نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : نہیں ہے آتشِ زرتشت ، روز و شب نہ جلے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل نہیں ہے آتشِ زرتشت ، روز و شب نہ جلے یہ دل ہے جلوہ گہہِ طُور ، بے سبب نہ جلے ہے باغباں کی یہی مصلحت تو عبرت ہے جلا ہے میرا نشیمن تو سب کا سب نہ جلے ہوائے دہر سے شعلے بھڑک رہے ہوں جہاں خدا کی شان ہے ، کوئی ہو جاں بَلَب نہ جلے دل و نگاہ کی وسعت عجب بلندی ہے حسد ہے دل میں تو کیوں کوئی کم...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے شرکت ہے احتیاج ، صمد لا شریک ہے بدبخت کون ہے نہ کُھلا سب نے یہ کہا کشتی کے ساتھ ڈوبنے والا شریک ہے ہر فتحیاب کے لئے تنہا تھا تیرا نام اب جشنِ فتح میں تو زمانہ شریک ہے یہ دوست کا ہے غم تو مبارک مکر یہ سوچ اس غم میں کس قدر غمِ دنیا شریک ہے ظاہر میں...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو بہاروں پر خزاں آئے ، بہاروں میں خزاں کیوں ہو جلا ڈالا نشیمن باغباں نے اس بہانے سے کہ اس سُوکھی ہوئی ڈالی پہ تیرا آشیاں کیوں ہو نیا قصہ ہے اے کاتب نیا عنوان قائم کر شریکِ داستانِ غیر میری داستاں کیوں ہو گھر اپنا ڈھونڈ لیتا ہے فضا میں ٹوٹتا تارا...
  4. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے - نصیر ترابی

    غزل تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے یہی شہر شہرِ قرار ہے تو دلِ شکستہ کی خیر ہو مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے یہ وہ...
  5. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں - نصیر ترابی

    غزل دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں دیئے کے گرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں یہ روح رقصِ چراغاں ہے اپنے حلقے میں یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا میاں یہ آنکھ پردہ ہے اک گردشِ تحیر کا یہ دل نہیں ہے بگولہ اچھل رہا ہے میاں کبھی کسی کا گزرنا کبھی ٹھہر جانا مرے سکوت میں کیا کیا خلل رہا ہے...
  6. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : آئیں گے لوٹ کر کہاں بیتے دنوں کے کارواں - نصیرؔ ترابی

    غزل آئیں گے لوٹ کر کہاں بیتے دنوں کے کارواں گرد بھی ساتھ لے گئے ناقہ سوار و سارباں خاک ہے کوئے دل براں خواب ہے شہرِ دوستاں اس کے سوا ہے اور کیا اُجرتِ عمرِ رائیگاں وقت ہے کوہِ خود نگر دید و شنید بے اثر تو ہے ادھر تو میں ، ادھر برف جمی ہے درمیاں خار و خسِ ملال کیا سیلِ رم و قرار میں...
  7. فرحان محمد خان

    لبریزِ حرارت ہے تنِ زار کی رگ رگ - صفیؔ لکھنوی

    لبریزِ حرارت ہے تنِ زار کی رگ رگ سرگرمِ تپش عشق کے بیمار کی رگ رگ آخر کو ہوئی نغمۂ منصور سے دیکھو لبریزِ انالحق رسن و دار کی رگ رگ جب شوخ طبیعت ہے ادا شوخ ، نظر شوخ کس طرح نہ پھڑکے بتِ عیار کی رگ رگ کہہ سے یہ صفیؔ کوئی مسیحا سے کہ جلد آ دم توڑ رہی ہے ترے بیمار کی رگ رگصفی لکھنوی
  8. فرحان محمد خان

    غزل : ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے - سرمد صہبائی

    غزل ہوا کے لمس میں پھولوں کا جیسے دم بدلتا ہے اسے چھوتے ہی سارے جسم کا موسم بدلتا ہے یونہی شام و سحر کے پیچ رک جاتا ہے اک لمحہ اچانگ چلتے چلتے راستے کا خم بدلتا ہے اسی بابِ فنا سے روز اک خلقت گزرتی ہے ہزاروں راستے ہر روز پھر آدم بدلتا ہے کرشمہ ہے کوئی یہ اس بتِ آذرؔ کے بوسے کا کہ شعلہ...
  9. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی غزل : ہجومِ غم سے مفَر کا خیال کیوں آیا - رئیس امروہوی

    غزل ہجومِ غم سے مفَر کا خیال کیوں آیا یہ سُوچتا ہوں سَحر کا خیال کیوں آیا بہت دنوں سے قدم بھی جدھر نہ اُٹھے تھے بہت دنوں میں ادھر کا خیال کیوں آیا جنونِ شوق تری سمت کیوں ہوا مائل جہاں نورد کو گھر کا خیال کیوں آیا ترے بغیر ہر اک انجمن ہے ویرانہ ترے بغیر سفر کا خیال کیوں آیا ابھی تو...
  10. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : اب صبح کوئی دم ساز نہیں اب شام نہیں دلدار کوئی - نصیر ترابی

    غزل اب صبح کوئی دم ساز نہیں اب شام نہیں دلدار کوئی یا شہر کے رستے بند ہوئے یا دل میں اُٹھی دیوار کوئی وہ شہر نہیں ، وہ دور نہیں ، وہ لوگ نہیں ، وہ طور نہیں سر اپنا اُٹھا کر کون چلے ، کیا سر پہ رکھے دستار کوئی اب کے تو صبا بھی تنگ آ کر اس وادیِ گُل سے لوٹ گئی سب نیند میں چلتے پھرتے ہیں کس...
  11. فرحان محمد خان

    نصیر ترابی غزل : ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا - نصیر ترابی

    غزل ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا...
Top