لیڈر کی دُعا
(اسرار جامعی - کلاسکی روایت کے ممتاز مزاحیہ شاعر،اپنی مخصوص زبان اور طرزاظہار کے لیے مشہور)
ابلیس مرے دل میں وہ زندہ تمنّا دے
جو غیروں کو اپنا لے اور اپنوں کو ٹرخا دے
بھاشن کے لیے دم دے اور توند کو پھلوا دے
پایا ہے جو اوروں نے وہ مجھ کو بھی دلوا دے
پیدا دلِ ووٹر میں وہ شورشِ محشر...
غزل
(آتش بہاولپوری)
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہوجاتا ہوں میں
دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہوجاتا ہوں میں
طور پر جا کر کلیمِ طور ہوجاتا ہوں میں
یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہوجاتا ہوں میں
اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا...
غزل
(آتش بہاولپوری)
مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے
میری بھی کوئی قیمت ہوگئی ہے
وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں
یہ دنیا خوب صورت ہوگئی ہے
چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں
بیاں مجھ سے حقیقت ہوگئی ہے
رواں دریا ہیں انسانی لہو کے
مگر پانی کی قلت ہوگئی ہے
مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے
ستم سہنے کی عادت ہوگئی...
غزل
(شہریار)
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دِل ہے تو دھَڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے
!تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حدِ نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زُود پشیمان ،...
شکریہ فرخ منظور صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کے لیئے۔۔
میں نے یہ غزل تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے ملی نہیں۔۔کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے میں تلاش کرتا ہوں۔ اگر پہلے سے موجود نہ ہو تو شیئر کرتا ہوں۔
معذرت خواہ ہوں۔
اگر ممکن ہو سکے تو اس لڑی کو پہلے سے موجود لڑی میں شامل کر دیں۔۔ تھینک یو سخنور صاحب!
"---پھیکا پڑجائیگا جہان سارا
گرچہ کردار کم نہیں ہونگے
خاک دم ہوگا پھر کہانی میں
جب کہانی میں ہم نہیں ہونگے ---"
اللہ رب العزت مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔آمین اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
غزل
(حسرت موہانی)
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے
جی میں آتا ہے کہ اس شوخِ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے
ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے...
غزل
(اسرار الحق مجاز)
تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعیء کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سُن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
آشفتگیء وحشت کی قسم، حیرت کی قسم حسرت کی قسم
اب آپ کہیں...