غزل
(محمود شام - کراچی)
کوئی دستار سلامت نہ گریباں اب کے
کیسے آغاز ہوئی صبحِ بہاراں اب کے
روز ملتا ہے نیا رقصِ جنوں دیکھنے کو
فارغ اک لمحہ نہیں دیدہء حیراں اب کے
وحشتیں توڑ کے ہر بند نکل آئی ہیں
نادم انسان کی حرکت پہ ہے حیواں اب کے
فیصلے زور سے اور جبر سے کرتے ہیں ہجوم
یہ ہے سلطانی جمہور کا...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
بیدار اِس خیال سے اب ہو رہا ہوں میں
آنکھیں کھُلی ہیں لاکھ مگر سو رہا ہوں میں
شاید مری طرح یہ نہیں واقفِ مآل
گو پھُول ہنس رہے ہیں مگر رو رہا ہوں میں
کیا ہو مآلِ سعی مجھے کچھ خبر نہیں
کشتِ عمل میں بیج مگر بو رہا ہوں میں
کرنی کی راہ اور ہے، بھرنی کی راہ اور...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
یہ کس فضا میں نامِ خدا جا رہا ہوں میں
مانندِ جبرئیل اُڑا جا رہا ہوں میں
منزل مری کہاں ہے، مجھے کچھ خبر نہیں
دریا ہوں اپنی رَو میں بہا جا رہا ہوں میں
پردے سے لاؤں کیا تمہیں باہر نکال کر
اپنی نظر سے آپ چھپا جا رہا ہوں میں
نو واردانِ محفلِ ہستی، خوش آمدید...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
فکر کی کون سی منزل سے گزرتا ہوں میں
اب تو اک شعر بھی کہتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
حوصلہ دل کا بڑھاتی ہے عزائم کی شکست
خونِ جذبات سے کچھ اور نکھرتا ہوں میں
کس کے پَرتو سے مری رُوح کو ملتا ہے جمال
کس کی تہذیب کے صدقے میں سنورتا ہوں میں
میری فن کار طبیعت کا یہ...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رُخ تو میری طرف سے پھیرے ہیں
پھر بھی مدِّنظر وہ میرے ہیں
جس طرف میں نگاہ کرتا ہوں
کچھ اُجالے ہیں، کچھ اندھیرے ہیں
آپ کی مُسکراہٹوں کے نثار
پُھول چاروں طرف بکھیرے ہیں
کروٹیں وقت کی انہیں کہیئے
نہ ہیں شامیں نہ یہ سویرے ہیں
میں ہوں اُن کے سلوک کا کشتہ
جو...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
رفتہ رفتہ دُنیا بھر کے رشتے ناتے ٹوٹ رہے ہیں
بیگانوں کا ذکر ہی کیا جب اپنے ہم سے چُھوٹ رہے ہیں
اُن کی غیرت کو ہم روئیں یا روئیں اپنی قسمت کو
جن کو بچایا تھا لُٹنے سے اب وہ ہم کو لُوٹ رہے ہیں
ساقی تیری لغزشِ پیہم ختم نہ کر دے میخانے کو
کتنے ساغر ٹُوٹ چکے...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
ہم اِسے نعمتِ ہستی کا بدل کہتے ہیں
عشق کو لوگ حماقت میں اجل کہتے ہیں
اکبر آباد ہے قرطاسِ محبت کی زمیں
ہم تو ہر اشک کو اک تاج محل کہتے ہیں
وقت نے آج تک اِس راز کی تشریح نہ کی
نام کِس کا ہے ابد، کِس کا ازل کہتے ہیں
کوئی دیوانہ ہی زنجیر میں رہتا ہے اسیر
عین...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
تُو میرے ہر راز سے محرم
پھر بھی مجھ سے واقف کم کم
سب کے لب پر تیرا نغمہ
سب کے ہاتھ میں تیرا پرچم
تجھ میں گنگا، تجھ میں جمنا
تُو ہی تربینی کا سنگم
اور نہیں کچھ خواہش میری
دے دے بخشش میں اپنا غم
موت آئی کس وقت منوّر
ہر گھر میں ہے تیرا ماتم