وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اُس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
اِس قدر خوف ہے اُس کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو...