نتائج تلاش

  1. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    رات آنکھوں میں ایک سپنا تھا دور رہ کر بھی کوئی اپنا تھا تیرے دیدار کی خبر پا کر آج ہی چاند کو چمکنا تھا قافلے دور تھے بہاروں کے شاخ گل کو کہاں پنپنا تھا تاب دیدار تھی کہاں دانش بس کنکھیوں سے ان کو تکنا تھا
  2. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اب کے برس بھی ساون ہم کو دیکھو خون رلائے گا برسوں پہلے بچھڑا ساتھی رہ رہ کر یاد آئے گا دیوانے کے خرمن جاں سے خون کے جھرنے بہنے دو صحراؤں کی دھول پہ اپنا نام تو لکھا جائے گا یادوں کے سونے آنگن میں کب تو ملے گا یہ تو بتا تیرے وعدوں کا سورج بھی آخر کو گہنائے گا صحراؤں کے در پہ یارو...
  3. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    لب ساتھ دیں گے پھر بھی کوئی بات نہ ھو گی پلکوں سے آنسوؤں کی ملاقات نہ ھو گی اشکوں سے تر بہ تر ہےوہ نرگس تو دیکھیئے کہتے ہیں بن گھٹاؤں کے برسات نہ ہو گی گُل گُو نہ ہو گی ڈولی، عروس بہار کی گلہائے خونچکاں کی جو بارات نہ ہو گی وہ مہ جبیں جو آئے سربام دیکھنا ڈھل جائے آفتاب مگر رات نہ ہو...
  4. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    رخسار یار پر ھے غازہء گلاب کیا خوب ھے بہار کا یہ حسن انتخاب فرقت میں آہ و اشک بھی بیکار ھی گئے کم ہو سکا نہ سینہء ہستی کا التہاب نیندوں کو رت جگے کی قبا لپیٹ کر آنکھوں میں آ بسے ھیں ہزاروں حسیں خواب کچھ ہم بھی تیزگام نہ تھے راہ شوق میں کچھ اپنے حال پہ رہا احباب کا عتاب حیرت کے...
  5. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ذرا روپ اپنا لٹاؤ تو جانیں کبھی ہم کو مجنوں بناؤ تو جانیں ہو تم کس قدر ھم سے چاھت کے طالب فصیلِ انا کو گراؤ تو جانیں جسے لے اڑی ھیں زمانے کی رسمیں وھ چاہت کا نغمہ سناؤ تو جانیں نشاط چمن ہے کلی کا تبسم ہمیں کیا خبر،مسکراؤ تو جانیں سنا ھے کہ قربت تمہاری حسیں ھے کبھی دل کی دنیا...
  6. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اب کے تنہائی کیسے در آئی دل کی دھلیز پر اُتر آئی ہو پذیرائی جیسے یادوں کی آنکھ میں یوں نمی اُتر آئی جان اس زندگی کے درپن میں تجھ سی صورت نہ پھر نظر آئی روشنی جو بٹی ستاروں میں تیرگی بن کے یوں اُبھر آئی تجھ سے بچھڑا تو یوں ہوا دانش ایک بے نام سی خبر آئی
  7. م

    پ ب الف کا کھیل -------- الٹی گنگا ( سلسلہ نمبر3)

    فیصلہ سازی میں قلم کا کردار کلیدی اھمیت کا حامل ھے
  8. م

    الف بے پے کا کھیل 38ویں قسط

    قیمتی مشورہ ھوا یہ تو،یعنی وزن بڑھانے کے لیے فالودہ کھایا جائے
  9. م

    اکھیاں نوں رہن دے-ریشماں

    آمین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
  10. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اشکوں کو خون دل سے سجاتے رہے ہیں ہم اس حال میں بھی تجھ کو ہنساتے رہے ہیں ہم تو بھی،تیرا خیال بھی اپنا نہ ہو سکا گو شمع آرزو تو جلاتے رھے ہیں ہم چرخ کہن نے دیکھی ہے خوداریء جنوں تیغ سخن سے سر کو کٹاتے رہے ہیں ہم ہاں عاصیوں کا حشر میں کچھ تو رہے خیال قسمیں تیرے شعار کی کھاتے رہے ہیں...
  11. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    گھروندے بھی تم نے بنائے تو ہوں حسین خواب ان میں سجائے تو ہوں گے چرا کے ترے شوخ آنچل کے سائے بہاروں نے اکثر بچھائے تو ہوں گے کبھی تیرگی غم کی چھائی جو ہو گی دیئے چشم نم نے جلائے تو ہوں گے مرے حرف سادہ کا پیغام پڑھ کر وہ کچھ دیر تک مسکرائے تو ہوں گے نہیں آئے دام محبت میں دانش ہنر...
  12. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    شاکی کچھ اس لئے بھی نہیں ہم نصیب کے محفوظ بام و در بھی کہاں ہیں رقیب کے دل کا دیا جلایا تو تنہائیاں بڑھیں کچھ اور دور ہو گئے سائے قریب کے کیا اپنے حرف سادہ کو خاطر میں لائے وہ بیٹھا ہے جو سمجھ کے اشارے رقیب کے بیمار عشق چل دیا حسرت لئے ہوئے کتنے نرالے ہوتے ہیں درماں طبیب کے اس...
  13. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    میراث فصل گل ھے تیرا بانکپن تمام افشا یہ راز کر گئی موج ہوائے شام کس بےرخی سےیار نے شانے جھٹک دئیے دوران گفتگو بھی جو آیا تمھارا نام اک ربط مُستمر سے یہ پہچان تو ہوئی خنداں ھے ہار کے بھی عشق نیک نام محو طواف تھیں نظریں رقیب کی وہ پھر بھی لے گئے مری آنکھوں کا پیام لیلائے شب کو...
  14. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    صحرا سے جنگلوں سے نکلتی چلی گئی تنہائیوں کی رات گزرتی چلی گئی کن راستوں سے ہو کے وہ یاد برھنہ پا چپکے سے جان و دل میں اترتی چلی گئی زخم جگر کی تازگی ٹھہری ندیم راہ ہر رہگزار یاد نکھرتی چلی گئی چرخ کہن کے شیشے پہ تصویر وہ بنی دانش دل و نظر میں اترتی چلی گئی
  15. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    دیا نام الفت کا آؤ جلا لیں دلوں کی کدورت کو دل سے نکالیں بڑے زور پر ہے سمندر وفا کا بڑھیں اور موجیں گلے سے لگا لیں ابھی تازہ دم ہے یہ بستی وفا کی چلو آؤ چاہت کی کھیتی اگا لیں کڑی دھوپ کا سامنا ہے جنوں کو کہو ان سے کاکُل کا سایہ تو ڈالیں گزر ہی گئیں منزلیں آگہی کی خرد کی بلاؤں...
  16. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اپنا تو ھے اتنا کہنا ھر غم یارو ھنس کے سہنا میل ملن کی رت آنے دو تھم جائیں گے آنسو بہنا قوس قزح کا ہار فلک نے برکھا رت کے ہاتھوں پہنا پھر سے پت جھڑ کے موسم نے نوچ لیا پیڑوں کا گہنا چاہت کے ہر غم کو سہہ کر دانش تم خاموش ہی رہنا
  17. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    راہیں غمِ حیات کی آساں ہیں دوستو نظریں کسی پہ آج غزلخواں ہیں دوستو دلدل میں تیرگی سے ملے نور کی ردا شہروں کے گرد شہر خموشاں ہیں دوستو نازاں ہیں جو شباب میں حسن و جمال پر تجریدِ برگِ گُل پہ ہراساں ہیں دوستو ارمان کی چتا پہ شرربار ہو کے وہ خود سوزئ بہار پہ خنداں ہیں دوستو ھر موجِ...
  18. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    وہ بے نیاز بیٹھے رہے دل لیے ہوئے اپنی نگاہ ناز کا حاصل لیے ہوئے یہ کون فاصلوں کو ہی مہمیز کر گیا راہیں رواں دواں رہیں منزل لیے ہوئے آزادئ جنوں کے وہ موسم گزر گئے بکھری ھے زلف یار سلاسل لیے ہوئے گھونگھٹ اٹھا رہی ہے جو دانش ردائے شام بدلی کی اوٹ میں مہ کامل لیے ہوئے
  19. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    برگد کے پرانے پیڑ تلے پھر دو سائے لہرائے ھیں _ شفیع حیدر دانش برگد کے پرانے پیڑ تلے پھر دو سائے لہرائے ہیں دنیا کی نگاہوں سے بچ کر پھر دو دل ملنے آئے ہیں خوابوں میں خوشبو ہے تیری یادوں کے رنگ بھی دیکھ ذرا اس دل کے افق پر اے جاناں کب چاند تیرے گہنائے ہیں یہ دل یہ شام یہ خاموشی تا حد نظر...
  20. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ملگجی شام پھر نہیں آئی _ شفیع حیدر دانش ملگجی شام پھر نہیں آئی لے کے دامن میں اپنے رسوائی کھو چکے ہیں متاع جان و جگر نزہت بزم کے تمنائی ہے ہر اک روپ میں ترا پرتو تُو تو نکلا بڑا ہی ہرجائی تیرگی وہ ملی شب فرقت جس سے نرگس بھی خوب شرمائی یوں کھلے ہیں دریچے یادوں کے بڑھ گیا اور شوق...
Top