خزاں رسیدہ ہے چمن کوئی حساب تو ہو
بہار کا ہو احتساب کچھ جواب تو ہو
کوئی جدائی کی رتوں کا بھی شمار کرے
کوئی تو قائدہ ہو، یار کچھ نصاب تو ہو
وصال یار پیار کی نہیں ہے شرط مگر
کوئی گمان ہو کہیں کوئی سراب تو ہو
رہ وفا پہ ہر ہی شب بہت اندھیر ہوئی
کہیں فلک پہ ستارہ یا ماہتاب تو ہو
گو بے تکلفی...
کچھ کوشش کی ہے۔ اب یہ صورت ہے
کبھی گلاب کبھی چاند مستعار لیا
ترے فراق کا موسم ہونہی گزار لیا
عجیب موسم گل کا نکھار ہے اب کے
لگے کہ تجھ سے بہاروں نے کچھ ادھار لیا
جو صورتیں ہی بدل کے نگاہ میں رہتا
اسی نے آج گماں کا ہے روپ دھار لیا
چراغ شب وہ سحر تک نہ بجھ ہی پایا تھا
گو بام و در سے ترا ہر...
چاند تاروں کو یا پھولوں کو مستعار لیا
تیرے فراق کا موسم یونہی گزار لیا
اس دفعہ موسم گل میں کمال ایسا ہے
لگے کہ تجھ سے بہاروں نے کچھ ادھار لیا
وہ جو چہرے بدل کے آس پاس رہتا تھا
وہم کا اب کی بار اس نے روپ دھار لیا
نہ ہوا گل چراغ شب سحر کے ہونے تک
گو بام و در سے تیرا ہر نشاں اتار لیا
مری...
ملنا
اتنا
سلنا
مٹنا
کِھلنا
دِکھنا
بِکنا
لِکھنا
کتنا
جتنا۔۔۔
مجھے "ملنا" کے ساتھ قوافی کی ضرورت ہے مگر ذہن میں کِھلنا، سِلنا، ہِلنا کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا اس لیئے سوچا پتہ کر لوں اگر یہ سب استعمال کر سکتی ہوں تو کر لوں۔
پہلی صورت میرے حساب سے بهی درست نہیں ہے یا میرے جیسے کم تجربہ والے شعراء اس میں اچها نہیں لکھ سکتے. اسی لئے پوری بحر بدل دی ہے. اس میں بهی الفاظ زیادہ لگ رہے ہیں؟
لیکن ان الفاظ کو ہٹا دینے سے وزن نہیں خراب ہو جاتا؟ یا یہ کسی اور بحر میں دیکھ رہے ہیں آپ؟
سر پہلے اس دوسری صورت میں قوافی درست کر لیتے ہیں پلیز.
ڈهل چکا سورج مگر، صبح نئی کرتا رہا
رات بهر یہ ہی یقیں، حوصلہ بنتا رہا
ایسے کیسا ہے؟
سر یہ بحر میں ہی نہیں ہے.. پوری کی پوری غزل.. میں نے تبدیل کر دی ہے دیکھ لیجیئے گا پلیز
ڈهل چکا سورج نئی، صبح بهی دکهلاتا رہا
رات بهرمظر یہی، حوصلہ بنتا رہا
زندگی کے شور میں، سن نہ پائی جو مرا
جل رہا وہ گهر مجهے، اک صدا دیتا رہا
جنکی بنیادیں ہوئی، جھوٹ پر تعمیر تهیں
ان گھروں کا ہر مکیں، خوف...