کا متقاضی ہے. آپ ہو کی جگہ ہیں پڑھ کر دیکھیے. یاد اس کی ہی چین دیتی ہے جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہو ہیں کے ساتھ ایک تجویز تاکہ بھرتی کا "ہی" نکل جائے اور فاعل بھی مبہم نہ رہے. مزید ترتیب بھی نثر کے قریب ہو جائے اس کی یادیں سمیٹ لیتی ہیں جب بھی ہم ٹوٹ...
  18. ابن رضا

    "غزل" برائے اصلاح

    واہ بہت اچھی کاوش ہے. کچھ مبتدیانہ رائے چلے گی حضور؟
  19. ابن رضا

    برائے اصلاح

    جالب صاحب کی غزل میں رہتے سہتے بہتے کہتے قافیہ کیا گیا ہے. اب ان الفاظ کی اصلی حالت دیکھیے وہ ہے رہ ۔ سہہ ۔ بہہ اور کہہ یعنی اس قافیے کا آخری اصلی حرف جسے روی کہا جاتا ہے وہ ہے "ہ" جس کا التزام ہر شعر میں ہے باقی ردیف کا حصہ ہے
Top