تیرے آنے کا احتمال رہا
مرتے مرتے یہی خیال رہا
غم ترا دل سے کوئی نکلے ہے
آہ ہر چند میں نکال رہا
ہجر کے ہاتھ سے ہیں سب روتے
یاں ہمیشہ کسے وصال رہا
شمع ساں جلتے بلتے کاٹی عمر
جب تلک سر رہا وبال رہا
مل گئے خاک میں ہی طفلِ سرشک
میں تو آنکھوں میں گرچہ پال رہا
سمجھیے اس قدر نہ کیجے غرور
کوئی بھی...