رکھا ہوا ہے سامنے عرصہ سمیٹ کر
سانسوں نے میرے جسم کا ملبہ سمیٹ کر
جاؤں کدھر کو میں کوئی منزل نہیں رہی
جس دن سے لے گیا ہے وہ رستہ سمیٹ کر
لفظوں کا رزق پاس ہے میری زبان کے
لیکن وہ لے گیا میرا لہجہ سمیٹ کر
اس شخص کے حصار سے نکلا نہیں ہوں میں
آدھا رکھے ادھیڑ کے، آدھا سمیٹ کر
وہ ہے مرے خیال کی...