نتائج تلاش

  1. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اپنا وہ گِر نہیں ہے تو کیا غم ہے دوستو خوابوں میں مِلنے آئے یہ کیا کم ہے دوستو روتی رہیں فراق میں کلیاں تمام رات صبحِ نشاط نے کہا شبنم ہے دوستو پنچھی جو گیت گاتےہیں جھرنوں کےساز پر دنیائے بیکراں کا یہ سرگم ہے دوستو آنے لگی ہے دور سے پائل تری صدا تنہائیوں کا شور بھی مدّہم ہے دوستو...
  2. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    صُبح ڈُوبا تو ہر اِک شام اُبھر آتا ہے چاند آنگن سے تِرے اور جلا پاتا ہے تجھ سےبچھڑےتو یہ کچھ اور بھی ہوتا ہےمُہیب دِل کے ویران جزیروں میں جو سناٹا ہے کتنے کم ظرف ہیں بادل جو برس جاتے ہیں اپنی آنکھوں میں تو سیلاب سمٹ آتا ہے ڈُوبتا دیکھ کے , ساحِل بھی بہت دور ہوئے کون کہتا ہے کہ...
  3. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    فُرقت میں بازی لے گیا تُجھ سے تِرا خیال میں ہوں تِرا خیال ہے کُچھ بھی نہیں ملال ہر شے فنا کی آگ میں یوں چیختی رہی جِس ذات کو بقا ھے وہ ہے ربِ ذُوالجلال کُچھ اِس طرح سجی ہے مِری چشمِ اشکبار سب ہی رُتوں پہ چھا گئی ہو جیسے برشگال کیا پھر کبھی سُنیں گے یہی سوچتے رہے جیسی کہ دے گئے ھیں...
  4. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ہجر میں بھی عجب سماں پایا تجھ کو یادوں کے درمیاں پایا چارہ گر نے تِرے حوالے سے دِل کے داغوں کو جاوداں پایا عِشق میں ہر مقام پر یارو حُسنِ نازاں کو بدگماں پایا کیا صفائی ھے دستِ قدرت میں ایک ذرے میں بھی جہاں پایا جب دُکھوں میں سکون تھا دانش راحتوں کو وبالِ جاں پایا
  5. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    دیکھوں فلک کے پار تو دوری کا ہو گماں تیرے لئے تو ذرہ ہے دنیائے بیکراں مقدور بھر تمام عناصر میں نُور ہے ادراک تیرے نُور کا مخلوق کو کہاں بچھڑا جو تُو تو اشک بھی ہونے لگے رواں جیسے سمجھ لیا ہو تجھے میرِ کارواں یہ جان کر کہ عالمِ ہستی ہے چار دن کچھ اور بڑھ گئی ھے یہ رنگینئی جہاں ہم...
  6. م

    نوک جھونک

    کس ٹاپک پر بات ھو رھی ھے یہاں
  7. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    صحرا نوردیوں کا صِلہ بھی نہ مل سکا خونِ جگر سے لالہء صحرا نہ کھِل سکا آنکھوں میں وہ سجائےہےصدیوں سےمیکدے یہ اور بات ہے اُسے میکش نہ مل سکا چارہ گروں کے ہاتھ میں تھی سوزنِ حیات پھر بھی ہماری زیست کا دامن نہ سِل سکا یوں تو میرے مسیحا کے خنجر تھے تابدار پاتالِ جاں میں درد کا کانٹا نہ...
  8. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    نقشہ مرے نگر کا مقتل سا چار سو ہے ہر مُشت خاک دیکھو کیسی لہو لہو ہے اب کے برس بہاریں جانے کہاں گزاریں ہر پھول کی زباں پر پیہم یہ گفتگو ہے لیلٰی نے توڑ دالا جو کاسہء گدائی پوشیدہ اس جنوں میں مجنوں کی آبرو ہے بازی میں جان جاناں سب کچھ ہی ہار بیٹھا اب آخرت کی پونجی بس ایک تو ہی تو ہے...
  9. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    جہان نمو کی عجیب ہیں ادائیں کہیں غم کے صحرا کہیں سکھ کی بانہیں کہیں پھر نہ جائیں رُتیں چاہتوں کی چلو کشت جاں پر محبت اگائیں غموں کے تواتر کا اک سلسلہ ہے کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں جنہیں ہم نے جگنو سمجھ کر سمیٹا وہ یادیں ہمارا ہی دامن جلائیں اندھیری رتوں سے دلوں کو بچا کر لہو...
  10. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اکھیوں کی جھیل کے کنارے اشکوں نے دن بہت گزارے لمحوں پہ ہے بس کہاں بشر کا اُس عمر کو کس طرح پکارے نوچی ہیں پتیاں شجر کی موسم نے دلگی کے مارے اپنی آرزدگی کا موجب تیری محبوبیاں ہیں پیارے بھولے سے کہکشاں زمیں پر کرنوں کے تھال تو اتارے پھیلے ہیں تیرگی کے جنگل جیسے ہوں دشت جاں...
  11. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    مجھے سکھاؤ نہ یارو چلن ستاروں کے بتاؤ معنی و مطلب حسیں اشاروں کے پیام صبح تو اے ہم قفس نہیں آیا فلک پہ گل ہیں ہوئے دیپ بھی ستاروں کے ترے فراق میں ہم گرچہ جان سے گزرے ہیں شہر دل پہ نشاں پھر بھی رہگزاروں کے بہت عروج پہ ہے شدت جمال ترا دھڑک رہے ہیں یہ سینے جو فن کے پاروں کے غریق آب...
  12. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    دل جسے کہتے ہو یارو کوچہ تنہائی ہے اور فروغ غم کی خاطر تیرگی در آئی ہے اک زمانہ تھا کہ ہر سو تھیں تری مہ تابیاں اب شب فرقت میں تیری یاد بھی گہنائی ہے تیری صورت بھی تو طفلان چمن میں بٹ گئی ہم سر بازار آ بیٹھے ہیں تو ہرجائی ہے کیسا سناٹا ہے یہ گوش ملامت کچھ بتا اب کہاں وہ گیت ہیں اور...
  13. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    دل اس کی قربتوں کا طلب گار بھی نہیں اس کی گلی میں جانے سے انکار بھی نہیں رنگینئ جہان فقط ترے دم سے تھی سونی فضا میں اب کوئی جھنکار بھی نہیں کیوں آ رہا ہے وہ ترے گیسو سنوارنے تو اس کی چاہتوں میں گرفتار بھی نہیں اچھا ہے دل کا حال نگاہوں سے کہہ دیا ہاں ان لبوں کو عادت گفتار بھی نہیں...
  14. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ہر رت گزر گئی ہے مگر دل اداس ہے موسم ترے ملاپ کا بس اس کو راس ہے احساس کی قبا کو لہو میں ڈبو لیا ساماں ترے نشاط کا سب میرے پاس ہے تہذیب نو پہ آ گئے پت جھڑ کے سلسلے مثل شجر ہر ایک یہاں بے لباس ہے شاید متاع دل انہی راہوں پہ کھو گئی پچھلے پہر کے چاند کا چہرہ اداس ہے مرنے کی آرزو بھی...
  15. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اس اجنبی کی چاہت میں کیا ملا بتائیں دامن میں زندگی کے کچھ اشک اور آہیں ہیں شام کے بدن پر بھیگی ہوئی قبائیں پھر رات بھر چلیں گی یہ شبنمی ہوائیں اب تُو نہیں تو جاناں کس کام کی یہ محفل پھر سے حریم دل کو کس کے لیے سجائیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ھم بے نیاز گھومے دیتی رہیں صدائیں پردیس کی...
  16. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    موت جوں جوں قریب آتی ہے عمر رفتہ بہت ستاتی ہے چاند تاروں کی بزم حیرت میں تیری صورت کسی کو بھاتی ہے زندگی کے دوام کی خاطر موت ہر اک بشر کو آتی ہے کوئی نازک خرام ہو گزرا وقت کی چال یہ بتاتی ہے عشق بھی کھیل ہے عجیب دانش دل کی دنیا لٹائی جاتی ہے
  17. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ہم شش جہات گھومے پایا نہیں خدا سا وہ ہے قرین جاں ،پر لگتا ہے ماورا سا کس کام کی تشفی کس کام کا دلاسا ہم کو ملا ہے یارو کچھ دل ہی منچلا سا اب کے برس نہ دیکھی رنگینئ بہاراں شاخیں خزاں رسیدہ ہر پھول ادھ کھلا سا اپنا بھرم گنوایا کچھ ہاتھ بھی نہ آیا صحرا بھی ہم سے برسوں کرتا رہا گلا سا...
  18. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    اس اجنبی کی چاہت میں کیا ملا بتائیں دامن میں زندگی کے کچھ اشک اور آہیں ہیں شام کے بدن پر بھیگی ہوئی قبائیں پھر رات بھر چلیں گی یہ شبنمی ہوائیں اب تُو نہیں تو جاناں کس کام کی یہ محفل پھر سے حریم دل کو کس کے لیے سجائیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہم بے نیاز گھومے دیتی رہیں صدائیں پردیس کی...
  19. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    موت جوں جوں قریب آتی ہے عمر رفتہ بہت ستاتی ہے چاند تاروں کی بزم حیرت میں تیری صورت کسی کو بھاتی ہے زندگی کے دوام کی خاطر موت ہر اک بشر کو آتی ہے کوئی نازک خرام ہو گزرا وقت کی چال یہ بتاتی ہے عشق بھی کھیل ہے عجیب دانش دل کی دنیا لٹائی جاتی ہے
  20. م

    انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

    ہم کو گلا نہیں ہے دل بیقرار سے کچھ ہے اگر تو قطرہء خوں کے شرار سے موج ہوائے شام سے معلوم یہ ہوا مرنا برا نہیں ھے تیرے انتظار سے دست خزاں نے نوچ کے ناسور کر دیئے وہ زخم نو جو پائے تھے فصل بہار سے دل کے نگر میں وہ تری سانسوں کا ارتعاش خوشبو لٹا رہا ہے قرب و جوار سے ہر شاخ آرزو پہ...
Top