نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : کون قسطوں میں جئے رات بسر ہونے تک - بیدل حیدری

    غزل کون قسطوں میں جئے رات بسر ہونے تک زندگی چاہیے اعلانِ سحر ہونے تک اُس کی فردوس میں کس منہ سے میں جاؤں واپس وہ تو خوش تھا مرے فردوس بدر ہونے تک کون ہوتی ہے یہ گردش کے نہیں ٹھہرے گی ہر سفر ہے مرے محبوبِ سفر ہونے تک اے مری تشنہ لبی کو نہ سمجھنے والو! دیکھتے رہنا مجھے خون میں تر ہونے تک...
  2. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : خبر کے دور میں سرِ نہاں کی فکر میں ہوں - عزیز حامد مدنی

    غزل خبر کے دور میں سرِ نہاں کی فکر میں ہوں ہوا کہاں کی ہے اور میں کہاں کی فکر میں ہوں مسافری کا جنوں بے چراغ صحرا میں وہ خواب ہے کے کسی ترجماں کی فکر میں ہوں جہاں چراغ جلائے ہیں روحِ عصمت نے وہیں سے جادۂ عصیاں نشاں کی فکر میں ہوں وصال میں بھی وہ کہتا ہے قرب کی ساعت زیاں ہے ہوش کا اس...
  3. فرحان محمد خان

    عزیز حامد مدنی غزل : صورتِ زنجیر موجِ خوں میں اک آہنگ ہے - عزیز حامد مدنی

    غزل صورتِ زنجیر موجِ خوں میں اک آہنگ ہے آگہی کی حد پہ اک خوابِ جنوں سے جنگ ہے جانے کن چہروں کی لو تھی جانے کس منظر کی آگ نیند کا ریشم دھواں ہے خوابِ شعلہ رنگ ہے اک جنوں خانے میں خود کو ڈھونڈتا ہے آدمی خود طوافی میں بھی خود سے سیکڑوں فرسنگ ہے طوقِ آہن سے گلوئے عشق میں تارِ حریر شاخِ گل...
  4. فرحان محمد خان

    مری حیاتِ گزشتہ کا ماحصل شاید

    بہت خوب غزل بھائی داد قبول کیجیے
  5. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی نظم : مرزا غالب - رئیس امروہوی

    مرزا غالبؔ مرزا غالبؔ سے باز دید اپنی عالمِ خواب میں ہوئی کل رات اسد اللہ خان غالبِؔ وقت اللہ اللہ وہ رندِ خوش اوقات وہ بقا کو فنا کا تحفۂ شوق وہ عدم کو وجود کی سوغات جس کے ہر لفظ میں نہاں اک رمز جس کی ہر بات میں نہاں اک بات مو بہ مو وہ صفات کا محرم دُو بدو وہ حریفِ جلوۂ ذات دیکھتا کیا...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے - سرمد صہبائی

    غزل ہو لاگ درمیاں تو کوئی دل بھی تب لگائے بیٹھے رہو امید یونہی بے سبب لگائے جو قرض ہجر سونپ گیا عُمر کے عوض شرطِ وصال اس سے کہیں بے طلب لگائے کس جیبِ احتیاط میں رکھیں متاعِ دل بیٹھا نہیں کہاں پہ وہ رہزن نقب لگائے کھلتا نہیں ہے عقدہ شبِ انتظار کا یاروں نے داو پیچ یہاں سب کے سب لگائے چاروں طرف...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : غبارِ خواب نقشِ رایگاں رہنے دیا ہوتا - سرمد صہبائی

    غزل غبارِ خواب نقشِ رایگاں رہنے دیا ہوتا کوئی تو میرے ہونے کا نشاں رہنے دیا ہوتا اے شامِ ہجر جو کچھ چھینا تھا چھین لیتی تُو کسی کے لوٹ آنا کا گماں رہنے دیا ہوتا ہم آشفتہ سروں پر اس زمیں نے تنگ ہونا تھا تو پھر سر پر ذرا سا آسماں رہنے دیا ہوتا کنارِ مرگ سب رکتے مگر آوارگی تُو نے ہمیں اس...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے - سرمد صہبائی

    غزل خود مرا عکس مجھے اجنبی دکھلائی دے کون ہو گا جو مجھے میری شناسائی دے پھر وہی دشت کے ہاتھوں میں چمکتا ہے سراب پھر وہی آنکھیں مری پانی ہی دکھلائی دے اے مرے شہر لے سب رونقیں واپس اپنی اور مجھے میرا وہی کوشۂ تنہائی دے میری آنکھوں سے کہاں نکلیں گے لعل و گوہر ہاں اگر مجھ کو سمندر کی سی...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : شہرِ جاں کی سیڑھیوں پر در بدر بکھرئے ہوئے - سرمدؔ صہبائی

    غزل شہرِ جاں کی سیڑھیوں پر در بدر بکھرئے ہوئے راکھ ہوتی خواہشوں کے بال و پر بکھرئے ہوئے دُور تک اس خاک پر کچھ نقش ہیں مٹتے ہوئے اور کچھ پتے کنارِ رہ گزر بکھرئے ہوئے چاند رکتا ہے نہ آنگن میں ٹھہرتی ہے ہوا ہیں کہاں جانے پہ میرے ہم سفر بکھرئے ہوئے اہتمامِ ہجر ، تزئینِ تمنا ، حسنِ غم جس طرف...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا - سرمدؔ صہبائی

    غزل زخم ہے یا گُہر نہیں کھلتا عشق بن یہ ہنر نہیں کھلتا ہم تو بیٹھے ہیں رختِ جاں باندھے اور خوابِ سفر نہیں کھلتا دستکیں دے کے ہار جاتا ہوں اپنے ہی گھر کا در نہیں کھلتا دیکھتا کیا ہے سوختہ جاں کو یہ دُھواں آنکھ پر نہیں کھلتا کون چلتا ہے ساتھ ساتھ اپنے بھید یہ عمر بھر نہیں کھلتا ہم...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا - سرمدؔ صہبائی

    غزل دل درد سے سیراب تھا اور آنکھ میں نم تھا اس جاں کے بیایاں میں کوئی سبز قدم تھا تم رنگِ تماشا میں مجھے دیکھ رہے تھے میں جس میں رواں تھا وہ کوئی خوابِ عدم تھا یہ عمر تو اک ہجرِ مسلسل ہے مری جاں ہم جس میں ملے تھے وہ کوئی اور جنم تھا عریاں گلِ مہتاب تھا قامت کے افق ہر اک چڑھتے بہاؤ میں...
  12. فرحان محمد خان

    مبارکباد استاد محترم جناب الف عین صاحب کو بتیس ہزاری منصب مبارک

    استادِ محترم! بہت بہت مبارک ہو اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین
  13. فرحان محمد خان

    غزل : ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر ویرانہ جو ہوتا کوئی گلشن کے برابر کیوں اہلِ نظر ایک ہے دونوں کی طبیعت سُنبل نے جگہ پائی جو سوسن کے برابر میں دام پہ گرتا نہیں اے ذوقِ اسیری ہاں کوئی قفس لائے نشیمن کے برابر میں بھول نہ جاؤں کہیں انجامِ تمنا بجلی بھی چمکتی رہی خرمن کے برابر کیا لطف...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : وہ جو اک قطرہ ہے پانی کا ہوا سے خالی - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل وہ جو اک قطرہ ہے پانی کا ہوا سے خالی دلِ دریا میں ہے اور فکرِ فنا سے خالی اب خلش ہے کہ نہیں پوچھنے والا کوئی ہائے وہ گھر جو ہو سائل کی صدا سے خالی فطرتِ ظُلم جو دم لے تو سنبھل کر دیکھو کتنے ترکش ہیں یہاں تیرِ جفا سے خالی ہے نتیجے میں وہ ناکام ، زمانے کی قسم زندگی جس کی رہی کرب و بلا سے...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی آیا جہاں اندھیرا وہیں روشنی ہوئی حدِ نظرہے اور ، ہے کچھ اور حدِ علم ہرشے میں کوئی شے ہے یقیناََ چھپی ہوئی بازارِ زیست میں ہے امانت ہر ایک جنس فی الحال ایک جان ہے وہ بھی بِکی ہوئی جس کو خزاں میں صبر و سکوں سے ملا قرار آئی بہار ان کا پتہ پوچھتی ہوئی...
Top