کرنوں کی آوازیں سن کر کھڑکی کھولی
دیکھا سورج بھاگ رہا تھا
بادل رستہ روک رہے تھے
دور کسی پربت کے اوپر برف پڑی تھی
چڑیوں کی چہکار میں کوئی بین چھپا تھا
رستوں میں سناٹا اپنی
صدیوں کی بے کار مسافت کاٹ رہا تھا
خواب کدے میں تنہائی کی باہیں تھامے
میں دروازہ پیٹ رہا تھا
سپنوں کی دہلیز سے الجھی بوجھل...