غزل
افسونِ خاک دیدۂ تر شام ہوگئی
مایوس تو نہیں ہوں مگر شام ہوگئی
ضربت پہ دل کی رقص کیا دن گرز گیا
اتنا بہت ہے رختِ سفر شام ہوگئی
خورشیدِ عمر ڈھل کے کہیں دور جا بسا
دیوار سے الجھتے ہیں در شام ہوگئی
مدت کی بازگشت ہے صدیوں کی چاپ ہے
تارِ نفس پہ کان نہ دھر شام ہوگئی
خود ہی تماش بینِ تماشہ رہا...